
افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار…!
پیر 8 اپریل 2019

رانا اعجاز حسین چوہان
(جاری ہے)
افغان امن مذاکرات سے قبل امریکہ اور طالبان دونوں ہی اپنے تئیں مذاکرات سے انکاری تھے، امریکہ طاقت کے زور پر افغانستان میں امن قائم کرنے پر بضد تھا اور اس کا زور سرزمین پاکستان سے ممکنہ افغان دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے تھا۔فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے ناطے پاکستان امریکہ کی خواہشات کی بجاآوری کیلئے جس حد تک جاسکتا تھا گیا، مگر اس کے باوجود امریکہ کی جانب سے روزبروز ڈومور کے تقاضوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ پاکستان تعلقات گرم جوشی سے سرد مہری میں بدلے پھر کشیدگی کی انتہاء پر چلے گئے، اور بالآخر ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے افغانستان میں بھارت کو وسیع تر کردار سونپ دیا گیا۔ اورپاکستان پر بھارت کے افغانستان میں کردار کو قبول کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا مگر امریکہ کا یہ تقاضا تسلیم کرنا پاکستان کیلئے ممکن نہ تھا۔ وزیراعظم پاکستان نے ماضی کے حکمرانوں کے برعکس سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے امریکہ کے سامنے تمام حقائق رکھے، اور باور کروایا کہ افغانستان میں امریکہ کی فوجوں کی موجودگی کے باوجود طالبان دو تہائی علاقے پر قابض ہیں، اور امریکہ کو افغان مسئلہ طاقت کے استعمال کے بجائے مذاکرات سے حل کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ پاکستان ہی نے طالبان اور افغان انتظامیہ کو مذاکرات پر آمادہ کرتے ہوئے انہیں ایک میز پر بٹھا دیا ، مگر بھارت نواز افغان انتظامیہ کے ایک حصے نے مذاکرات کی یہ بیل منڈھے چڑھنے نہ دی۔ اگر افغان انتظامیہ طالبان کو شریک اقتدار کرنے پر آمادہ ہوتی تو شاید مذاکرات میں کسی حد تک کامیابی ممکن تھی، مگر مذاکرات میں افغان حکومت کی دلچسپی طالبان سے ہتھیار چھوڑنے پر رہی۔ ادھر امریکہ مسلسل اٹھارہ سال کی جنگ سے تھک چکا اور اسکی معیشت بھی ڈانواں ڈول ہے، بلاشبہ معیشت ڈوبنے سے بڑی بڑی سلطنتیں ٹوٹ کر بکھر گئیں، سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسوقت امریکہ کو اپنی بقاء کی فکر ہے، ان حالات میں طالبان سے مذاکرات کی پاکستانی تجویز اسکی سمجھ میں آگئی۔افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان گزشتہ سال دسمبر سے کئی دور ہوچکے ہیں جن میں افغانستان میں امن کی بحالی کے حوالے سے توقعات سے بڑھ کر پیشرفت ہوئی، اور فوجوں کے انخلاء، قیدیوں کے تبادلے اور افغانستان میں عبوری حکومت کے معاملات زیربحث آئے ۔ اور ان مذاکرات میں فریقین سنجیدگی اور مثبت رویے کا اظہار کررہے ہیں جس سے افغان مسئلے کے پرامن حل کی امید پیدا ہوئی ہے، اور طالبان کو عبوری حکومت کا حصہ بنانے پر غور کیاجارہا ہے۔
اب امریکہ نہ صرف پاکستان پر بھارت کے افغانستان میں کردارکو قبول کرنے پر زور نہیں دے رہا بلکہ اسے خود بھارت کی افغانستان میں کوئی ضرورت نہیں رہی، کوئی بعید نہیں کہ امریکہ افغانستان سے بھارتی عمل دخل یکسر ختم کردے۔بد قسمتی سے کابل انتظامیہ نئی دہلی کے سحر میں بری طرح جکڑی ہوئی ہے، جبکہ بھارت کو افغان عوام کی ترقی، امن اور جمہوریت سے زیادہ اس امر کی فکر ہے کہ اس کی سرمایہ کاری اور اس کے افغانستان کے قدرتی وسائل کے استحصال کو نقصان نہ پہنچے۔اسی لئے بھارت اور اسکے طفیلی افغان حکمران امریکہ طالبان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلئے سازشیں کر رہے ہیں، کیونکہ وسط ایشیاء پر اپنی اجارہ داری کے خواب دیکھنے والے بھارت کے لیے منتشر اور بدامنی والا افغانستان ہی زیادہ موزوں ہے۔ افغان امن کے لیے مناسب حکمت عملی یہ ہے کہ امریکی انخلاء سے قبل افغانستان میں ایک مضبوط سیٹ اپ قائم کیا جائے جس میں تعاون کیلئے طالبان تیار ہیں جبکہ افغان انتظامیہ روڑے اٹکارہی ہے۔ جبکہ چین اور پاکستان کی طرح روس بھی ایک ایسا ملک ہے جو طالبان کو ایک سیاسی قوت تسلیم کرتا ہے، تاہم روسی حکام کا امریکی وفد اور طالبان کے درمیان مذاکرات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ امریکیوں کے چلے جانے کے بعد افغانستان پر ایک دفعہ پھر انتہا پسندوں کا تسلط قائم نہ ہو جائے۔ افغانستان پر کسی بھی سمجھوتے میں ہمسایہ ممالک کے مفادات اور خدشات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ ماضی میں شر پسند عناصر کی طرف سے افغانستان کی سرزمین کو ان ممالک میں انتہا پسندی اور دہشت گرد رجحانات کے فروغ کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ طالبان کو شریک اقتدار کرکے حکومتی سیٹ اپ میں شامل کیاجائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایشیاء ایک جسم ہے اور اس جسم میں دھڑکتے ہوئے دل کا نام افغان قوم ہے، افغانوں میں فساد کا مطلب ایشیا ء میں فساد، جبکہ افغانوں کی ترقی کا مطلب ایشیاء کی ترقی ہے۔ افغان امن عمل کے لیے پاکستان کی سنجیدہ کوششیں اور خارجہ پالیسی لائق تحسین ہے۔ بلاشبہ امریکہ افغان مذاکرات کی کامیابی سے نہ صرف افغانستان بلکہ پوراخطہ امن کا گہوارہ بنے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رانا اعجاز حسین چوہان کے کالمز
-
جیسی رعایا ویسے حکمران
بدھ 16 فروری 2022
-
ویلنٹائن ڈے… !
منگل 15 فروری 2022
-
یوم یکجہتی کشمیر
ہفتہ 5 فروری 2022
-
صدارتی نظام کی بازگشت!
جمعرات 3 فروری 2022
-
نظام انصاف میں بہتری کی ضرورت
بدھ 2 فروری 2022
-
کرپشن انڈیکس میں اضافہ …!
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
ایمان کی دولت انمول نعمت
جمعہ 28 جنوری 2022
-
خوشگوار زندگی کیلئے ذہنی صحت پر توجہ ضروری
جمعرات 20 جنوری 2022
رانا اعجاز حسین چوہان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.