
مودی کا بھارت فسطائی فکر کا شکار
ہفتہ 4 جولائی 2020

رانا زاہد اقبال
(جاری ہے)
پاکستان اور چین کے دو طرفہ تعلقات و اقتصادی راہداری کا منصوبہ اور دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیابی یہ سب باتیں بھارت کے لئے قابلِ قبول نہیں ہیں۔ اسی لئے چینی فوج کے ہاتھوں بھارتی فوج کی شرمناک رسوائی کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کر کے اسٹاک ایکسچینج جیسا دہشت گردی کا واقعہ کروا دیا ، دہشت گردوں کی پشت پناہی میں پڑوسی ملک کی خفیہ ایجنسی "را " ملوث ہے۔ کراچی میں امن بھارتی ایجنسی "را" کے لئے فرسٹریشن کا باعث ہے۔ مرار جی ڈیسیائی نے اپنے منتخب ہونے کے فوراً بعد " را" کے بجٹ میں تقریباً نصف حد تک کٹوتی کر دی تھی۔ اس کی وجہ انہوں نے بیان کی کہ " را" جنوبی ایشیا میں امن کے قیام میں رکاوٹ ہے اور اس کے طرزِ عمل کی وجہ سے بھارت کے تعلقات خطے کے ممالک سے بہتر نہیں ہو رہے ہیں۔ لیکن بی جے پی نے اپنے ملک میں انتخابات جیتنے کا آسان نسخہ سجھ رکھا ہے کہ پاکستان کو بھارت کے داخلی مسائل کا محور بنائے رکھا جائے۔ یوں بھارت کے حقیقی مسائل حل کئے بغیر ہی انہیں اپنے مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں اور خطے میں مستقل طور پر ایک تناوٴکا ماحول برقرار رہتا ہے۔ اپنے پچھلے دورِ اقتدار میں مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی ساری دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پاکستان ہی علاقے میں تمام تر مسائل کا ذمہ دار ہے۔ مودی نے اسی ایجنڈے پر دوسرے انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی چونکہ بھارت کے اقتصادی مسائل بہت زیادہ ہیں تو ظاہر ہے یہی حل وہاں کے سیاستدانوں کو زیادہ آسان لگتا ہے۔
اسی تناظر میں وزیرِ اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندو توا کے نظریے پر کاربند مودی حکومت خطے اور ہمسایوں کے لئے خطرہ بن رہی ہے۔ اس دہشت گردانہ کاروائی کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے کھل کر بھارت کے واقعہ میں ملوث ہونے کا ذکر کیا۔ ملک کو بچانے کے لئے ایسی ہی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے جو جرنیلوں کو آڑے وقت میں حوصلے کے ساتھ ڈائریکشن بھی دے سکے۔ دشمنوں کو آموں کی پیٹیاں، ساڑھیاں بھیجنے اور اپنے بچوں کی شادیوں میں شریک کرنے کی بجائے ان کی جنگی دھمکیوں کا شیر کی دھاڑ سے جواب دینا چاہئے۔ یہ کام صرف سپہ سالار کا ہی نہیں ہے۔ بنیادی طور پر ہماری سیاسی قیادتیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کی بات تو کرتی ہیں لیکن عملی طور پر اس میں خود سامنے آ کر کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ سیاسی قیادت نے سارا بوجھ فوجی قیادت پر ڈالا ہوا ہے۔ بعض سیاسی لوگ اور سیاسی جماعتوں سمیت اہلِ دانش کا ایک طبقہ اس سارے عمل میں فوج کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ان کے اثر نفوذ کو بھی جمہوری نظام کے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ اس لئے مسئلہ محض انتظامی کامیابیوں سے مشروط نہیں ہونا چاہئے، یہ فوری نوعیت کی کامیابی ہوتی ہے جب کہ اصل کام پوری قوم کی فکری رہنمائی کرنا ہے۔ یہ کام فوج نہیں کر سکتی اسے ایک مضبوط سیاسی قیادت، جماعتوں، اہلِ دانش، علمائے اکرام، نوجوان طبقات، میڈیا اور سول سوسائٹی جیسے لوگوں کو اس جنگ سے نمٹنے کے لئے دانشورانہ محاذ پر اپنا مٴوثر کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔
سی پیک منصوبہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی کا استعارہ بننے جا رہا ہے جب کہ پاکستان کے دشمن عناصر کا مقصد پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے سفر کو ناکام بنانا ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملہ در حقیقت پاکستان کی داخلی سلامتی، معیشت اور چائنہ اقتصادی کوریڈور پر حملہ تھا جس کو ہمارے سیکورٹی اداروں کے جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر ناکام بنا دیا اور قوم کو دہشت گردی اور تخریب کاری کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ایک ولولہ تازہ عطار کر دیا۔ اس صورتحال کے بعد اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایسے واقعات کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے خاص طور پر چینی شہریوں، تنصیبات اور اہمیت کے حامل منصوبوں کو نشانہ بنائے جانے کی کوششوں کا اندیشہ مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ خطے میں پاکستان اور چین ہی بھارت کے ہدف ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان کی جانب سے کشمیری عوام کی دلیرانہ اخلاقی و سفارتی حمایت اور لداخ میں چین سے فوجی ہزیمت کی وجہ سے بھارت تلملا رہا ہے۔ پاکستان اور چین کے خلاف اپنے مہروں کو استعمال کر رہا ہے چنانچہ ہمارے سیکورٹی اداروں کو واقعے کے محرکات اور اس میں ملوث عناصر اور ان کے پشت پناہوں کو بے نقاب کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔ دشمن ہماری سر زمین پر ایک ہائبرڈ جنگ چھیڑنے کے لئے سرگرم ہے جس کا مقصد نوجوانوں کو لسانیت، صوبائیت اور فرقہ واریت کے نام پر برین واش کر کے ریاست کے مقابلے میں اسلحہ اٹھانے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ لہٰذا پہلے سے زیادہ چوکس رہنے کی ضرورت ہے مباداہزاروں جانوں کی قربانیوں سے آپریشن ضربِ عضب کی جو بے مثال کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں ان کے ضائع ہونے کے خدشات قومی سلامتی اور خود مختاری یعنی پاکستان کی آزادی اور سا لمیت کے لئے خاکم بدہن شدید خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد ملک گیر سطح پر امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے بلا تاخیر مٴوثر اور نتیجہ خیز اقدامات کئے جانے چاہیں کیونکہ ایسی صورتحال نہ صرف عوام کے ا عتماد کو مجروح کرے گی بلکہ پوری قومی زندگی پر اس کے ناخوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور بیرونی دنیا میں ملک کی بدنامی بھی ہو گی۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ جب بھی پاکستان ترقی کی طرف گامزن ہونے لگتا ہے پاکستان میں غیر ملکی اشاروں پر کام کرنے والے ہمارے سیاست دان سرگرم ہو جاتے ہیں اور اپنے غیر ملکی آقاوٴں کے اشاروں پر ملک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رانا زاہد اقبال کے کالمز
-
آج مہنگائی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ
اتوار 25 جولائی 2021
-
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر فیصل آباد میں منعقد ہونے والی "انیسویں سالانہ وویمن کانفرنس" کا احوال
جمعرات 8 اپریل 2021
-
عمران خان کیوں مقبول ہوئے؟
پیر 23 نومبر 2020
-
کشمیر پر غاصبانہ تسلط کو طوالت دینے کے بھارتی ہتھکنڈے
اتوار 1 نومبر 2020
-
خدا کرے ایسا نہ ہو!
پیر 26 اکتوبر 2020
-
اقوامِ متحدہ کی 75 ویں سالگرہ
منگل 20 اکتوبر 2020
-
پلاسٹک بیگز کا کچرا ماحول کے لئے انتہائی مضر
پیر 12 اکتوبر 2020
-
عمران خان ایک تجربہ ہیں انہیں کامیاب ہونا چاہئے
اتوار 27 ستمبر 2020
رانا زاہد اقبال کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.