معاشی بحران اور سیاسی منظر نامہ!

پیر 1 جولائی 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اس قدر بحرانی کیفیت سے گذر رہی ہے کہ ملک کا ہر فرد اس صورتحال پر دل گرفتہ ہے ڈالر کے روزافزوں اضافہ کے پیش نظر ملکی تاریخ میں پاکستانی روپیہ پہلی بار اس قدر گراوٹ کا شکار ہوا ہے۔ملکی معشیت کی دگر گوں صورتحال سے جہاں موجودہ حکومت کو ریاستی امور چلانے کے لئے پریشانی کا سامنا ہے وہیں اس صورتحال سے عام فرد پر اس کے براہ راست اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت نے جب سے زمام اقتدار سنبھالا اس وقت سے لیکر اب تک اسے شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہاں تک کہ غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے خزانے میں پیسے نہیں ہیں وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں موجود دستیاب سالانہ وسائل کا نصف سود کی مد میں صرف ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

معاشی حالات کے باعث حکومت نے ملکی معشیت کو سنبھالا دینے کے لئے دوست ممالک سے بھی رابطے کئے پاکستان کے دوست ممالک سعودی عرب‘چین اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے بیل آؤٹ پیکج دئیے جس سے ملکی معشیت کو کچھ آکسیجن ضرور فراہم ہوئی لیکن اس کے باوجود حکومت معشیت میں استحکام لانے میں اس حد تک کامیاب نہیں ہوسکی جس سے عام فرد کو اس بات کا یقین ہو سکے کہ حکومت جلد معاشی بحران پر قابو پا لے گی۔

امیر قطر شیخ تمیم بن حمد الثانی کا دورہ پاکستان کا اگر جائزہ لیا جائے تو ملکی معشیت کو استحکام دینے کے لئے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے امیر قظر کا پاکستان کا دورہ جہاں دونوں ممالک کے قریبی اسٹرٹیجک تعلقات کا باعث بنا وہیں اس دورہ کو عالمی توجہ کا مرکز بھی سمجھا جاتا رہا ہے کیونکہ یہ دورہ امیر قطر نے ایسے وقت میں کیا جب امریکہ اور ایران کے درمیان ایک اعصابی جنگ چھڑی ہوئی ہے اور دوسری جانب روس‘چین‘ترکی‘پاکستان ایک بڑا عالمی بلاک ترتیب دے رہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان اور امیر قطر کے درمیان ہونیوالی ملاقات میں دونوں ممالک نے دو طرفہ قریبی تعلقات‘سیاسی و معاشی پارٹنر شپ بڑھانے‘تجارت‘زراعت‘خوراک‘کے شعبوں میں اشتراک‘تیل و گیس کی تلاش‘پیداوار میں تعاون بڑھانے اور توانائی و سیاحت میں سرمایہ کاری کرنے پر اتفاق ہوا اور اس کے ساتھ سعودی عرب‘چین اور متحدہ عرب امارات کے بعد قطر نے بھی پاکستان کو تین ارب ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔

عالمی میڈیا بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق قطر بغیر شرائط پر ڈیپازٹ و سرمایہ کاری کے لئے پاکستان کو تین ارب ڈالر فراہم کر ے گایہ رقم ترقیاتی کاموں اور قرضوں کی ادائیگی پر بھی خرچ کی جا سکتی ہے۔بہر حال جہاں دوست ممالک کی جانب سے تعاون کے پیش نظر ان ممالک کے ساتھ تجارت کی نئی راہیں کھلیں گی وہیں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوگا جس سے یقیننا پاکستان کی معشیت کو دوام ملے گا۔

گزشتہ دنوں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں پاکستانی معشیت چیلنجز اینڈ وے فارورڈ کے عنوان سے سیمینار منعقد ہوا سیمینار سے اپنے خطاب میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ملک مشکل معاشی حالات سے دوچار ہے ماضی میں مشکل فیصلے نہ کرنے سے معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے یہ وقت ایک قوم بننے کا ہے ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی اشد ضرورت ہے حکومت نے طویل مدتی فوائد حاصل کرنے کے لئے مشکل فیصلے کئے ہم سب کو مشکل حکومتی اقدامات کی کامیابی کے لئے ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے خطاب میں حکومت اور اپوزیشن کو یہ پیغام بھی دیا کہ ملک کے اہم قومی معاملات پر حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بات چیت ضروری ہے انہوں نے اس عزم کو بھی دہرایا کہ اس معاشی مشکلات سے جلد سرخرو ہو کر نکلیں گے۔جنرل قمر باجوہ نے ملکی حالات کے پیش نظر جس درد مندی کے ساتھ حکومت‘اپوزیشن اور عوام کو آگے بڑھ کر معاشی حالات کی درستگی کے لئے دعوت دی ہے اس سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ جیسے ملک میں معاشی ایمرجنسی کا نفاذ ہونے جا رہا ہے تاکہ ملکی معشیت کو پٹڑی پر گامزن کیا جا سکے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک و ملت کی یہ خوش بختی ہے کہ ایسے حالات میں جب ملک بدترین معاشی مشکلات سے دوچار ہے سول اور ملٹری قیادت نہ صرف ایک صحفہ پر ہے بلکہ دونوں قیادتیں ملکی معشیت کی بہتری کے لئے ہر ممکن اقدامات کے لئے بھی پر عزم دکھائی دے رہی ہیں ۔ان حالات کے پیش نظر اگر ملک کی سیاسی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو حکومت نے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود پارلیمانی محاذ پر بجٹ منظور کروا کر ایک مشکل مرحلہ طے کر لیا ہے مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں اپوزیشن کی ہونیوالی حالیہ اے پی سی کا خلاصہ یہ ہے کہ اپوزیشن ابھی تک حکومت مخالف ایجنڈا کے کسی ایک پوائنٹ پر متفق نہ ہو سکی اور وہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی جس کے لئے حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد وجود میں لایا گیا۔

اب اپوزیشن کی حالت یہ ہے کہ ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں ملکی معشیت کے پیش نظر وسط مدتی انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے حالانکہ اپوزیشن کی ہونیوالی اے پی سی میں اس مطالبہ کا ذکر تک موجود نہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن کا ابھی تک ایک دوسرے پر مکمل اعتماد نہیں ۔دوسری طرف اپوزیشن نے اے پی سی میں چےئرمین سینٹ کی تبدیلی کے لئے جو متفقہ فیصلہ کیا سینٹ چےئرمین کو ہٹانے کے لئے ابھی تک حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ سینٹ میں صادق سنجرانی کی تبدیلی بھی اپوزیشن کے لئے کوئی ترنوالہ ثابت نہیں ہوگی سینٹ میں ممبران کی تعداد ایک سو چار ہے جبکہ اپوزیشن ارکان کی تعداد چھیاسٹھ ہے اور چےئرمین سینٹ کی تبدیلی کے لئے تریپن ووٹ درکار ہوں گے۔چونکہ حکومتی ارکان موجودہ چےئرمین سینٹ کی حمایت میں ہیں یقیننا حکومت مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے لئے جوڑ توڑ کریگی کیونکہ سینٹ میں موجود مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے بعض ارکان صادق سنجرانی کی تبدیلی کے حق میں نہیں ہیں اس لئے سینٹ میں اپوزیشن کی جانب سے لائی جانیوالی ممکنہ عدم اعتماد تحریک کامیاب ہو گی یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے ۔

مشکل معاشی حالات کے پیش نظر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی رسہ کشی مزید ملک کو مشکلات سے دوچار کر رہی ہے سنجیدہ عوامی حلقے ملک میں جاری اس سیاسی عمل کو پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھ رہے۔ سیاستدانوں کو ان حالات میں غیر سنجیدہ روایتی سیاست سے ہٹ کر سنجیدہ ہو کر ملک کو معاشی بھنور سے نکالنے کے لئے ایک صحفہ پر متحد ہونے کی ضروت ہے ۔اس وقت ملک میں جو معاشی بحران نے سر ابھارا ہے اس سے ہر عام و خاص پریشان ہے ۔

جب بھی کوئی ملک امداد اور قرض لیتا ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی معشیت انحطاط کا شکارہے ۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاستدانوں کو چاہیے کہ اپنے تمام تر مفادات سے ہٹ کر ملکی معشیت کو مضبوط کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ ۔ ۔خطے کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر دوست ممالک پاکستان کے ساتھ قریبی اسٹرٹیجک تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کے بھی خواہشمند ہیں یقیننا حالات کی کروٹ پاکستان کو ضرور روشن مستقبل سے نوازے گی ۔

ملک کو درپیش معاشی چیلنجز سے نجات دلانے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ اپوزیشن کے ساتھ مثبت بات چیت کا آغاز کرے پاکستان کی زبوں حال معشیت کو استحکام دینے کے لئے ایک ہو کر ہی ہم ملکی سلامتی و بقاء کے ضامن بن سکتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :