بچوں پر جنسی تشدد‘ ذمہ دار کون؟

پیر 23 ستمبر 2019

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

قصور کی تحصیل چونیاں میں درندہ صفت ملزمان نے جس طرح تین کم سن بچوں کو اغوا کر کے جنسی استحصال کا نشانہ بنا کر قتل کیا اس دلدوز واقعے نے پوری قوم کے سر پر سوگ کی چادر تان دی اس ہولناک واقعہ سے دل افسردہ اور آنکھیں اشکبار ہیں۔ابھی تو قصور میں معصوم زینب کے اغوا کے بعد قتل کے اندوہناک واقعہ کی یاد قوم کے دل و دماغ پر نشتر بن کر چھید کر رہی تھی کہ ننھے فیضان‘علی حسنین اور سلمان کو قصور کی بے رحم دھرتی نے نگل لیاتینوں بچوں کے خاندان ان اغوا ہونیوالے معصوم بچوں کا ہجر دلوں میں سموئے آنکھوں میں امید کے دیپ جلائے ان کے گھر لوٹ آنے کے منتظر تھے لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کے پھول جیسے بچوں کے لئے سفاک ملزمان قصور کی دھرتی کو قتل گاہ بنا دینگے۔

جیسے ہی ان معصوں کے قتل کی خبر نے قصور شہر کے باسیوں کے در پر قہر بن کر دستک دی تو لوگ جوق در جوق گھروں سے نکل آئے پورا شہر سوگ میں بند‘مظاہرے تھانے پر دھاوا تین بچوں کے قتل نے لمحوں میں ہنستے بستے شہر قصور کے باسیوں کو احساس تحفظ سے عاری نظام سے ٹکرانے پر مجبور کر دیاپورا شہر ان کم سن بچوں کے خون ناحق کا ارباب اختیار اور اس فرسودہ نظام سے حساب مانگ رہا تھا۔

(جاری ہے)

قصور میں ان تین بچوں کے اغوا کے بعد قتل کے واقعات ملک میں بسنے والے ہر والدین کے لئے لمحہ فکریہ اور ارباب اختیار کے لئے غوروفکر کے متقاضی ہیں کہ آج کے معاشرے میں بچوں کی آزادی اور احساس تحفظ پر شب خون مارنے والے سفاک‘درندہ صفت ملزمان کی پشت پر آخر کون لوگ کھڑے ہیں جو معصوم کلیوں کا جنسی استحصال کر کے انہیں مسل رہے ہیں ۔ہر ایسے واقعہ کے بعد اقتداری ایوانوں سے مذمت‘ملزمان کو عبرت ناک سزا‘جے آئی ٹی‘اظہار افسوس‘ہمدردیاں‘معطلیاں‘تبادلے جیسے احکامات اور بیانات سننے کے باوجود ایسے واقعات اس فرسودہ نظام کے منہ پر طمانچے رسید کر رہے ہیں۔

ضلع قصور کی دھرتی معصوم بچوں اور بچیوں کے لئے ایک قتل گاہ بن چکی ہے معصوم زینب کے اغوا اور قتل کی لرزہ خیز واردات کے بعد اگر قانون حرکت میں رہتا تو ایسے واقعات کا سلسلہ رک سکتا تھالیکن چونیاں واقعہ نے پولیس کے فرسودہ اور بے حس نظام پر مہر تصدیق ثبت کر دی پولیس نظام میں عملی اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے پورے ملک میں عدم تحفظ کی فضا قائم ہے۔

قصور میں جب 2016ء میں ایک جنسی سکینڈل سامنے آیا تو درجنوں بچوں کیساتھ زیادتی کر کے ویڈیو اور تصاویر بنا کر بلیک میل کرنے والے دو ملزمان حسیم عامر اور فیضان مجید کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید اور تین لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی اس جنسی سیکنڈل کے حوالے سے 19مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کئے گئے جن میں سے چار مقدمات انسداد دہشت گردی عدالت سے دیگر عدالتوں میں منتقل ہوئے جبکہ چودہ مقدمات زیر التواء ہیں ضلع قصور سے پانچ کلو میڑ کے فاصلے پر واقع حسین خان والا میں پیش آنیوالے اس جنسی سیکنڈل میں با اثر سیاسی شخصیات پائی گئی تھی۔

اس واقعہ کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں بچوں کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کرکے ویڈیوز اور تصاویر بنانے والے تین ملزمان کو گرفتار کیا گیا ان ملزمان سے ملنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا تھا کہ سترہ سے زائد بچے ایسے تھے جن کی عمریں چودہ سال سے کم تھی اور اس گروہ کے سرغنہ کے گھر سے ہتھکڑیاں اور زنجیریں برآمد کی گئی ۔ارباب اختیار کو سنجیدگی کیساتھ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے مئوثر قانون سازی کر کے ٹھوس حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے غیر سرکاری تنظیم ساحل کی 2019ء جنوری تا جون کی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 1304بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیااسی تنظیم کی رپورٹ کے مطابق سال 2018ء میں 7277بچوں سے جنسی تشدد کے واقعات سامنے آئے جن میں سے بچوں کو جنسی تشدد کے بعد قتل کرنے کے 92واقعات رپورٹ کئے گئے رپورٹ کے مطابق اوسطا روزانہ دس بچے جنسی استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔

صوبہ پنجاب میں گذشتہ سات ماہ کے دوران 126بچے سفاک ملزمان کی ہوس کا شکار ہو چکے ہیں ان مقدمات میں 129ملزمان کو نامزد کیا گیا جن میں سے بیشتر پولیس کی ناقص تفتیش اور ملی بھگت سے ضمانتوں پر رہائی پا چکے ہیں۔ان دلدوز حالات کے پیش نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں رائج پولیس کا نظام والدین کے معصوم جگر گوشوں کے تحفظ کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتاجس طرح ملک میں تواتر کیساتھ ایسے واقعات والدین کی گودیں اجاڑ کر ان کے گھروں کے درودیوار سے معصوم بچے اور بچیوں کی چہکاریں نوچ کر ویران کر رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں اس سفاک کھیل میں ملوث ملزمان اتنے طاقتور ہیں جن کے سامنے ارباب اختیار اور یہ پولیس نظام بھی گھٹنے ٹیک چکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان معصوموں کا لہو ان کے والدین کس کے ہاتھ پر تلاش کریں کیا بے گناہوں کے لہو سے سیراب ہو کر یہ فرسودہ نظام عوام کے سروں پر یونہی تلوار بن کر لٹکتا رہے گا یہ سوال ریاست مدینہ کے حکمرانوں کے سر فرض کی طرح قرض ہے۔اگر یہ نظام مظلوم کی داد رسی اور عوام کے جان و مال کو تحفظ دینے میں ناکام ہے تو پھر اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اس سوال کا جواب بڑا سادہ سا ہے کہ پاکستان کا آئین اس کا ذمہ دار ریاست کو ٹھہراتا ہے۔

ریاست مدینہ کے حکمرانوں کو چاہیے کہ ان واقعات کا جائزہ لے کر اصل محرکات تک پہنچے اور اس بگڑے پولیس نظام کی کل سیدھی کرنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر عملی اقدامات اٹھائے تاکہ کوئی بھی سفاک ذہنیت کا ملزم پولیس کے مضبوط و مربوط عملی نظام کے نفاذ سے ایسے دلخراش واقعہ کو دہرانے سے قبل سو بار سوچنے پر مجبور ہو۔اب معصوم بچوں اور بچیوں کی عصمتوں کے بیوپار اور موت بانٹنے والے درندہ صفت مجرمان اور ان کے سہولت کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے سے ہی ہم اپنے بچوں کو پوری آزادی اور احساس تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت نئے پاکستان کی بنیاد اسی صورت رکھ سکتی ہے جب ایسے نظام کا قیام عمل میں لائے گی جس کے سائے میں عام آدمی کے جان و مال کا تحفظ ریاست عملا اپنی ذمہ داری سمجھے گی اور عام آدمی کو احساس تحفظ فراہم ہو گا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب اقتداری طبقات اور اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کا قانون بن سکتا ہے تو مفاد عامہ‘بچوں کی حفاظت اور مجرمان کو سخت سزا دینے کے لئے قانون سازی کیوں نہیں ہو سکتی یہ موجودہ حکومت کی اولین ذمہ داری میں شامل ہے کہ قانون کے عملی نفاذ کے ذریعے معاشرہ میں ایسا ماحول فراہم کرے جس میں عوام اور معصوم بچے اپنے آپ کو محفوظ تصور کر سکیں اگر حکومت ایسا ماحول فراہم کرنے میں ناکام رہی تو پھر ایسے واقعات جہاں قوم کو درد‘کرب و الم کی کیفیت سے دوچار کرتے رہیں گے وہیں ہمارا مستقبل ہمارے بچے سربازار جنسی استحصال کا نشانہ بن کر قتل ہوتے رہیں گے اس سے قبل کہ دیر ہو جائے حکومت کو ایسے واقعات کے تدارک کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :