پی ڈی ایم کی احتجاجی سیاست؟

منگل 20 اکتوبر 2020

Rao Ghulam Mustafa

راؤ غلام مصطفی

ملک میں حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے گوجرانوالہ میں ہونیوالے پہلے جلسے سے پاکستان کے تین بار منتخب ہونیوالے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ویڈیو لنک کے ذریعے کئے گئے خطاب میں پاک فوج کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ پر ن لیگ کی حکومت کو رخصت کرنے اور عمران خان کی حکومت کو اقتدار میں لانے کے لئے سنگین الزامات عائد کئے۔

یہ پہلا موقع نہیں اس سے قبل بھی مسلم لیگ ن کے راہنما نواز شریف کی جانب سے عمران خان کی حکومت کے علاؤہ اداروں کو بھی نشانہ بنایا گیا پہلے بھی پی ڈی ایم کے تحت ہونیوالی اے پی سی میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقابلہ وزیر اعظم عمران خان سے نہیں بلکہ ان کی جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کیخلاف ہے۔

(جاری ہے)

گوجرانوالہ جلسہ میں جو نواز شریف کا کھل کر اداروں سے ٹکراؤ کا مزاحمتی بیانیہ سامنے آیا ہے اور اس سے پوری دنیا میں جو پیغام دینے کی کوشش کی گئی اسے جہاں سنجیدہ عوامی حلقوں نے نواز شریف کے فوج مخالف بیانیے کو مسترد کیا وہیں عوامی حلقوں میں جاری بحث سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عوام آج بھی پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔

پی ڈی ایم کی سیاست کے اصل کارڈ گوجرانوالہ جلسہ میں ہی شو ہو چکے ہیں اور عوام جان چکی ہے کہ اس نام نہاد مفاداتی اپوزیشن اتحاد کا اصل ٹارگٹ پاک فوج ہے وہی مفادات‘اختیارات اور اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد جس میں عوام کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔نواز شریف کی جانب سے جنرل قمر جاوید باجوہ پرلگائے جانیوالے الزامات کے بعد جو فکر مند صورتحال ملک میں احتجاجی سیاست کے نام پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اسے ملک دشمنی قرار دینا قبل از وقت نہیں ہوگا کیونکہ میاں نواز شریف کا اداروں کیخلاف مزاحمتی بیانیہ ملک میں ایک خطرناک تقسیم کے وجود کا موجب بن سکتا ہے جس کے لئے یہ ملک و ملت متحمل نہیں ہو سکتا ۔

دنیا کے جمہوری ممالک میں اپنے جائز مطالبات کے حق میں آواز بلند کرنا ایک جمہوری حق تصور کیا جاتا ہے لیکن کسی بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام جیسی صورتحال پیدا کر کے اسے ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں کیا جا سکتا اس پر تو کوئی دلیل کارگر نہیں کہ عمران خان ملک کے داخلی مسائل پر پوری گرفت نہیں رکھ سکے بے روزگاری‘غربت اور مہنگائی جیسے مہلک مسائل انسانی جسموں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں یہی نہیں بلکہ حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی مئوثر اقدامات بھی نہیں اٹھائے گئے جس کے باعث مسائل میں بتدریج اضافہ عام آدمی کو مسائل کی عمیق دلدل میں دھکیل رہا ہے۔

عمران خان حکومت کاباقی ماندہ ڈھائی سالہ اقتدار بھی اگر ریلیف فراہم کرنے سے عاجز رہا تو عام آدمی اور متوسط طبقہ کی چیخوں سے فلک میں شگاف پڑ جائے گا موجودہ حالات قطعاروشن کل کی ضمانت نہیں دے رہے اور یہ حالات اقتداری طبقات کے لئے غورو فکر کے متقاضی ہیں۔بہر حال جمہوری ممالک میں سیاست مفاد عامہ کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں تیس سال زمام اقتدار سنبھالے رکھنے والے ماضی کے حکمران اپنے اپنے اقتدار کے چھن جانے کا نوحہ لئے سڑکوں پر ہیں ۔

اپنی غلطیوں پر پشیمان ہونے کی بجائے اداروں پر کھل کر وار کرتے نظر آرہے ہیں میرا سوال ایک عام آدمی کی طرح بڑا سادہ سا ہے عمران خان سے آپ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھر بنا کر نہ دینے پر احتجاج کے ذریعے محاسبہ کا پورا حق رکھتے ہیں آپ یہ پوچھنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ ملک میں مہنگائی‘غربت اور بیروزگاری جیسے بھاری بھر کم مسائل حل نہ ہونے کے باعث عام آدمی کی کمر سے خم کیوں نہیں نکل سکا لیکن ایک سوال ماضی کے حکمرانوں سے بھی ہے عمران خان ایک کھلاڑی تو ہے لیکن سیاست کا اناڑی اور نا تجربہ کار سہی لیکن جو تیس سال حکمران رہے انہیں ادراک نہیں تھا کہ جمہوریت میں روٹی‘کپڑا‘مکان‘تعلیم اور صحت جیسی انسانی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہوتا ہے کیا ن لیگ‘پیپلز پارٹی کے پاس اس کا کوئی جواب ہے جن کی اپنی سیاسی جماعتیں بد ترین ڈکٹیٹر شپ کی عکاس ہیں جو اپنے تیس سالہ دور اقتدار میں بھی عوام کو جمہوری لوازمات سے آراستہ نہ کر سکیں۔

ہمارا مقابلہ اپنے وطن عزیز سے چار گنا بڑے دشمن بھارت کے ساتھ ہے آج اگر ہم اس دھرتی پر چین کی نیند سوتے ہیں تو یہ پاک فوج کی لازوال قربانیوں کا ثمر ہے ان طوطا چشم سیاستدانوں کو سوچنا چاہیے کہ جس فوج کو موردالزام ٹھہرانے کی کوشش کر رہے ہیں تین دن قبل اسی فوج کے بائیس جوان دھرتی کے لئے قربان ہو گئے۔دشمن اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے اپنے تمام مہرے آہستہ آہستہ سامنے لا رہا ہے سب سے خطرناک صورتحال ہمارے مشرق میں پروان چڑھ رہی ہے فی الحال کشمیر ایشو نظر آتا ہے لیکن دشمن ایک انتہائی خطرناک منصوبے کا آغاز کرنے جا رہا ہے اگر خدا نخواستہ اگر دشمن کامیاب ہو گیا تو پاکستان کا نشان نہیں بچے گا۔

بہر حال حالات کیا رخ اختیار کرنے جا رہے ہیں اس کے لئے الگ سے کالم درکار ہے لیکن اس وقت سیاسی و معاشی طور پر مستحکم پاکستان کے وجود کی اشد ضرورت ہے ملک میں جاری عدم استحکام سے دوچار سیاست ملک کی بنیادوں کو کمزور تر کرتی جا رہی ہے ۔دشمن کی تاک اور منصوبے کو عملی جامہ نہ پہننے دیں یہی پاکستان کی سلامتی اور بقاء کا تقاضا ہے سیاست کو سیاست سمجھ کر کریں اسے اداروں کے خلاف استعمال کر کے اپنے مفادات‘اختیارات اور اقتدار کے حصول کا ذریعہ نہ بنائیں۔

آخرمیں وزیراعظم عمران خان سے بھی التماس ہے کہ مسائل اپنی جگہ ہمالیہ بنے کھڑے ہیں ر یلیف نہ ملے تو چھ ماہ بعد ہی یہ عوام حکمرانوں کو جھولیاں اٹھا کر کوسنا شروع کر دیتی ہے لیکن تبدیلی سرکار کو تو ڈھائی سال کا عرصہ گذر چکا ہیعوام کو روایتی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائیں حکومتی وسائل بروئے کار لا کر مسائل حل کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :