24مارچ کے دن وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے مشیر اطلاعات پنجاب ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ تین اضلاع کا دورہ کیا اوران تینوں اضلاع کے لئے 25 ارب روپے کے بڑے میگا ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا ۔ شیخوپورہ‘گوجرانوالہ ‘ حافظ آباد کے دورہ کے دوران وزیراعلیٰ نے ان اضلاع کی پسماندگی اور مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اربوں روپے کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا جو کہ خوژ آئند اقدام ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت اپنے تین سال مکمل کرنے جا رہی ہے ملک میں مہنگائی‘بے روزگاری اور غربت میں اضافہ جیسے مسائل حکومت کے ناکافی اقدامات کی بدولت عام آدمی کے لئے تو سوہان روح بنے ہوئے لیکن ترقیاتی کام بھی بڑی سست روی کا شکار ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب نے ایک دن کے دوران بڑے شارٹ ٹائم میں ان تینوں اضلاع کا دورہ مکمل کیا راقم کا تعلق چونکہ ضلع حافظ آباد سے ہے وزیراعلیٰ کی جانب سے ضلع حافظ آباد کی ترقی اور اس کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے سات ارب بیس کروڑ کے ترقیاتی پیکج کا اعلان کیا گیااور وزیر اعلی نے حافظ آباد میں اپنے مختصر خطاب میں پنجاب کے تمام اضلاع میں ترقیاتی پیکج لانے کا بھی عندیہ دیا ہے اس خطیر رقم سے ضلع حافظ آبادکے تمام مسائل حل نہ سہی لیکن اس کی پسماندگی اور مسائل میں کمی ضرور واقع ہو گی ۔
(جاری ہے)
ضلع حافظ آباد کی سیاست میں برجدارہ گروپ ترقیاتی اور عوامی خدمات کے حوالہ سے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے چوہدری مہدی حسن بھٹی گروپ کی ہی عملی کاوشوں کا ثمرہ ہے کہ حافظ آباد جیسے پسماندہ اور چھوٹے ضلع میں وزیراعظم نے اپنے دورہ کے دوران یونیورسٹی اور جدید ڈی ایچ کیو ہسپتال کے قیامکا اعلان کیا تھا جس پر عملی کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔
دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ تعلیم اور صحت کی سہولیات کی حصولیابی کے بعد ہی ترقی کے زینہ پر قدم رکھ سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ارکان اسمبلی اپنے علاقوں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے صحت اور تعلیم کی سہولیات عام آدمی کو بہم پہنچائیں اور موجودہ حکومت کے اس اقدام سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں یہ ضرور شامل ہے کہ تعلیم اور صحت کی سہولیات سے عام آدمی آراستہ ہو اسی میں قوموں کی بقاء اور ترقی کا راز بھی مضمر ہے ۔
وزیر اعلیٰ کی آمد کے سلسلہ میں ڈپٹی کمشنر آفس کے سر سبز لان میں برجدارہ گروپ کے بزرگ سیاستدان سابق ممبر قومی اسمبلی چوہدری مہدی حسن بھٹی‘ممبر قومی اسمبلی چوہدری شوکت علی بھٹی‘سابق ضلع ناظم چوہدری مبشر عباس بھٹی اور اسی خاندان کے جواں سپوت چوہدری سکندر نواز بھٹی نے ضلعی انتظامیہ کی معاونت سے کرونا ایس او پیز پر عملداری کے ساتھ جو مختصر بزم سجائی راقم بھی اس تقریب کا حصہ تھا اس لئے اس تقریب کے احوال کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔
وزیراعلی پنجاب کے پنڈال میں آنے سے قبل مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان جب تشریف لائی تو سب سے پہلے مقامی صحافیوں سے ملاقات کی چےئرمین ڈسٹرکٹ پریس کلب حافظ آباد رانا محمد ارشد انجم نے انہیں مقامی صحافیوں کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو یاد دلایا آپ نے گزشتہ سال حافظ آباد آمد پر پریس کلب کے لئے دس لاکھ روپے گرانٹ کا علان کیا تھا جس پر ایک بار پھر صحافیوں کے ساتھ اس غیر رسمی گفتگو میں فردوس عاشق اعوان نے یہ گرانٹ سود سمیت دینے کی یقین دہانی کروائی اس کے علاؤہ صحافتی کالونی پر بھی عملی کارروائی کے لئے جلد مقامی صحافیوں کو وزیراعلیٰ ہاؤس بلانے کا عندیہ دیا ۔
ڈاکٹر فردوس عاشق کو جہاں پنجاب حکومت کی بہتر کارکردگی اور درست سمت کے تعین کو اجاگر کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے وہیں صحافتی صنعت کو فروغ دینے اور اس شعبہ سے جڑے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری کا بار بھی انہی کے کندھوں پر ہے ۔حکومت کو ترجیہی بنیادوں پر ہر ضلع‘تحصیل اور مضافاتی علاقوں کے پریس کلب سے منسلک صحافیوں کے مسائل کو ترجیہی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ علاقائی صحافی کل کی طرح آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
مقامی صحافیوں کی جانب سے پی ڈی ایم کے سیاسی مستقبل پر جب وزیراعلیٰ سے سوال کیا گیا تو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے دبیز سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ پی ڈی ایم اپنی موت آپ مر چکی ہے اس بات کی نفی تو ممکن ہی نہیں کہ سیاست میں کوئی بات بھی حرف آخر نہیں سمجھی جاتی اتار چڑھاؤ سیاست کا حصہ ہے ۔دنیا میں کہیں بھی سیاست اس انداز سے کروٹیں نہیں بدلتی جیسے ملک عزیز کی سیاست میں غیر یقینی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔
حکومت مخالف گیارہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل وجود میں آنے والے اپوزیشن اتحاد کے بارے کل تک عوامی‘سیاسی اور صحافتی حلقوں میں مختلف سوالات اور قیاس آرائیاں موضوع گفتگو تھی پی ڈی ایم حکومت کے تخت کو تاراج کرنے کے لئے کون سے سیاسی حربے آزمائے گی‘ لانگ مارچ کس حد تک کامیاب ہوگا‘حکومت مخالف لانگ مارچ کا پڑاؤ جڑواں شہر اسلام آباد اور راولپنڈی میں سے کس کا انتخاب کرے گا ‘کیا حکومت اس سیاسی دباؤ کو برداشت کر پائے گی یا نہیں حکومت کی اس لانگ مارچ سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی کیاہو گی۔
لیکن ان سوالات پر ہونے والے بحث مباحثے لا حاصل گفتگو ٹھہرے اور تجزے دھرے کے دھرے رہ گئے ملکی سیاست میں جس انداز سے برق رفتاری کے ساتھ حالات بدلے وہ بڑی غیر متوقع غیر یقینی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو ئے وزیر اعظم عمران خان کو ”سیلکٹڈ“ کہنے والی کل کی دوست اپوزیشن سیاسی جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اب ایک دوسرے کو ”سیلکٹڈ‘ کے ترازو میں تولتی نظر آرہی ہے۔
مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک سرد جنگ کا آغاز ہو گیا ہے اور ملک کی دو بڑی اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری سرد جنگ سے جو عام تاثر ابھر رہا ہے اس سے اخذ کرنا دشوار نہیں کہ اب حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ملکی سیاسی حالات نے جس غیر متوقع طور پر تیور بدلے ہیں اب سیاسی مبصرین کے سامنے یہی سوال دم ہلا رہا ہے کہ پی ڈی ایم کی اب سیاسی حیثیت کیا رہ گئی ہے۔
پی ڈی ایم کا حکومت مخالف مزاحمتی کردار پیپلز پارٹی کے الگ ہونے سے تقریبا ختم ہو چکا ہے حکومت کے خلاف احتجاج کے دائرہ کو وسیع کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ پیپلز پارٹی ہے پیپلز پارٹی کی جانب سے استعفوں سے انکار اور مختلف امور پر پیدا ہونیوالے اختلافات کے بعد پی ڈی ایم کی بظاہر حکومت مخالف کسی بھی ممکنہ سیاسی مزاحمت میں کوئی دم خم نظر نہیں آرہاہے ۔
مریم نواز اور مولانا استعفوں کی سیاست کے ذریعے موجودہ حکومت اور نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں جب کہ میں سمجھتا ہوں آصف علی زرداری سیاست میں بڑے زیرک سمجھے جاتے ہیں پیپلز پارٹی کبھی بھی کسی واضح منزل کے بغیر اپنی صوبائی حکومت اور اس سے جڑے مفادات کو قربان نہیں کرے گی اور نہ ہی مستقبل میں کوئی ایسا انتہائی قدم اٹھائے گی ۔