کوئی بات بنے

ہفتہ 15 اگست 2020

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

یوں توجنت نظیر ٹکڑا کشمیر چناروں کی وادی بہتر برسوں سے انگاروں کی طرح سلگ رہی ہے لیکن گذشتہ ایک برس سے بھارت نے وہاں انسانیت سوز مظالم کا جو سلسلہ روا کر رکھا ہے اس کی مثال ہمیں بہتر برسوں میں بھی نہیں ملتی ۔۔ دل پھٹتا ہے، آنکھیں لہو روتی ہیں اور ہوائیں بین کرتی ہیں مگر کوئی نہیں بتا سکتا کہ کشمیریوں کو مصائب تلے کب تک زندگانی گزارنی ہوگی 5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے عقوبت خانے میں تبدیل کر دیا تھا اس ظلم و زیادتی کو ایک برس بیت چکا ہے ۔

۔آہ ۔۔کس قدر بے حسی ہے، انصاف کے دعوے دار چپ چاپ تماشائی بنے بیٹھے ہیں،مظالم کی داستان اتنی طویل ہے کہ لفظوں سے لہو ٹپکتا ہے ۔۔قابض فوج کے ہاتھوں عورتوں کی اجتماعی آبرو ریزی ، گھروں اورعبادت گاہوں کی مسماری ، بزرگوں اور معصوم بچوں کے جسموں کا رگیدنا اورلاشیں نوچنا معمول بن چکا ہے ان روح فرسا مظالم کی ویڈیو کلپنگ دیکھ کر کسی بھی انسان کا دل بند ہو سکتا ہے مگر یوں لگتا ہے جیسے انصافی علمبرداروں کے سینے میں دل نام کی کوئی چیز نہیں سبھی تماشا ئی ہیں حد تو یہ ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہو چکا ہے وائے افسوس! کشمیر تڑپ رہا ہے اور اس کے جسم پر دنیا کی سپر پاورز فاتحانہ انداز میں کسی بن مانس کی طرح دونوں ہاتھوں سے سینہ پیٹ پیٹ کر فتح کا نعرہ لگا رہی ہیں حقائق اور وجوہات سے سب آگاہ ہیں میں وضاحت میں نہیں جاؤنگی تاہم آج سوال یہ ہے کہ کیا اس مسئلے کا حل پاک بھارت نے یا اقوام عالم نے کرنا ہے؟ کیا اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد UNO نے یا کہ دونوں ممالک کی مسلح افواج اور عوام نے کرنا ہے یا کہ ہمارے حکمرانوں نے منافقت سے اور عیاری سے” ڈھنگ ٹپاؤ“ فارمولے پر عمل پیرا رہنا ہے ؟
اگر ہم 1947سے ابتک کے حکومتی ادوار کا عمیق نظری سے جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہم پر آشکار ہوتی ہے کہ ہمارا وطن ہوس و لالچ کے پیکر نا تجربہ کار سیاستدانوں ،ماضی کے اقتدار پسند جرنیلوں ،اور ہمہ وقت مفادات کی پجاری بیورو کریسی کے رویوں میں الجھ کر اپنا ہی تشخص داؤ پر لگا بیٹھا ہے ۔

(جاری ہے)

حالات کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ آئے دن کی سرحدی خلاف ورزیاں بڑھتی جا رہی ہیں جو کہ کمزور حکمت عملیوں کا نتیجہ اور وزارت دفاع کی انتہائی نالائقی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ،حاکم اپنا دور حکومت سمیٹنے اور آئندہ کے لیے حکومتی وسعتوں کو یقینی بنانے کے لیے انتظامات کرنے میں کوشاں ہیں اور اس ملک کو کھوکھلے نعروں اور بلند و بانگ دعووں کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے ۔

رہی سہی کسر فیوڈل نظام نے نکال دی ہے جن کے سامنے انسان ڈھور ڈھنگروں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا پھر ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ کشمیر کازکے لیے ہمارا کوئی سربراہ آواز بلند کرے گا بالفرض اگر کوئی کشمیر کاز کاداعی ہے بھی تو اس کا یہ دعوی بھی رکھ رکھاؤ اور رسمی ڈائلاگ پر منحصر ہے آج بیرونی طاقتیں اور ہمارے ایوان بالا بھی اپنے مفادات کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں جس کا کھلا ثبوت 2014 میں ڈاکٹر غلام نبی فائی کو دی جانے والی ناحق سزا سے ملتا ہے جب انھیں مسئلہ کشمیر پر غیر قانونی لابنگ کرنے ،پاکستان کی خفیہ ایجینسی سے رقوم وصول کرنے اور اس کا ایجینٹ ہونے کا الزام لگا کر دو سال قید اور بعد از رہائی تین سال ان کی زندگی کی نگرانی کی سزا سنائی گئی تھی ۔

حالانکہ ان کا بنیادی مقصد امریکہ میں مسئلہ کشمیر پر حمایت حاصل کرنا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر فائی کی گرفتاری اور سزا سے کشمیر کاز کو دھچکا لگا تھا مگر اس سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ کشمیریوں کی آہ و بکا کے ذمہ دار صرف بھارتی سامراج ہی نہیں بلکہ پس پردہ چھپے کئی رستم ہیں ،جو حمایت کے روپ میں اپنے مفادات کو پروان چڑھاجاتے ہیں ۔


نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ کشمیر کے لئے آواز اٹھانے والوں کوصرف راستے سے نہیں بلکہ صفئحہ ہستی سے بھی مٹا دیا جائے ،تاکہ کشمیریوں کی آواز اقوام عالم تک نہ پہنچ سکے اور کشمیر کاز کو ہمیشہ کے لیے دبا دیا جائے آج کل بھی بعض راہنماؤں کو امریکہ کے حوالے کرنے کے لیے بھارت پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے اور راہ ہموار کرنے کے لیے ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ جن کے سبب پاکستانی حکمران بے بس ہو جائیں لیکن امریکہ کو سوچنا چاہیئے کہ وہ انصاف وقانون کا جونمائشی ڈھول پیٹتا پھرتا ہے اس کی عملداری کہاں ہے ، مسلمانوں کی جب بات آتی ہے تو کبھی آزادیء اظہار رائے کا نام دیکر ” توہین آمیز خاکوں “ کی شکل میں عالمی دہشت گردی کی پشت پناہی کی جاتی ہے، کبھی عافیہ صدیقی جیسے بے گناہوں کو نا کردہ گناہوں کی پاداش میں لا محدود عرصہ کے لیے پابند سلاسل رکھا جاتا ہے اورکبھی ڈاکٹر غلام نبی فائی کی آواز کودبا دیا جاتا اور پاکستانی حکام کا منہ” بھیک “کے طور پر دئیے گئے قرضوں کے احسانات سے بند کر دیا جاتا ہے !آج یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ” اسلام دشمنی “نے اقوام عالم کو احساس سے عاری بنا رکھاہے اور امت مسلمہ اپنی بے ہمتیوں اور تساہل پسندیوں کی وجہ سے ان کے مضموم اہداف کا نشانہ بن رہی ہے اوریہ ”عالمی دہشت گرد “جوکہ انسانی روحوں پر وار کرتے ہیں ، الٹا ہمیں طنز و تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ ہم معاشی مسائل میں اس قدر الجھ چکے ہیں کہ احساس زیاں مر چکاہے لیکن وقت متقاضی ہے کہ ہم منافقت،مفاد پرستی اور مصلحت پسندی کا لبادھا اتار کر اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر بنیادی مسائل کا حل تلاش کریں ازخود نقشے تبدیل کرنے سے کچھ نہیں ہوگا یہ صرف شعبدہ بازی ہے
آج ہمیں ایسی سازشوں کے خلاف متحد ہو کر برسر پیکار ہونا ہوگا کہ جن سے ہماری سوچ ،عملی کارکردگیوں اور ارادو ں پر دباؤ ڈال کر ہمیں ہمارے ہی گھر کی جنگوں میں الجھا کر کمزور کرنے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں ،ہمیں مغرب کے انتہا پسند اور مخالف حلقوں کی چالوں سے بچ کرایسی حکمت عملیاں اپناناہونگی جن سے مغرب کے انصاف پسند حلقے مائل ہو سکیں ،بے شک یہ ایک مشکل کام ہے مگر نا ممکن نہیں اگر ہم خواب غفلت سے نہ جاگے اور کشمیری بھائیوں کے حقوق کے لیے نئے عزم سے آواز بلند نہ کی تو ہمارا ذکر تاریخ کے ابواب میں اچھا نہ ہوگا۔

ویسے بھی یہ نوشتئہ دیوار ہے کہ حقوق کاسئہ گدائی میں نہیں ملتے ،اپنا حق زمانے سے چھین پاؤ تو کوئی بات بنے دنیا کو جان لینا چاہیے کہ ظلم سے دبایا اور جھکایا تو جا سکتا لیکن مٹایا نہیں جا سکتا ۔کشمیر کی آزادی ایک حقیقت ہے یقیناً ایک دن کشمیر آباد ہو کر رہے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :