اشرافیہ کے لیے منصفوں کے دوہرے معیار

جمعہ 29 جنوری 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

پاکستان کے سیاسی ادوار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ سیاسی جماعتوں پر مختلف ادوار میں الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں کہ انھیں فلاں دشمن ملک یا ایسا ملک جو کہ وطن عزیز میں ذاتی مفادات رکھتا ہے ‘اپنے مقاصدکے حصول کیلئے‘ انھیں اپنے بنانے کیلئے‘ انکی مالی معاونت کر رہا ہے یہ کہاں تک سچ ہے وہ الگ بحث ہے مگر راہنماؤں کو جب کبھی خود اختیاری جلا وطنی کی ضرورت پیش آئی توانھی ممالک نے پناہ دی جن پر معاونت اور سہولت کاری کے الزامات تھے ‘اسے محض اتفاق سمجھ لیجیے کہ اس وقت پاکستان کی تین بڑی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی اور ن لیگ اسی قسم کے الزامات کی زد میں ہیں جو کہ اپنی ہی پارٹی راہنماؤں کے لگائے ہوئے ہیں اور تینوں ہی مختلف الزامات میں مقدمات بھگت رہی ہیں لیکن چونکہ چند برس سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر عائد ممنوعہ فنڈنگ کے الزامات اور غیر قانونی اثاثوں کی تحقیقات کیلئے قانونی ادارے سرگرم ہیں جبکہ تحریک انصاف فنڈنگ کیس جو کہ چھ سال سے التواء کا شکار ہے اس پر عملی پیش رفت نہ ہونے کے برابر تھی جس کو بنیاد بنا کر پی ڈی ایم اتحاد نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ‘ شفافیت کو چیلنج کرتے ہوئے‘ اُس پر جانبداری کا الزام لگاکرمطالبہ کیاہے کہ دوہرا معیار ختم کیا جائے ‘حکمران جماعت‘ تحریک انصاف کیخلاف غیر ملکی فنڈنگ کے زیر التوا کیس کا فیصلہ سنایا جائے اورپارٹی پر پابندی لگا کر وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا جائے مزیدپی ڈی ایم قائدین نے احتجاجی مطاہرے میں کمیشن اور وزیراعظم کو للکارتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو اسلام آباد پہنچ کر استعفی چھین لیں گے یعنی ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے
تاہم الیکشن کمیشن نے پی ڈی ایم الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے اور ادارے نے بوجہ کرونا وباء‘ وکلاء کی مصروفیات اور سکروٹنی کمیٹی کے ایک ممبر کی ریٹائرمنٹ کے باوجود فارن فنڈنگ کیس میں خاطر خواہ پیش رفعت کی اور کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے سکروٹنی کمیٹی کو ہدایت بھی کر دی ہے ‘سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے تو اس پرہمیشہ جانبداری کا الزام کیوں لگایا جاتا ہے جبکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کے چئیرمین اور ارکان کا تقرر بھی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے اتفاق رائے سے ہوتا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اپنے ہی منتخب چئیرمین کو دونوں ہی ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں لیکن یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ جس کیس کا فیصلہ چند ماہ کے اندر ہونا چاہیے تھا اسے چھ برس زیر التواء رکھنا واقعی سوالیہ نشان ہے‘ خاص طور پر جبکہ تحریک انصاف حکمران جماعت بن کر تین برس گزار چکی ہے جبکہ وزیراعظم کے مشیر پارلیمانی امور نے الگ ہی مئوقف اپنایا ہے کہ پی ڈی ایم کا احتجاجی مظاہرہ سیاسی‘ آئینی اور پارلیمانی نہیں بلکہ فرمائشی ہے کیونکہ پی ڈی ایم فارن فنڈنگ کیس کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی کو ختم کرنا چاہتے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس پابندی کا اختیار نہیں ہے ‘جہاں تک بات ہے اختیار کی تو سیاسی تاریخ میں الیکشن کمیشن ایک سیاسی جماعت ”نیشنل عوامی پارٹی “ پر پابندی عائد کر چکا ہے مزیدتوثیق بھی ہوچکی ہے جب ن لیگی راہنماحنیف عباسی نے وزیراعظم کی نا اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تو اس کے ساتھ ایک متفرق درخواست فارن فنڈنگز کے حوالے سے بھی دی تھی جس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہے یعنی آئین کے تحت ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت بیرون ملک سے فنڈ لینے کی مجاز نہیں اور اگر کسی جماعت پر غیر ملکی فنڈنگ اور غداری ثابت ہوجائے تو اس کی پارٹی رجسٹریشن ختم ہوکر پابندی لگ جاتی ہے
مسئلہ یہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر بھی ایسے ہی ممنوعہ فنڈنگ کے الزامات ہیں یعنی” بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے“ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے والے کہیں نہ کہیں سبھی برابر ہوگئے ہیں‘ ایسے میں اگر تحریک انصاف پر پابندی لگتی ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کی شفافیت کے حوالے سے بد اعتمادی کی فضا کو پھیلنے سے نہیں روکا جا سکے گا کیونکہ عوام ان سیاسی کاریگروں کی شعبدہ بازیوں سے پہلے ہی عاجز آچکے ہیں‘ستم کی انتہا دیکھئے کہ پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے جبکہ کاروبار چوپٹ اور روزگار کسی کے پاس نہیں ہیں تو ایسے میں عوامی ردعمل یقینا شدت والا ہوگا لیکن پہلے یہ دیکھنا ہوگاکہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی فنڈزریزنگ کے حوالے سے متعلقہ قوانین اب کیا کہتے ہیں ؟کیا الزامات ثابت ہونے پر حکمران جماعت پر پابندی لگ سکتی ہے اگر لگتی ہے تو پاکستان کے سیاسی مستقبل پر کیا اثرات ہونگے؟ لیکن داد دینی پڑے گی کہ ملک بحرانوں کے دوار کھڑا ہے مگر ہمارا الیکٹرانک اورسوشل میڈیا نان ایشوز کو شب و روز ڈسکس کر رہاہے تبھی لگتا ہے کہ شاید اس بار بھی کوئی مثبت نتیجہ نہ نکل سکے کیونکہ ہمارے منصفوں نے سارے قوانین کا نفاذ اور سزاؤں کا اطلاق عام آدمی کیلئے رکھا ہوا ہے جبکہ اشرافیہ کیلئے سزا و جزا کا دوہرا معیار رہے اول تو پکڑ نہیں ہوتی اور اگر ہو جائے تو ساز باز اور لین دین سے کسی نہ کسی طور پناہ یا بچاؤ کی صورت نکال لیتے ہیں اور کوئی کہے تو توہین عدالت ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

بہرحال ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن ہی پاکستان کی جمہوری تاریخ کو تابناک مستقبل دے سکتا ہے اور ایسا صرف عدل سے ہوگایعنی ہر کسی کو ایک جیسا انصاف ملے اگر اس بار بھی ہمیشہ کی طرح تمام سیاسی طور پر کھلواڑ کرنے والوں کے معاملات میں شفافیت سے کام نہ لیا گیا تو جو سیاسی گروہ پاکستان کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں ان کی ایک بار پھر حوصلہ افزائی ہوگی اخلاقی تقاضا ہے کہ چونکہ بڑی سیاسی جماعتوں کی صفوں سے بد عہدی اور گمراہی کا تعفن اٹھ رہا ہے اور اپنی ساکھ کھو چکی ہیں تو وہ خود ہی لوٹ مار کی سیاست سے دست بردار ہوجائیں کیونکہ ان کے منافقانہ طرز عمل کو دیکھ کر عوام بھی اس روش کو اختیار کر رہے ہیں تو ملک میں امن و خوشحالی کہاں سے آئے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :