اشرافیہ کے لیے منصفوں کے دوہرے معیار
جمعہ 29 جنوری 2021
تاہم الیکشن کمیشن نے پی ڈی ایم الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے اور ادارے نے بوجہ کرونا وباء‘ وکلاء کی مصروفیات اور سکروٹنی کمیٹی کے ایک ممبر کی ریٹائرمنٹ کے باوجود فارن فنڈنگ کیس میں خاطر خواہ پیش رفعت کی اور کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے سکروٹنی کمیٹی کو ہدایت بھی کر دی ہے ‘سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے تو اس پرہمیشہ جانبداری کا الزام کیوں لگایا جاتا ہے جبکہ اٹھارویں ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن کے چئیرمین اور ارکان کا تقرر بھی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے اتفاق رائے سے ہوتا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اپنے ہی منتخب چئیرمین کو دونوں ہی ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں لیکن یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ جس کیس کا فیصلہ چند ماہ کے اندر ہونا چاہیے تھا اسے چھ برس زیر التواء رکھنا واقعی سوالیہ نشان ہے‘ خاص طور پر جبکہ تحریک انصاف حکمران جماعت بن کر تین برس گزار چکی ہے جبکہ وزیراعظم کے مشیر پارلیمانی امور نے الگ ہی مئوقف اپنایا ہے کہ پی ڈی ایم کا احتجاجی مظاہرہ سیاسی‘ آئینی اور پارلیمانی نہیں بلکہ فرمائشی ہے کیونکہ پی ڈی ایم فارن فنڈنگ کیس کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی کو ختم کرنا چاہتے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس پابندی کا اختیار نہیں ہے ‘جہاں تک بات ہے اختیار کی تو سیاسی تاریخ میں الیکشن کمیشن ایک سیاسی جماعت ”نیشنل عوامی پارٹی “ پر پابندی عائد کر چکا ہے مزیدتوثیق بھی ہوچکی ہے جب ن لیگی راہنماحنیف عباسی نے وزیراعظم کی نا اہلیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا تو اس کے ساتھ ایک متفرق درخواست فارن فنڈنگز کے حوالے سے بھی دی تھی جس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی تحقیقات کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہے یعنی آئین کے تحت ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت بیرون ملک سے فنڈ لینے کی مجاز نہیں اور اگر کسی جماعت پر غیر ملکی فنڈنگ اور غداری ثابت ہوجائے تو اس کی پارٹی رجسٹریشن ختم ہوکر پابندی لگ جاتی ہے
مسئلہ یہ ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر بھی ایسے ہی ممنوعہ فنڈنگ کے الزامات ہیں یعنی” بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے“ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے والے کہیں نہ کہیں سبھی برابر ہوگئے ہیں‘ ایسے میں اگر تحریک انصاف پر پابندی لگتی ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کی شفافیت کے حوالے سے بد اعتمادی کی فضا کو پھیلنے سے نہیں روکا جا سکے گا کیونکہ عوام ان سیاسی کاریگروں کی شعبدہ بازیوں سے پہلے ہی عاجز آچکے ہیں‘ستم کی انتہا دیکھئے کہ پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے جبکہ کاروبار چوپٹ اور روزگار کسی کے پاس نہیں ہیں تو ایسے میں عوامی ردعمل یقینا شدت والا ہوگا لیکن پہلے یہ دیکھنا ہوگاکہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی فنڈزریزنگ کے حوالے سے متعلقہ قوانین اب کیا کہتے ہیں ؟کیا الزامات ثابت ہونے پر حکمران جماعت پر پابندی لگ سکتی ہے اگر لگتی ہے تو پاکستان کے سیاسی مستقبل پر کیا اثرات ہونگے؟ لیکن داد دینی پڑے گی کہ ملک بحرانوں کے دوار کھڑا ہے مگر ہمارا الیکٹرانک اورسوشل میڈیا نان ایشوز کو شب و روز ڈسکس کر رہاہے تبھی لگتا ہے کہ شاید اس بار بھی کوئی مثبت نتیجہ نہ نکل سکے کیونکہ ہمارے منصفوں نے سارے قوانین کا نفاذ اور سزاؤں کا اطلاق عام آدمی کیلئے رکھا ہوا ہے جبکہ اشرافیہ کیلئے سزا و جزا کا دوہرا معیار رہے اول تو پکڑ نہیں ہوتی اور اگر ہو جائے تو ساز باز اور لین دین سے کسی نہ کسی طور پناہ یا بچاؤ کی صورت نکال لیتے ہیں اور کوئی کہے تو توہین عدالت ہوتی ہے ۔
(جاری ہے)
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رقیہ غزل کے کالمز
-
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ ایک لمحہ فکریہ
جمعرات 17 فروری 2022
-
وزیر اعظم اپنے مشیر تبدیل کریں !
جمعہ 21 جنوری 2022
-
تحریک انصاف مزید قوت کے ساتھ کب ابھرے گی ؟
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
انقلاب برپا کرنے والی مہم
پیر 13 دسمبر 2021
-
آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی عمر
بدھ 1 دسمبر 2021
-
حساب کون دے گا ؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
پہلے اپنا احتساب کریں پھر دوسروں سے بات کریں !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
سیاستدانوں باز آجاؤ !
جمعرات 21 اکتوبر 2021
رقیہ غزل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.