سیاست کو مقدس مشن سمجھنا ہوگا !

ہفتہ 27 فروری 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

کرپشن مکاؤ مہم کی بساط ہماری خواہش کے بر خلاف پلٹ دی گئی ہے اور رہنمائی کے وہ بت جو ہم نے تراشے تھے وہ بھی سراب بن گئے ہیں کہ تبدیلی تبادلوں میں ڈھل گئی ہے حالانکہ ہم نے یہ سمجھا تھا کہ یہ بساط ہمیشہ کے لئے بچھائی گئی ہے اور اب اشرافیہ اور جمودکی پوجا بند ہو جائے گی‘ اب ایک عام آدمی کی جیت ہوگی اور معاشرتی بے انصافی ختم ہو جائے گی مگر ہر گزرتا ہوا دن تبدیلی ایوانوں سے یہی پیغام لارہا ہے کہ انہی نا خداؤں کی پوجا میں تمہاری زندگی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر ذی شعور ذہنی اضطراب کا شکار ہے یقینادور ماضی کے صفحات پلٹیں تو بہت سی گرہیں کھلتی ہیں ایک وقت وہ تھاکہتے تھے کہ کچھ نہیں بدلے گا کیونکہ وہ سیاسی لوگ وفاداریاں تبدیل کر رہے تھے جو حصول مفادات میں ناکام رہے تھے مگر اک امید باقی تھی کہ شاید اب غریب کو جینے کا حق مل جائے مگر حالات پہلے سے بھی بدتر ہو ئے ہیں شاید علامہ اقبال نے انہی حالات پر لکھا تھا کہ ”گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے ۔

(جاری ہے)

۔بنے گا سارا جہاں مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا “ مگر ہم تو کہتے ہیں جو مرضی کریں مگر خدائی تقسیم کو خراب مت کریں کم ازکم عام آدمی کو آزادانہ فضا میں سکون سے جینے کا حق تو دیں لیکن یوں لگتا ہے کہ یہ ملک ہی اشرافیہ کا ہے‘کتنے بے گنا ہ اشرافیہ کے پروٹوکول تلے کچلے گئے جنھیں کبھی جمہوریت کے شہید اور کبھی تبدیلی کے اسیر کہہ کر بھلا دیا گیا حالانکہ صرف ایک بندہ تہہ خاک نہیں جاتا بلکہ پورے خاندان کے خواب اس ایک شخص کے ساتھ دفن ہو جاتے ہیں ابھی ماضی قریب کی بات ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں با اثر اور با اختیار افراد کی گاڑیوں کے ریورڑ سے چار گھروں کے چراغ بھج گئے مگر مدعیوں کی طرف سے معافی ۔

۔چہ معنی دارد ۔۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ! تعجب تو پہلے ہی تھا کہ کسی اعلیٰ شخصیت یا عہدے دار کیطرف سے کوئی بیان نہیں داغا گیا کہ انصاف کا بول بالا ہوگا البتہ ریمنڈ ڈیوس کی تاریخ کو زندہ ضرور کر دیا گیا ہے
ایک دفعہ ایک شخص نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک طرف آذان ہورہی تھی اور دوسری طرف ایک شخص اپنی گاڑی واش کر رہا تھا اور بلند آواز میں گاڑی کا ڈیک لگا رکھا تھا ‘نماز کیلئے جانے والے شخص نے دو مرتبہ اسے مخاطب کیا مگر وہ ارد گرد سے بے خبر میوزک سننے میں محو تھا تو اس نے قریب آکر اسے کہا کہ میوزک بند کرو۔

اس شخص نے ایک نوٹ بک گاڑی سے نکالی اور پڑھنے کو کہاجس پر لکھا تھا کہ میں گونگا اور بہرہ ہوں کچھ سن نہیں سکتا نہ بول سکتا ہوں لہذا آپ جو کہنا چاہتے ہیں یہاں لکھ دیں ۔یعنی اس میں یہ صلاحیت اور اہلیت ہی نہ تھی کہ وہ آذان یا میوزک کو سنتا اور پھر آذان کے وقت میوزک کو بند کرتا اور اسی وجہ سے کسی واویلا کا اس پہ کوئی اثر یا اس کا کوئی فائدہ ہی نہ تھا یہی حال ہمارے لیڈران کا ہے اورمجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہمارے ایوانوں میں بھی بیٹھے افراد اندھے ،گونگے اور بہرے ہیں جنھیں اپنے گردو پیش میں ہونے والے واقعات و سانحات نظر ہی نہیں آتے اور عوام الناس کے واویلے ریکارڈ کی طرح بجتے رہتے ہیں مگر ان کو سننے والی سماعتیں ہی نہیں ہیں عجیب افرا تفری اور ڈھٹائی کا عالم ہے کہ سبھی کرتا دھرتا کرسیوں کی جنگ میں مست مئے پندار ہیں یوں لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے گھروں میں اتنی دولت جمع کر لی ہے کہ عزت کے لیے جگہ ہی نہیں بچی ۔

درحقیقت ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں خالص چیز ہضم نہیں ہوتی اور محبت چاہیے نہیں یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک آدمی ایک دفعہ ایک خالی دوکان شیشے کی طرح چمکتی کھول کر بیٹھ گیا ایک گاہک کا گزر ہوا اور پوچھا کہ ہاں بھئی کیا بیچ رہے ہو ؟ سرکار ! ”محبت ہے خالص ‘ہوس ‘لالچ اور دھوکے سے پاک “کیسے دے رہے ہو ؟ سرکار ! ”عزت ‘ خلوص ‘وفا دیں اور محبت لے جائیں “ وہ بولا : ”یار ۔

۔رہنے دو بہت مہنگی ہے “صبح سے شام ہوگئی لوگ آتے رہے اور یہی جواب دیتے رہے مگر دوسرے دن اس کی دوکان میں رش لگا ہوا تھا کیونکہ اس نے محبت میں دھوکہ ملا کر محبت آدھی قیمت پر بیچنا شروع کر دی تھی بات تو ساری ضمیر کی ہے بے ضمیر کو مکّہ بھی بھیج دیں تو وہاں سے بھی خالی ہاتھ لوٹ آتا ہے اور یہی بے ضمیری لالچ کا پیالہ بھرنے نہیں دیتی۔
آج اگر ہم اسلامی ممالک کے سربراہان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ایک بات الم نشرح ہے کہ ہمارے اسلامی ممالک کے لالچی کاسہ لیس سربراہان نے جمہوریت کو بادشاہت بنا دیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا آرہا ہے کہ ہم اپنی لوٹ مار کے لیے اپنے بد خواہوں سے قرض پر قرض لیتے جارہے اور اپنی تجوریاں بھرتے جارہے ہیں ہمارے تمام حکمرانوں اور ان کے سہرے بنانے ،پرونے ،گانے اور قصیدے کہنے والے تمام کے تمام بغیر میرٹ ،بغیر کسی استحقاق اور قابلیتوں کے اہل لوگوں کی محنتوں کا خون کر کے نظارے لوٹ رہے ہیں جبکہ امریکہ اپنے حواریوں کو ہم رائے کرکے عالمی مقتدر اداروں کو ہم آواز بنا کر امت مسلمہ کو بربادکرواتا جا رہا ہے ‘اگر دوسرے ممالک کی طرح ہمارے اسلامی ملکوں کے سربراہان جمہوریتوں کو اپنی شاہانہ جاگیروں میں تبدیل کرنا چھوڑ دیں تو کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔

آج پاکستان بدخواہوں کے نشانے پر ہے‘ کشمیر ہم سے ہتھیانے کی ابتدا ہوچکی ہے مگر ہم یہ سوچ کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ سکھ بھارت میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں حالانکہ ایسے میں فوری طور پر پاکستان کے وسیع تر مفاد میں مثالی اقدام اٹھانے ‘ہٹ دھرمیوں ،ہو شیاریوں ،عیاریوں ،بد معاشیوں اور اقربا پروریوں سے ہاتھ اٹھانے کی ضرورت ہے یعنی کہ عوام کو انصاف ،بنیادی سہولتوں میں رعایت اور اختلافات کی روشوں کو ختم کرنا ہوگا ۔

لیکن ایسا سب کچھ کرنے کیلیے دوسروں کو مواقع دینا لازم ہوگا ۔خوشامدی اور دوسروں پر بیان بازیاں کرنے والوں کا شعبہ ختم کرنا ہوگا ۔سیاست کو مقدس مشن سمجھنا ہوگا حقیقتاً اس طرح کرنے سے پاکستان اسلام کا قلعہ ثابت ہوگا اور یہ طے ہے کہ پاکستان تاقیامت شاد و آباد رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے اور انشا اللہ قائم و دائم رہے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :