ہمیں اپنے لیے کتنی جگہ چاہیے ؟

جمعہ 9 جولائی 2021

Ruqia Gazal

رقیہ غزل

کئی بار سوچتی ہوں کہ سیاست پر لکھنا چھوڑ دوں اور موٹیویشنل کالم لکھوں تاکہ اپنی زندگی میں بھی سکون آئے اور دوسروں کی بھی راہنمائی ہو کیونکہ ہماری ملکی سیاست ایسا جوہڑ بن چکا ہے جہاں پر اصلاحی تحریر بیکار ہے کیونکہ اسمبلیوں کا معیار اندرون شہر محلہ مکینوں کے پہلوانوں کے کبڈی میدانوں جیسا ہو گیا ہے جہاں کی کاروائی تھپڑوں ،گھونسوں اور جوتوں سے ہوتی ہوئی شوبز خواتین سے معاشقوں کے تذکروں تک آگئی ہے اور سپیکر صاحب تو جیسے ریفری کا کردار ادا کرتے ہیں تبھی میاں شہباز شریف نے بھی باتوں باتوں میں کہہ ہی دیا ہے کہ سب کو ڈنڈا پھرے گا تو سب ٹھیک ہونگے کون جانے انھوں نے جمہوریت کے بھیانک انجام یااحتسابی ڈنڈے کی طرف اشارہ کیاہے یا کسی خدائی احتساب کا اندازہ لگایا ہے کیونکہ سنتے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی اثاثوں میں تضاد پر الیکشن کمیشن نے نوٹس جاری کر دیا ہے تاہم ‘ جو بھی ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ نہ کھیڈا گے نہ کھیڈن دیاں گے عوامی ریلیف ،ملکی فلاح و بہبود ،قومی سلامتی ،قانون و انصاف اور عالم اقوام میں پاکستان کی عزت و وقار کی بات کوئی نہیں کرتابس ایک طرف سیاستدانوں کی تکرار ہے تو دوسری طرف عوام الناس پر مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کا جارحانہ وار ہے جبکہ وزیر و مشیر اختیارات کے حصول کی جنگ میں اس قدر مدہوش ہیں کہ ”سب اچھا ہے “ کا اصرار ہے ۔

(جاری ہے)

باقی نچلے درجے پر جو ورکرز اور سپوٹر ہیں وہ پل میں تولہ پل میں ماشہ کبھی آنسو کبھی دلاسہ کی تمثیل اور عوام غم کی تصویر ہیں کیونکہ بجٹ منظوری کے بعد مہنگائی کے ساتھ بدترین اور طویل لوڈ شیڈنگ نے سب کو ادھ موا کر رکھا ہے محکمہ موسمیات کے مطابق پاکستان میں مون سون یکم جولائی سے شروع ہونے کا امکان تھا مگر فی الحال پاکستان کے بیشتر علاقے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔

دن تو جیسے تیسے گزر جاتا ہے مگر رات قیامت سے کم نہیں ہوتی۔ جس پر حکومتی سربراہان کی خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وزیر و مشیر ہی نہیں بلکہ سرکاری افسران کے دفاتر اور گھربھی لوڈ شیڈنگ سے مستشنی اور ائیر کنڈیشنڈ ہیں مگر گرمی اور بھوک سے ستائے غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی سمجھ سے بالاتر ہے کہ وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر کہتے ہیں کہ26 جون سے ڈومیسٹک فیڈرز پر زیرو لوڈ شیڈنگ ہے یقینا آج وہ حالات ہیں کہ اگر کسی گھر میں ہنڈیا میں پتھر پک رہے ہوں تو پوری دنیا کو خبر ہوجاتی ہے وہاں یہ بیان ملک و قوم سے صریحاًمذاق کے مترادف ہے ۔


آپ مان کیوں نہیں لیتے کہ گھر کے مقابلے میں دروازہ چھوٹا سا ہوتا ہے ، دروازے کے مقابلے میں تالا اور تالے کے مقابلے میں چابی چھوٹی ہوتی ہے لیکن وہ چھوٹی سی چابی پورے گھر کو کھول سکتی ہے اس طرح ایک پائیدار اور اچھی سوچ بڑے سے بڑے مسئلے کو حل کر سکتی ہے یہاں مخلصانہ سوچ اور بے لوث جزبے کی کمی ہے۔ ہر کوئی عوام کے سامنے ان کا ملجا و ماوی بنتا ہے مگر اس کے تمام اقوال و افعال سوائے رنگ بازی کے کچھ نہیں اور یہ منافقت کی وہ انتہا ہے جہاں پر زمانہ قدیم کی بیشتر اقوام پر اللہ کے عذاب نازل ہوئے کہ آج ان کے آثار تک نظر نہیں آتے مگر یہ اللہ کی رحمت اور پیارے نبی کے رحمت الالعالمین ہونے کے باعث فضل خداوندی کی مہربانی سے ہمیں موقعے پہ موقعہ مل رہا ہے موجودہ حالات دیکھ کرمجھے پھرایک پرانا واقعہ یاد آگیا۔

۔کہتے ہیں کہ کسی ملک پر ایک ظالم اور لالچی بادشاہ حکومت کرتا تھا کیونکہ اس کا وزیر اسے اکساتا رہتا تھا کہ بادشاہ سلامت !” یہ غریب لوگ صرف غلامی کے لیے پیدا ہوئے ہیں،یہ کمائیں گے اور آپ کھائیں گے ،جیسے جیتے ہیں انھیں جینے دیں کیونکہ یہ روکھی سوکھی کھا کر ز مین پر سونے والے کیڑے مکوڑوں کی طرح ہیں اور ان کی حیثیت ہمارے گھوڑوں سے بھی بد تر ہے “ بایں وجہ بادشاہ کے دل میں بھولے سے بھی خوف آخرت آجاتا تو وزیر مطمئن کر دیتا ۔

یونہی وقت گزرتا رہا کہ ایک دفعہ بادشاہ محفل سجائے بیٹھا تھاکہ پتہ چلا کوئی درویش با ریش ملنا چاہتا ہے وہ بضد ہے کہ اسے اللہ نے بھیجاہے ۔بادشاہ نے حکم دیا ”حاضر کیا جائے “!
 درویش اندر آیا اور کہا :” آپ کے انصاف اور خوشحالی کا شہرہ مجھے کھینچ لایا ہے “بادشاہ بہت خوش ہو اور درویش سے کہا :” کہو کیا چاہیے “؟ اس نے کہا ”مجھے اپنے لیے نہیں آپکے وزیر مملکت کے لیے چاہیے کیونکہ آپ کی شہرت انہی کے سبب ہے “وزیر لالچ و حرص میں پھولا نہ سمایا اور کہا بادشاہ سلامت ! ”آپ بابا کی بات سنیں کیونکہ اللہ ہی ایسے لوگوں کو بھیجتا ہے “درویش نے کہا ” میں چاہتا ہوں کہ آپ وزیر مملکت کو ان کی خدمات کے صلے میں زمین عنایت فرمائیں مگر انھیں اختیار دیں کہ سورج غروب ہونے تک یہ جتنی زمین پر دائرہ مکمل کر لیں وہ ساری زمین ان کی ہوگی اور اگر یہ دائرہ مکمل نہ کرسکے تو انہیں کچھ بھی نہیں ملے گا“ چونکہ وزیر راضی تھااسلیے سفر شروع ہوگیا اور دوپہر کو وزیر نے واپسی کا سوچا تولالچ نے غلبہ پالیا ،خوبصورت باغ دیکھ کر سوچا اسے بھی شامل کرلوں الغرض واپسی کا سفر دیر سے شروع کیا اور اب یوں لگتا تھا کہ وہ جتنا تیز چلتا اتنی تیزی سے سورج ڈھلتا جاتااس نے دوڑنا شروع کر دیا کیونکہ سب کچھ ہاتھ سے جاتا دکھائی دے رہا تھا وہ پاگلوں کی طرح دوڑ رہا تھا اور یوں غروب آفتاب کے وقت وہ مقررہ لائین پر پہنچ کر یوں گرا کہ اس کا سر سٹارٹنگ پوائینٹ کو چھو رہا تھا اور پاؤں واپسی کے دائرے کو مگر وہ مر چکا تھا ۔

درویش نے کہا کہ اسی جگہ اس کی قبر کھدوائی جائے اور دفنایا جائے جب وزیر کو دفنا دیا گیا تو درویش نے اس کی قبر پر لکھا کہ در حقیقت اس شخص کی ضرورت اتنی سی جگہ ہی تھی مگر یہ تمام عمر لوگوں سے چھین کرخود بھی آگ جمع کرتا رہا اور تمھارے لیے بھی دوزخ خریدتا رہا ۔اللہ پاک نے قرآن پاک میں بھی اس کا ذکر فرمایا ہے کہ” والعصر ان الانسان لفی خسر‘آج کہیں نہ کہیں ہم اپنے دائرے بڑے کر بیٹھے ہیں‘ ہمیں سوچنا چاہیئے اس سے پہلے کہ آگاہی اور توبہ کا دروازہ بند ہو جائے اور دشمن ہم پر عذاب الہی بن کر ٹوٹ پڑے بہتر ہے کہ ہم پورے اخلاص اور جزبہ خیر کے تحت اپنے دائرے میں رہیں اور ہوس اقتدار ختم کر دیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :