
ہمیں اپنے لیے کتنی جگہ چاہیے ؟
جمعہ 9 جولائی 2021

رقیہ غزل
(جاری ہے)
آپ مان کیوں نہیں لیتے کہ گھر کے مقابلے میں دروازہ چھوٹا سا ہوتا ہے ، دروازے کے مقابلے میں تالا اور تالے کے مقابلے میں چابی چھوٹی ہوتی ہے لیکن وہ چھوٹی سی چابی پورے گھر کو کھول سکتی ہے اس طرح ایک پائیدار اور اچھی سوچ بڑے سے بڑے مسئلے کو حل کر سکتی ہے یہاں مخلصانہ سوچ اور بے لوث جزبے کی کمی ہے۔ ہر کوئی عوام کے سامنے ان کا ملجا و ماوی بنتا ہے مگر اس کے تمام اقوال و افعال سوائے رنگ بازی کے کچھ نہیں اور یہ منافقت کی وہ انتہا ہے جہاں پر زمانہ قدیم کی بیشتر اقوام پر اللہ کے عذاب نازل ہوئے کہ آج ان کے آثار تک نظر نہیں آتے مگر یہ اللہ کی رحمت اور پیارے نبی کے رحمت الالعالمین ہونے کے باعث فضل خداوندی کی مہربانی سے ہمیں موقعے پہ موقعہ مل رہا ہے موجودہ حالات دیکھ کرمجھے پھرایک پرانا واقعہ یاد آگیا۔۔کہتے ہیں کہ کسی ملک پر ایک ظالم اور لالچی بادشاہ حکومت کرتا تھا کیونکہ اس کا وزیر اسے اکساتا رہتا تھا کہ بادشاہ سلامت !” یہ غریب لوگ صرف غلامی کے لیے پیدا ہوئے ہیں،یہ کمائیں گے اور آپ کھائیں گے ،جیسے جیتے ہیں انھیں جینے دیں کیونکہ یہ روکھی سوکھی کھا کر ز مین پر سونے والے کیڑے مکوڑوں کی طرح ہیں اور ان کی حیثیت ہمارے گھوڑوں سے بھی بد تر ہے “ بایں وجہ بادشاہ کے دل میں بھولے سے بھی خوف آخرت آجاتا تو وزیر مطمئن کر دیتا ۔یونہی وقت گزرتا رہا کہ ایک دفعہ بادشاہ محفل سجائے بیٹھا تھاکہ پتہ چلا کوئی درویش با ریش ملنا چاہتا ہے وہ بضد ہے کہ اسے اللہ نے بھیجاہے ۔بادشاہ نے حکم دیا ”حاضر کیا جائے “!
درویش اندر آیا اور کہا :” آپ کے انصاف اور خوشحالی کا شہرہ مجھے کھینچ لایا ہے “بادشاہ بہت خوش ہو اور درویش سے کہا :” کہو کیا چاہیے “؟ اس نے کہا ”مجھے اپنے لیے نہیں آپکے وزیر مملکت کے لیے چاہیے کیونکہ آپ کی شہرت انہی کے سبب ہے “وزیر لالچ و حرص میں پھولا نہ سمایا اور کہا بادشاہ سلامت ! ”آپ بابا کی بات سنیں کیونکہ اللہ ہی ایسے لوگوں کو بھیجتا ہے “درویش نے کہا ” میں چاہتا ہوں کہ آپ وزیر مملکت کو ان کی خدمات کے صلے میں زمین عنایت فرمائیں مگر انھیں اختیار دیں کہ سورج غروب ہونے تک یہ جتنی زمین پر دائرہ مکمل کر لیں وہ ساری زمین ان کی ہوگی اور اگر یہ دائرہ مکمل نہ کرسکے تو انہیں کچھ بھی نہیں ملے گا“ چونکہ وزیر راضی تھااسلیے سفر شروع ہوگیا اور دوپہر کو وزیر نے واپسی کا سوچا تولالچ نے غلبہ پالیا ،خوبصورت باغ دیکھ کر سوچا اسے بھی شامل کرلوں الغرض واپسی کا سفر دیر سے شروع کیا اور اب یوں لگتا تھا کہ وہ جتنا تیز چلتا اتنی تیزی سے سورج ڈھلتا جاتااس نے دوڑنا شروع کر دیا کیونکہ سب کچھ ہاتھ سے جاتا دکھائی دے رہا تھا وہ پاگلوں کی طرح دوڑ رہا تھا اور یوں غروب آفتاب کے وقت وہ مقررہ لائین پر پہنچ کر یوں گرا کہ اس کا سر سٹارٹنگ پوائینٹ کو چھو رہا تھا اور پاؤں واپسی کے دائرے کو مگر وہ مر چکا تھا ۔درویش نے کہا کہ اسی جگہ اس کی قبر کھدوائی جائے اور دفنایا جائے جب وزیر کو دفنا دیا گیا تو درویش نے اس کی قبر پر لکھا کہ در حقیقت اس شخص کی ضرورت اتنی سی جگہ ہی تھی مگر یہ تمام عمر لوگوں سے چھین کرخود بھی آگ جمع کرتا رہا اور تمھارے لیے بھی دوزخ خریدتا رہا ۔اللہ پاک نے قرآن پاک میں بھی اس کا ذکر فرمایا ہے کہ” والعصر ان الانسان لفی خسر‘آج کہیں نہ کہیں ہم اپنے دائرے بڑے کر بیٹھے ہیں‘ ہمیں سوچنا چاہیئے اس سے پہلے کہ آگاہی اور توبہ کا دروازہ بند ہو جائے اور دشمن ہم پر عذاب الہی بن کر ٹوٹ پڑے بہتر ہے کہ ہم پورے اخلاص اور جزبہ خیر کے تحت اپنے دائرے میں رہیں اور ہوس اقتدار ختم کر دیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
رقیہ غزل کے کالمز
-
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ ایک لمحہ فکریہ
جمعرات 17 فروری 2022
-
وزیر اعظم اپنے مشیر تبدیل کریں !
جمعہ 21 جنوری 2022
-
تحریک انصاف مزید قوت کے ساتھ کب ابھرے گی ؟
جمعہ 31 دسمبر 2021
-
انقلاب برپا کرنے والی مہم
پیر 13 دسمبر 2021
-
آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی عمر
بدھ 1 دسمبر 2021
-
حساب کون دے گا ؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
پہلے اپنا احتساب کریں پھر دوسروں سے بات کریں !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
سیاستدانوں باز آجاؤ !
جمعرات 21 اکتوبر 2021
رقیہ غزل کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.