جنگ ستمبر کے شہداء کو سلام

اتوار 6 ستمبر 2020

Saif Awan

سیف اعوان

4ستمبر 1965کو پاک فوج کے کمانڈر انچیف جنرل موسی خان آل انڈیا ریڈیو کی نشریات سن رہے تھے۔اکھنور پر پاکستان کے حملے کے بعد جنرل موسی کے پاس بھارت کا نقطہ نظر فورا جانے کا ایک واحد یہی ذریعہ تھا۔وہ جیسے جیسے نشریات سن رہے تھے ان کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔آل انڈیا ریڈیو میں بتایا جارہا تھا کہ بھارت کے وزیر اعظم نے بھارتی لوک سبھا کو بتادیا ہے کہ پاکستانی فوج سیالکوٹ سے جموں کی جانب بڑھ رہی ہے اور بھارتی قوم ایک بڑی خبر کیلئے تیار رہے۔

انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق بھارت پاکستان پر بڑے حملے کی تیار کررہا تھا ۔4ستمبر کی رات جی ایچ کیو سے ایک حکم نامہ جاری ہوا۔انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق بھارت نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے باڈرز پر اپنی فوج کی بڑی تعداد بھیج دی ہے اور آل انڈیا ریڈیو پر ایسے الفاظ کا استعمال کیا جار ہا ہے کہ پاکستان نے جموں پر حملہ کردیا ہے۔

(جاری ہے)

ان الفاظ سے بھارت کے جارحانہ عزائم کا واضع اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہذا تمام فورسز اپنی اپنی دفاعی پوزیشن اختیار کرلیں۔

یہ حکم نامہ لاہور کی حفاظت کرنے والے دسویں ڈویژن کے سربراہ میجر جنرل سرفراز خان کیلئے غیر متوقع نہیں تھا وہ تو کب سے فوجی قیادت کو سرحد پر فوج بھیجنے کا مطالبہ کررہے تھے۔واہگہ باڈر پر تعینات پاکستانی رینجرز کے جواں بھی اطلاعات دے رہے تھے کہ سرحد پار بڑی تعداد میں گاڑیاں اور ٹینک آچکے ہیں۔ان دنوں پاک فوج کے 25فیصد جواں چھٹیوں پر تھے۔

سرحد پر موجود بارودی سرنگیں بھی ہٹالی گئی تھی کیونکہ مون سون کی وجہ سے یہ خراب نہ ہو جائیں۔لاہور کی بی آربی نہر پر موجود پہلے سے قائم موچے بھی ختم کردیے گئے تھے کیونکہ ان کی وجہ سے نہر کا کنارہ کمزور ہو رہا تھا۔ان تین اہم دفاعی کمزیوں کے باوجود پاک فوج کے جوانوں نے لاہور پر بھارت کا قبضہ کرنے کا خواب کس طرح چکنا چور کیا اور کس کن حالات میں جنگ ستمبر جیتی اس کا اندازہ لگانا موجودہ دو میں ناممکن ہے۔

واہگہ سے برکی تک لاہور ڈویژن کا علاقہ پھر ہڈیارہ سے قصور تک کا علاقہ گیارہویں ڈویژن کے زیر انتظام تھا ان علاقوں کے دفاع کی ذمہ داری ان دو ڈویژنوں کی ذمہ داری تھی۔دونوں ڈویژن نے نہر کے کناروں پر مورچوں کی تعمیر پر ابھی کام شروع ہی کیا تھا کہ دو ڈویژن بھارتی فوج نے رات ساڑھے تین بجے لاہور پر حملہ کردیا۔بھارت نے چار جگہوں سے لاہور پر حملہ کردیا اچھوگل اوتر،واہگہ،ہڈیارہ اور قصور سے بھارتی ٹینک پاکستان کی حدود میں داخل ہو گئے اور گولہ باری شروع کردی۔

جیسے بھارتی ٹینک پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے پاک فضائیہ کے ایک اوبزرور یونٹ نے ان کو دیکھ لیا اور فورا ہیڈ کوارٹر میں اس کی اطلاع دی۔یہ اطلاع جلد ہی ایئرکموڈور جنرل اختر تک پہنچی جو ایئر چیف نور خان کی غیر موجودگی میں آپریشن انچارج تھے۔جنرل اختر نے فورا جنرل ایوب خان کو ٹیلی فون کرکے بتایا کہ لاہور پر حملہ ہو گیا ہے۔صدر ایوب خان نے جنرل موسی کو فون کرکے نیند سے جگایا اور لاہور پر حملے کی اطلاع دی۔

بھارتی گورکھا فوج اچھوگل اوتر ،واہگہ اور برکی کے راستے پاکستان کی حدود میں پیش قدمی کررہی تھی ۔گورکھا فوج نے واہگہ پر پاکستانی رینجرز کے چوکیوں پر قبضہ کرلیا ۔اچھوگل اوتر پر توپ خانے کی انچارج کیپٹن خوشی محمد توپ خانے کو چیخ چیخ کر بھارتی فورسز پر حملے کا کہتے تھے رہے لیکن توپ خانے کے افسران ڈویژن کمانڈر میجرجنرل سرفراز خان کے حکم کے بغیر حملے کیلئے تیار نہیں تھے۔

پھر میجر سعادت علی خان چوہدری جو برگیڈئر امجد علی خان کے بھائی ہیں انہوں نے مداخلت کرکے توپ خانے کے افسران کو بمباری کا حکم دیا پھر اچانک پاکستان کی جانب بڑھتی ہوئی بھارتی فورسز پر گولوں کی بارش شروع ہو گئی ان کی پیش قدمی رک گئی۔پھر صبح کے سات بجے تک جنگ کا نقشہ تبدیل ہو چکا تھا۔لاہور کی شہریوں نے دیکھا کہ فضاء میں پاک فضائیہ کے طیارے پروازیں کررہے تھے۔

دن کے اجالے میں پاک فضائیہ بھارتی فورسز اور ٹینکوں کو طاق طاق کر نشانے بنانے لگی۔پاک فضائیہ کے طیاروں نے 15ڈوگرہ اور 3جاٹ میں تباہی مچادی اور ان دونوں بٹالیں کی پیش قدمی رک گئی تھی۔9بجے پھر تھری جاٹ نے پیش قدمی کی لیکن پاک فضائیہ نے پھر ان پر حملہ شروع کردیا اور تھری جاٹ کی پیش قدمی رک گئی۔بھارتی میجر جنرل نرنجن پرساد اور برگیڈئر پھاٹک گنے کے کھیت میں چھپ کر اپنی فورسز ،گاڑیوں اور ٹینکوں کی تباہی اپنے آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔

برگیڈ ئر پھاٹک نے اپنی وردی پر لگے بیج بھی اتار دیے کیونکہ اگر پاک فوج ان کو پکڑ لے تو ان کے عہدے کی شناخت بھی نہ ہوسکے۔6اور 7ستمبر کی رات میجر عزیز بھٹی اور کیپٹن محمد انور شیخ نے برکی میں اپنی پوزیشن لے لی۔یہاں دشمن کی پیش قدمی کو روکنا ضروری تھا تاکہ دشمن بی آر بی نہر تک نہ پہنچ سکے۔بھارتی فورسز نے چار روز تک برکی پر مسلسل حملے کیے لیکن میجر عزیز بھٹی نے تمام حملے بری طرح ناکام بنادیے۔

بھارت سمجھ رہا تھا برکی پر پاک فوج کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن میجر عزیز بھٹی سمیت یہاں صرف 60پاک فوج کے جواں موجود تھے جو چھ دن مسلسل لڑتے رہے۔میجر عزیز بھٹی چھ دن اور چھ راتیں مسلسل جاگتے رہے۔14ستمبر کی رات سکھ بٹالیں نے برکی پر حملہ کیا۔سکھ فوجی افسران نے بعد میں خود لکھا برکی محاذ پر پاک فوج نے ہم پر پنتالیس منٹ میں صرف 2500گولے برسائے۔

میجر عزیز بھٹی نے جب دیکھا بھارتی فوج پیچھے سے ہمیں گھیر رہی ہے تو انہوں نے اپنے جوانوں کو بی آر بی نہر پار کرنے کا حکم دیا اب برکی محاذ پر صرف میجر عزیز بھٹی اور صوبیدار شیر دل ہی رہ گئے تھے ۔دونوں نے جواں مردی سے بھارتی بٹالیں کو روکے رکھا جب تک پاک فوج کے جواں نہر پار کرگئے اس وقت بھارتی بٹالیں میجر عزیز بھٹی کے بہت قریب آچکی تھی۔

تین بھارتی فوجی میجرعزیز بھٹی اور شیردل کے قریب آگئے اور لڑائی ہاتھا پائی سے شروع ہو گئی اسی دوران ایک گولی صوبیداار شیر دل کو بھی لگ گئی۔لیکن کچھ ہی لمحوں میں میجر عزیز بھٹی اور شیر دل نے تینوں بھارتی فوجوں کو ڈیرھ کردیا۔میجر عزیز بھٹی اور صوبیدار شیر دل نے فورا بی آر بی نہر پار کرلی۔میجر عزیز بھٹی نے نہر پار کرکے بھارتی فورسز پر گولہ باری شروع کروادی۔

میجر عزیز بھٹی ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوکر بھارتی فورسز اور ٹینکوں کی پوزیشن دیکھ رہے تھے اور یہاں سے دشمن پر حملے کر وارہے تھے اسی دوران تین بھارتی ٹینک نہر کے پار ان کے قریب پہنچ گئے۔میجر عزیز بھٹی نے ان ٹینکوں پر گولہ باری شروع کروادی ۔دو ٹینک تو موقعہ پر ہی تباہ ہو گئے اسی دوران ایک بھارتی ٹینک کا گولہ سیدھا میجر عزیز بھٹی کی طرف آیا اور ان کے سینے پر لگا جس کی وجہ سے وہ پیچھے کی جانب گر گئے۔

جب جواں ان کے پاس پہنچے تو دیکھا میجر عزیز بھٹی وطن پر قربان ہو چکے ہیں۔جنگ ستمبر پاک فوج کی جوانوں کی جرات و بہادری کی ایک بے مثال جنگ تھی ۔اس جنگ میں وطن کے بہادر سپوتوں نے ارض پاک کیلئے قربانیوں کی ایک لازوال داستان رقم کی جو ہماری آنے والی نسلوں کیلئے بھی فخر کا باعث رہیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :