پاکستان سیاحوں کیلئے جنت ہے

منگل 13 جولائی 2021

Saif Awan

سیف اعوان

وادی سوات کی خوبصورتی آج کی طرح زمانہ قدیم میں بھی مشہور تھی اس لیے یہاں مختلف ادوار میں کلدانی، عبرانی، اشوریہ، کول، دراوڑ، آریہ، ایرانی، یونانی، چینی، عرب، منگول، مغل اور درانی قبائل اس علاقے میں آئے اور اپنی اپنی ثقافت او ر تمدن کے نقوش چھوڑ گئے۔آخر میں یہاں یوسف زئی قبیلہ افغانستان سے آکر مستقل طور پر آباد ہوا۔

وادی سوات کو قدیم ادوار میں مختلف کتب میں مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔جن میں سوتی، سواستس، سیاتر، یوچانگ، مانگ،لوقیانہ،سواد اور سوات زیادہ مشہور ہیں۔وادی سوات میں 256قبل مسیح میں بدھ مت کی آمد ہوئی،326قبل مسیح میں سکندراعظم کی آمد،333میں اساکینی قوم کی آمد،معرو ف چینی سیاح فاھیان ہیونگ سانگ 400سے 500قبل مسیح میں سوادی سوات آیا۔

(جاری ہے)

جبکہ 1101کو محمود غزنوی کی آمد،1515کو یوسف زئی قبلہ آیا،شہنشاہ بابر کی آمد اور بی بی مبارکہ سے شادی سے 1519کوہوئی،سید احمد شہید نے 1827کو اور سیدوبابا نے 1945کو سوات میں قدم رکھا۔

میاں گل عبدالودود کی 1917کو دستاربندی ہوئی جبکہ 1926کو حکومت برطانیہ نے سوات کو باقاعدہ ریاست تسلیم کیا۔1949کو میاں گل عبدالحق کی بطوروالی سوات تخت نشین ہوئی۔جبکہ ملکہ الزبتھ 1962میں سوات آئی اور سوات کا 1969کو پاکستان میں ادغام ہوا۔
پاکستان سیاحت کے لحاظ سے دنیا کے چند ایک مشہور ایک سیاحتی ممالک میں شامل ہے۔لیکن بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی سیاحت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی بجائے دنیا کی نظر میں ہمارا تعارف بطور شدت پسند ،مذہبی جنونی اور دہشتگرد ملک کے طور پر عام کیا گیا۔

پھر آہستہ آہستہ وقت نے ثابت کیا کہ یہ سب برائیاں پاکستان پر مسلط کی گئی ہیں جبکہ حقیقت میں پاکستان ایک پر امن،پرسکون،وسیع پیمانے پر قدرتی مناظر اورد لکش مناظر رکھنے والا خوبصورت ملک ہے۔ایجوکیشن رپورٹرز ایسوسی ایشن ”ایرا“کی نومنتخب باڈی کے اعزاز میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیازاحمد اختر صاحب نے وادی سوات کے ٹور کا اریج کیا۔

پنجاب یونیورسٹی کے ملازمین کے مطابق ڈاکٹر نیاز احمد اخترانتہائی نفیس ،ملنسار اور انسانیت کی قدر کرنے والی شخصیت ہیں۔ڈاکٹر صاحب کبھی اپنی زیرسایہ کام کرنے والے ملازمین سے نہ تضحیک آمیر رویے میں اپنے عہدے کا روب جھاڑتے اور نہ ان کی تذلیل کرتے ہیں ۔ڈاکٹر نیاز احمد نے چارج سنبھالتے ہی کئی سالوں سے ترقی کے منتظر ملازمین کو ترقیاں دی جس کی وجہ سے وہ آج یونیورسٹی ملازمین کے ”محبوب باس “بن گئے ہیں۔

صحافی برادری میں بھی ڈاکٹر نیاز صاحب کو بہت عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔بیٹ رپورٹرز کے ساتھ بھی ان کا تعلق بہت ملنسار ہے۔ایجوکیشن رپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئر مین یوسف عباسی ،صدر راشد منظور،سیکرٹری حسن حفیظ اور سینئر نائب صدر ارسلان کے بھی مشکور ہیں جہنوں نے اتنے زبردست ٹور کا اریج کیا۔اس یادگار ٹور میں ہمارے ساتھ یوسف عباسی،راشد منظور،حسن حفیظ،ارسلان،امتیاز علی،فواد ،سکندر،پی آر او آفس سے غلام عباس اور ان کے بیٹے فضل بھی شامل تھے۔

اس یادگار ٹور کیلئے پی آر او خرم صاحب کے بی شکور گزار ہیں۔
چند سال قبل تک سوات جانے کیلئے سیاحوں کو دشوار گزار راستوں سے ہوکر گزرنا پڑتا تھا لیکن آج سوات موٹروے کے قیام سے کئی گھنٹوں کا سفر انتہائی آسان اور پرسکون بن چکا ہے۔دنیا میں ویسے تو سات عجوبے ہیں لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں پاکستان میں سرکاری طور پر دو عجوبے بنائے گئے ہیں جن میں آزاد کشمیر والی ”لواری ٹنل “اور ”سوات ٹنل“شامل ہیں۔

لواری ٹنل سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف نے بنائی جبکہ سوات ٹنل بھی ”موٹروے“ بھی انہی کے دور میں شروع ہوئی ۔ان کا کریڈٹ نوازشریف کو دینا چاہیے۔موجودہ حکومت بھی سی پیک کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔جبکہ چیئر مین سی پیک اتھارٹی عاصم سلیم بھی ذاتی طور پر سی پیک کے تمام پروجیکٹس کی نگرانی کررہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان ذاتی طور پر سیاحت کے فروغ کیلئے دن رات کوشاں ہیں ۔

گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے مالم جبہ میں چیئر لفٹ اور چیئر لوپ کا افتتاح کیا ۔جس کی وجہ سے آج روزانہ سینکڑوں سیاح مالم جبہ کو رخ کررہے ہیں۔کاش وزیراعظم کالام کی طرف بھی اپنی نظر کرم کردیں۔یہاں بھی سیاحت کے خوبصورت دلفریب مقامات ہیں ۔کالام سے آگے مٹلتان،کیدام،چشمہ شفاء،مہوڈنڈ جھیل،سیف اللہ جھیل اور نصراللہ جھیل کے نظارے بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

لیکن افسوس یہاں کا راستہ انتہائی دشوار گزار اور خطرناک ہے۔وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ کالام سے مہوڈنڈ جھیل تک جانے والی خطرنا ک روڈ کی تعمیر پر توجہ دیں ۔یہاں کے رہائشیوں کو یہاں مفت تعمیر ات کی اجازت دی جائے ۔اس سے یہاں روزگار بھی بڑھے گا اور سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔پاکستان سیاحت کیلئے پر امن اور دلفریب ملک ہے ۔ملکی اور غیر ملکی سیاح کو شمالی علاقہ جات کی سیر کیلئے لازمی جانا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :