کامیاب کپتان سے کامیاب حکمران کا سفر

منگل 25 فروری 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

2018ء کے قومی انتخابات میں پاکستان کے عوام نے تبدیلی کی امید پر پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ پارٹی چئیرمین عمران خان نے الیکشن مہم میں ووٹ کے حصول کیلئے خواب بیچے اور عام آدمی کو ان سے توقعات بھی بہت تھیں۔ ایک طبقہ تو صرف یہی سمجھتا تھا کہ جب عمران خان وزیر اعظم بنیں گے تو اگلے ہی روز ملک میں نوکریاں ہی نوکریاں، ہر طرف خوشحالی اور کرپشن ختم ہو جائے گی۔

ایسا ہو گا نیا پاکستان جہاں روایتی سیاست نہیں ہوگی صرف عوامی مفاد کو مد نظر رکھ کر فیصلے ہوں گے۔ وزیر اعظم سائیکل پر نہیں تو کم از کم پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے آفس جائیں گے۔ وسیع العریض وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی قائم ہو گی جبکہ وزیر اعظم چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر ہوں گے۔ عوامی اعتماد کا یہ عالم ہو گا کہ لوگ لائنوں میں لگ کر ٹیکس دیں گے۔

(جاری ہے)

عام آدمی روایتی ابن الوقت سیاست دانوں کو شکست دیکر ایوان اقتدار میں موجود ہوں گے۔ سابقہ کرپٹ حکمران بیرون ملک فرار نہیں ہو سکیں گے کرپشن میں ملوث سیاستدان عدالتوں سے سزا پانے کے بعد جیلوں میں ہوں گے۔
ڈیرھ سال کا عرصہ گزر گیا ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روز گاری کی وجہ سے تنگ عوام حکومت سے مایوس ہونا شروع ہو گئی۔

مایوسی کیوں نہ بڑھتی جب حالات رو زبروز مشکل سے مشکل تر ہوتے جائیں اور حکومت کی جانب سے گھبرانا نہیں کی تسلیاں ہی سامنے آئیں۔ مایوسی کی اصل وجہ یہ نہیں کہ تبدیلی سرکار ابھی تک ڈلیور نہیں کر سکی، اصل وجہ تو یہ ہے کہ کسی بھی شعبہ میں واضح پالیسی اور لائحہ عمل بھی سامنے نہیں آیا۔ مانگے تانگے کی حمایت سے حکومت بن گئی، وہی پرانے چہرے نئے لیڈر کے ساتھ بیانات کی حد تک تبدیلی لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔


وزیر اعظم عمران خان نے بے روزگاری دور کرنے کیلئے مرغیاں، انڈے، کٹے اور لنگر خانے کھولے۔ صحت کارڈ کا اجراء ہوا،BISPسے شہید بی بی کی تصویر ہٹا دی گئی اور اب بلا سود قرضے بھی دیے جائیں گے۔ یوٹیلٹی سٹورزپر اربوں روپے کی سبسڈی کے ساتھ ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کاروائیاں۔ سب سے بڑھ کر میرے کپتان کی نیت بھی ٹھیک ہے اور وہ کرپٹ بھی نہیں پھر بھی عوام مطمئن نہیں اور ملک میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔

حکومت بدل گئی، سال بدل گیا، عام آدمی کی قسمت بدلی نہ ہی وزیر اعظم کا طرز تکلم۔ 23فروری کو وزیر اعظم عمران خان نے دورہ میانوالی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا ''سابقہ حکمرانوں نے ملک کو دلدل میں پھنسایا، بڑی گرفتاریوں کا حکم بھی دیدیا اس سے کرپشن کم ہو گی''۔ انہوں نے ملکی اجتماعی فیصلوں کی بابت کچھ اس طرح اظہار خیال کیا ''میں نے اپنی زندگی میں جو بھی فیصلے کیے وہ صرف دل کی مان کر کیے، کبھی ناکامی کا خوف نہیں رہا ''۔


اس سے قبل وزیر اعظم خود تسلیم کر چکے کرکٹ ٹیم اور ملک چلانے میں فرق ہے، یہی وہ نقطہ آغاز ہے جہاں سے کامیاب کپتان کامیاب حکمران کا سفر شروع کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ملائشیا کے مہاتیر محمد سے بہت متاثر ہیں جنہوں نے حال ہی میں سیاسی رسہ کشی کے بعد وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔
قارئین کرام! ان سطور میں مہاتیر محمد کی سیاست کا ذکر ضروری ہے تا کہ پی ٹی آئی کی قیادت کے ساتھ عام ورکر بھی اپنی پارٹی پالیسیوں پر غور کر سکیں۔

مہاتیر محمد 1981ء سے 2003ء تک ملائشیا کے وزیر اعظم رہے۔ اس دوران انہوں نے 1998ء میں اپنے نائب وزیر اعظم انور ابراہیم کو معذول کیا جن پر کرپشن کے الزامات تھے۔2018ء میں وہ انور ابراہیم کے ساتھ ہی اتحاد کر کے دوبارہ بر سر اقتدار آئے، یہ اتحاد صرف اس لیے کیا گیا تھا کہ وہ نجیب رزاق حکومت کو فارغ کرنا چاہتے تھے۔نجیب حکومت کو بھی بد عنوانی کے اسکینڈلز کا سامنا تھا۔

عام خیال تھا 94سالہ مہاتیر محمد انور ابراہیم کو اپنا جانشین مقرر کریں گے مگر انکا استعفیٰ آگیا۔ سیاست میں فیصلے حالات، ملکی مفادات اور سیاسی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔ فیصلے خواہشات کے تابع نہیں ہو سکتے، کہتے ہیں سیاست کے سینے میں تو دل نہیں ہوتا۔ پھر دل کی ماننے سے فیصلے اس میں کونسی سیاست پنہاں ہے۔ اپوزیشن تو کپتان کو سیاستدان ہی نہیں مانتی جبکہ کپتان کے حمایتی انہیں بہت بڑا سیاستدان سمجھتے ہیں۔

اس بحث میں الجھنے کی بجائے وقت کے فیصلے کا انتظار کریں تاریخ خود فیصلہ دیتی ہے کہ کون کتنا بڑا سیاستدان تھا۔اقتدار کے دوران تو سب اچھا ہی لگتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان تو خود کہتے ہیں جو یوٹرن نہیں لیتا وہ لیڈر نہیں بن سکتا،نہیں معلوم کہ ملکی مفاد میں وزیر اعظم ایک بہتر یو ٹرن کیوں نہیں لے لیتے۔ کیا اپوزیشن کے ساتھ بہتر تعلقات میں دل کی خواہش کے علاوہ بھی کچھ آڑے آتا ہے۔

دل اجازت نہیں دیتا جبکہ حالات کا تقاضہ ہے ملکی معاملات کو سدھارنے کیلئے قومی پالیسی اپنائی جائے۔ ایسا کب تک چلے گا، سابقہ حکمران چور، ڈاکو، کرپٹ،کسی کو نہیں چھوڑونگا۔ بلیم گیم چلتی رہے اور سزا صرف اور صرف عام آدمی بھگتے۔امریکہ میں خطاب کے دوران بھی اپوزیشن کی کرپشن کے قصے خارجہ پالیسی کا حصہ تھے اور اندرون ملک پلانٹ فار پاکستان مہم کے آغاز پر بھی اپوزیشن کی کرپشن کا ذکر۔

کیا یہ ممکن نہیں عمران خان کرپشن اور اس میں ملوث کرداروں کو عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں اور اپنی تمام تر توانائیاں ملکی بہتری، اتحاد اور قومی پالیسیاں مرتب کرنے پر صرف کریں۔
سیاست میں قومی ایجنڈے پر بات کریں۔ معاشی چیلنجز پر قابو پانے کیلئے سیاسی قیادت سے مشاورت کریں۔ پلان فار پیس پروگرام میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندے بھی شامل ہوتے اور نظر آتا کہ اس قومی ضرورت پر سب اکٹھے ہیں اور اس پر سیاست نہیں۔

اپوزیشن بھی اپنا وقت بلین ٹریز کی گنتی میں ضائع نہ کرتی۔ شجر کاری مہم میں شمولیت ہر پاکستانی کا قومی فریضہ ہے اور وقت کا تقاضہ ہے کہ سب اس میں بھر پور حصہ لیں۔ بین الاقوامی ادارے مسلسل پاکستان کو موسمی تغیرات کے متعلق انتباہ کرتے آرہے ہیں۔ جنگلات کی کمی سے ملک کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے تو مخالفین پر سخت زبان اور بیان بازی سے سیاسی درجہ حرارت معمول پر نہیں آ سکتا۔

1990ء سے 2010ء تک جنگلات کا 33.2فیصد حصہ ٹمبر مافیا کی نظر ہو گیا۔ کوئی واضح ذمہ دار کردار سامنے آیا اور نہ ہی کسی کو سزا ہوئی۔ ملک میں سیاست چلتی رہی اور اب بھی چل رہی ہے ایسے میں حالات کیسے بہتر ہوں گے۔ کرپٹ حکمران ضمانتوں پر بیرون ملک چلے گئے یا وطن عزیز میں موجود ہیں۔احتساب کا عمل ٹھیک نہیں یا سیاست میں الزام تراشی تک ہی معاملات رہیں گے۔

حکومت 30جون تک ملک میں 25کروڑ پودے لگانے کا ہدف مقرر کیے ہوئے ہے اس طرح کی قومی مہم کو ذایتات، سیاسی اختلافات اور شخصی عناد سے بالا تر ہو کر ہی کامیاب کروایا جاسکتا ہے۔ متذکرہ اہداف پی ٹی آئی تن تنہاحاصل کر لے گی ممکن نہیں۔
ایماندار اور شکست کے خوف سے آزاد کپتان کامیاب سیاستدان تب ہی کہلوا سکتا ہے جب پانچ سال بعد منزل اقتدار نہ ہو بلکہ ملکی حالات بہتری کی طرف گامزن ہوں اور عام پاکستانی سیاست سے بالا تر ہو کر عمران خان کی سیاست کی تعریف کرے۔

تاریخ کا سبق ہے ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی میں انکی مخالفت کرنے والے آج بھٹوکے فلسفہ کو اپنائے نظر آتے ہیں۔بھٹو کا اقتدار ختم ہو گیا۔ جسد خاکی نا رہا لیکن آج بھی ملکی سیاست میں پی ٹی آئی کے ووٹر زندہ ہے بھٹو کے نعرے سے پریشان محسوس ہوتے ہیں۔ بینظیر کی تصویر ہٹانی ہے تو احساس نامی پروگرام نہیں صرف اور صرف احساس ہی کی ضرورت ہے۔ سیاسی فیصلے دل کی خواہش پر نہیں سیاسی ضرورتوں کے تحت کیے جائیں۔

عالمی حالات اور ملکی معاملات کا تقاضہ ہے سب سے پہلے سیاسی استحکا م کیلئے کام کیا جائے، سیاسی استحکام ہو گا تو معیشت بھی بہتر ہو گی اور ملک کو استحکام نصیب ہو گا۔ آخر کامیاب کپتان کیوں نہ کامیاب سیاستدان بنے۔ کپتان کی کامیابی استحکام پاکستان کی ضمانت بن سکتی ہے تو اس کے لیے کام ہو نا چاہئے دل کا کیا ہے دل تو بچہ ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :