وائے افسوس!تعلیم ہماری ترجیح ہی نہیں

پیر 22 جون 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

اسے حالات کی ستم ظریفی کہیں یا ہماری قومی ترجیحات میں صحت اور تعلیم کی ثانوی حیثیت کہ لاک ڈاون کو معیشت بمقابلہ صحت پیش کیا گیا۔ تعلیمی تعطل سے ہونے والے نقصان پر کسی کی توجہ نہیں۔کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے باوجود تاجر برادری کے مطالبات پر عید سے قبل بازار سج گئے۔لاک ڈاون کی جگہ سمارٹ لاک ڈاون کا طریقہ اپنایا گیا تاکہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔

مذہبی طبقہ کی خواہش پر مساجد اور تمام عبادت گاہیں بھی کھول دیں، عبادت باسعادت ایس او پیز کے تحت ادا کرنے کی مکمل اجازت۔وزیر اعظم عمران خان تو تمام شعبہ زندگی کھولنے کے لیے فکر مند رہے کیونکہ انکے نزدیک صحت کے مقابلہ میں غربت زیادہ بڑا چیلنج تھا۔ریلوے، ہوائی سفر، ٹورازم سب کچھ کھول دیا گیا۔

(جاری ہے)

نتیجتاً کورونا کیسز روز بروز بڑھتے جارہے ہیں اوراسی حساب سے شرح اموات بھی بڑھتی رہی۔

معیشت کو لیکر وفاقی حکومت سمارٹ لاک ڈاون کے فوائد بیان کرکے اپنی ستائش کی خواہشمند ہے۔
یہاں تک کہا گیا کہ اب کورونا کے ساتھ ہی جینا ہوگا۔کورونا وائرس کے پھیلاو کے ساتھ سیاست اور سیاسی روش بھی تو تبدیل نہ ہو ئی۔ایک طرف دل گرفتہ خبروں کی مسلسل آمد تو دوسری طرف وفاقی حکومت سندھ سرکار سے برسر پیکار ہے۔مذموم سیاسی مقاصد کے لیے صحت کی سہولیات کے حوالہ سے بھی سیاست جاری ہے۔

پہلے لاک ڈاون کو سیاست کی نظر کردیا گیا اب سلیکٹڈ لاک ڈاون کے ذریعے کورونا کو کنڑول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مارچ سے لیکر جون کا مہینہ مکمل ہونے کو آیا حکومت کورونا وائرس کے حوالہ سے متفقہ پالیسی تشکیل دینے میں تاحال ناکام ہے۔بغض،حسد،عیب جوئی،بس مکروہ
 سیاسی نظریات پھیلائے جارہے ہیں۔
کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ نونہال قوم کا مستقبل کیا ہوگا، تعلیمی اداروں کو کب اور کیسے کھولا جاسکتا ہے؟ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے اس پر کوئی واضح حکمت عملی یا تجاویز بھی موجود نہیں۔

وفاقی حکومت صحت اور تعلیم کو صوبائی اختیار قرار دے کر خود کو بری الذمہ سمجھتی ہے۔جبکہ وفاقی وزراء عوامی احساسات کو بالائے طاق رکھ کر مسلسل ایسے بیانات دینے میں مصروف ہیں جن سے سیاست میں تلخی بڑھے تاکہ حقیقی مسائل زیر بحث نہ لائے جاسکیں۔وزیر اعظم عمران خان نے مکمل لاک ڈوان کو سمارٹ لاک ڈوان میں بدل دیا جسے اپوزیشن سلیکٹیڈ لاک ڈاون کہتی ہے، حقیقت میں پاکستان میں صرف سیاسی لاک ڈاون ہی ہے۔


کورونا وائرس کے پھیلاو اور اس سے بچاوکی حفاظتی تدابیر سے روایتی طریقہ درس وتدریس غیر موثر ہو چکا ہے۔تعلیمی اداروں کو کھولنا ممکن نہیں تو تعلیمی سلسلہ کو منقطع رکھنا بھی دانشمندی نہیں۔ صرف بازگشت ہی سنائی دیتی ہے کہ آن لائن طریقہ تدریس کو اپنایا جارہا ہے۔اسکی ایک مثال سرکاری ٹیلی وژن پر تعلیمی چینل کا اجرا ہے۔غربت سے مقابلہ کے لیے کاروبار کھول دئیے۔

وزیراعظم عمران خان کو جہالت سے مقابلہ کا خیال نہیں۔ جبکہ صوبائی وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کورونا کے پھیلاو کی اصل وجہ جہالت کو قراردیتی ہیں۔آن لائن تعلیم کی بات کے ساتھ امتحانات کا طریقہ کار اورسرکاری اساتذہ کی تعلیمی استعداد بڑھانے کے لیے عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔آن لائن تعلیم کے جدید طریقہ سے اساتذہ اورطلبا کی بڑی اکثریت روشناس نہیں۔

پاکستان میں انٹرنیٹ کی سہولیات بھی ہر جگہ میسر نہیں۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کسی حد تک یہ سہولیات موجودہیں۔سرکاری تعلیمی اداروں میں کلاس روم میں یقینی حاضری کا تصور پختہ ہے۔آن لائن تدریس کے حوالہ سے اساتذہ بھی مکمل طور پر تیار نہیں۔سب سے بڑھ کر ابھی تک کوئی جامع پالیسی ہی وضع نہ ہوسکی۔دنیا میں آن لائن ایجوکیشن کا تجربہ کامیابی سے ایک عرصہ سے
 جاری ہے۔

پاکستان میں بھی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ذوالفقار علی بھٹو نے اسی طرز تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے قائم کی۔مگر بعد کے ادوار میں ایسی مزید کوشش نہ کی گئیں۔پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ آن لائن تعلیم سے محض ڈگریاں ہی نئی نسل کو منتقل ہوتی ہیں اس سے میعاری تعلیم کا حصول ممکن نہیں۔
یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر زکریا کے مطابق آن لائن تعلیمی نظام میں اساتذہ، طلبا اور والدین کے بلاواسطہ اورمضبوط اشتراک سے تعلیم اور تربیت کے بہترین اور موثر مواقع موجود ہیں۔

انکے مطابق والدین کی موثر نگرانی اور شمولیت کی وجہ سے اساتذہ کو بھی زیادہ ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا پڑ رہا ہے اور تعلیمی منتظم بھی بہتر انداز میں اساتذہ کی کارکردگی کو جانچ سکتے ہیں اب اساتذہ بچوں کو آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ کے ذریعے زیادہ مربوط مواد فراہم کر رہے ہیں بچے والدین کی مسلسل نگرانی میں بھی ہیں۔اس نظام تعلیم سے اساتذہ, طلبا اور اساتذہ، والدین کے درمیان تعلق زیادہ مضبوط ہوا ہے۔

موجودہ نظام میں یونیورسٹی آن لائن مڈٹرم امتحانات کا کامیاب انعقاد کرچکی ہے اب آن لائن داخلوں کا بھی آغاز کرنے جارہے ہیں۔آنے والے دنوں میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور اساتذہ کی تربیت کے ذریعے اس نظام کومزیدبہتر بنایا جائے گا۔اساتذہ، طلبا اور والدین کے اشتراک سے درس و تدریس میں تعطل کو نہیں آنے دیا گیا۔قارئین! یو نیورسٹی کی سطح تک تو شاید یہ نظام کچھ ثمر آور ہو سکے مگر پرائمری سطح تک جہاں نونہال خود براہ راست ٹیکنالوجی کے استعمال سے نا آشنا ہیں، ناخواندہ والدین بھی کسی طرح کا مثبت کردار ادا نہیں کر سکتے۔

سب سے بڑھ کر پرائمری، مڈل اورانٹر تک کی تدریس اور امتحانات کے لئے کوئی ایسا نظام ہی موجود نہیں۔ آن لائن سسٹم کی طرف جانا ممکن نہیں تو ایس او پیز کے تحت تعلیمی اداروں کے کھولنے اور موجودہ تعلیمی سال کے لئے حکومت کو جلد کسی نتیجہ پر پہنچنا چاہئے۔ ملکی معیشت کے لئے پریشان وزیراعظم عمران خان تعلیمی نظام کی طرف بھی تھوڑی توجہ کر لیں۔


 وفاقی وزراء اور ان کی ٹیم تو کورونا سے لڑنے کی بجائے اپوزیشن سے لڑنے میں اپنی توانائیاں صرف کرنے میں مصروف ہے۔تعلیم کے لئے کون سوچے گا؟ اساتذہ کرام جو معاشرے کی سب سے معزز ہستیاں ہیں ان کے بارے سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایکٹیوسٹ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھانے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے انہیں بغیر کام کے تنخواہ لینے والے کہہ کر تضحیک کرنے میں مصروف ہیں۔

انہی اساتذہ کرام سے جب خادم اعلی ڈینگی کنٹرول پروگرام میں خدمات جبراْ لیتے تھے جو ان کے فرائض منصبی میں شامل بھی نہ تھا تو کسی نے اعزازیہ کی بات تک نہ کی۔ مردم شماری ہو یا الیکشن، معمار قوم سے خدمات انجام لی جاتی ہیں۔ آج حکومت نے اساتذہ کرام کو کورونا وائرس سے بچانے کے لئے چھٹیاں نہیں دے رکھیں بلکہ حکومت کے پاس نظام تعلیم شروع کرنے کا کوئی منصوبہ ہی نہیں، نا ہی حکومت اساتذہ کی تربیت کرکے درس و تدریس شروع کرنے جا رہی ہے۔معیشت کے لئے فکر مند ارباب اختیار اس پر بات کرنے کو ہی تیار نہیں کیونکہ تعلیم حکومت کی ترجیح ہی نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :