''موجودہ حکومت اورمہمان اداکار''

جمعہ 31 جولائی 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

عیدالضحی سے دو روز قبل وزیر اعظم کے دو معاونین خصوصی تانیہ ایدروس اور ڈاکٹر ظفرمرزامستعفی ہوئے۔ یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ استعفیٰ دیا گیا یا لیا گیا۔۔۔؟
قارئین کرام! تانیہ ایدروس کا کہنا ہے کہ میری دوہری شہریت کے معاملہ میں ہونے والی تنقید کی وجہ سے ڈیجیٹل پاکستان منصوبہ متاثر ہورہا تھااس لیے وہ مستعفی ہورہی ہیں۔

ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ عمران خان کے معاونین کے کردار پر جاری منفی بحث اور حکومت پر تنقید کے بعد میں نے استعفی دینے کا انتخاب کیا۔پاکستان میں وفاقی حکومت میں وزیر اعظم کے معاونین خصوصی کے اثاثہ جات کی تفصیل اور شہریت سے متعلق معلومات شائع ہونے پر اپوزیشن اور ناقدین نے بھر پور تنقید کی۔ 15میں سے 7 معاونین دوہری شہریت کے حامل یا کسی دوسرے ملک کے مستقل رہائشی نکلے، جبکہ اکثریت ارب پتی بھی ہیں۔

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر بھی ایسا ردعمل آیا کہ حکومت کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ان مہمان اداکاروں نے مختصر کردار ادا کرکے واپس لوٹنے میں دیر نہیں لگائی۔
دوہری شہریت والی تنقید پر اگر معاونین مستفعی ہوئے تو دیکھنا ہوگا کہ باقی معاونین کب دوہری شہریت چھوڑتے ہیں یا مستعفی ہوتے ہیں۔ عمران خان کہا کرتے تھے جب آپ دوسرے ملک کا پاسپورٹ لیتے ہیں توآپ کو اس ملک کے لیے حلف لینا پڑتا ہے۔

خیال رہے کہ مشیران و معاونین خصوصی پر دوہری شہریت کے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا مگر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ان افراد کے کابینہ کا رکن ہونے سے ملک کے اہم فیصلوں اور معلومات تک رسائی ملکی مفادات کے ٹکراو کا سبب بن سکتا ہے۔
حکومت کے اراکین یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت احتساب کے اعلی معیار پر یقین رکھتی ہے۔وزیر اعظم عمران خان پوری ٹیم کے لیے بلند معیار رکھتے ہیں۔

ڈاکٹرظفر مرزا کو ادویات سکینڈل جبکہ تانیہ ایدروس کو ڈیجیٹل پاکستان این جی او کے مالی معاملات میں بے ضابطگیوں کی وجہ سے استعفی پر مجبور کیا گیا۔ فواد چوہدری نے صاف کہہ دیا ان استعفوں کا دوہری شہریت یا اثاثہ جات سے تعلق نہیں۔
الزامات پر استعفی کاطلب کیا جانا بلاشبہ ایک بہترین عمل ہے مگر پاکستان میں یہ روایت قائم نہیں۔موجودہ حکومت میں شامل کئی وزراء اور مشیروں پر الزامات بھی ہیں اور اعتراضات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔

چینی سکینڈل میں ملوث خسرو بختیار ہوں یا پرویز خٹک، وزیر اعلی محمود خان کرپشن کے الزامات کے ساتھ ہی کام کررہے ہیں۔ کسی ایک سے بھی سوال نہیں ہوا۔ ماضی قریب میں جہانگیر ترین نااہل ہوئے مگر حکومت سے دورنہ ہوئے۔ یہاں تک کے پی ٹی آئی عدالتی نا اہلی کے بعد بھی انکا دفاع کرتی رہی۔ جب انکے خلاف سیاسی مخالفین وزیراعظم کے زیادہ قریب ہوئے تو وہ بیرون ملک چلے گئے۔


کارکردگی پر وزیراعظم عمران خان کابینہ میں ردوبدل کریں تو شیخ رشید سب سے پہلے ریلوے کی وزارت سے فارغ ہوں۔معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل ایک دن بھی مزید مشیر کے عہدے کے اہل نہیں۔
موجودہ حکومت کا مسئلہ ہی یہی ہے آج سیاست میں انتشار کو فروغ دینے اور مخالفین پرالزامات لگانے کو ہی کارکردگی سمجھ لیا گیاہے۔ سنجیدہ سیاست، اتفاق رائے اور اپوزیشن سے تعاون ایسی کسی مثبت سوچ کو پروان چڑھنے نہیں دیا جاتا۔


 حکومتی ٹیم کے اندر بھی اختلافات ہیں۔ وزراء کی سوچ میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ بہت کچھ غیر سیاسی انداز سے چلایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی مطمئن نہیں۔ سیاست میں ہیجان ہے۔الزامات، مخالفت، کردار کشی سیاسی پارہ نیچے آتا ہی نہیں۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ کچھ بھی تو مثبت نہیں ہورہا۔
سیاست تو نام ہے ناممکنات کو ممکن بنانے کا، مسائل کا حل ہی سیاست کی معراج ہے۔

فیصل واڈا نے ٹی وی شو میں بوٹ دکھایا۔علی زیدی خاکی لفافے میں بند نامعلوم زرائع کی مہیا کردہ عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی لہراتے پھرتے رہے۔ ہر سوال پر جواب دینے کے لیے مراد سعید، جذباتی انداز میں ایک ہی تقریردہراتے جارہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر معاون خصوصی شہباز گل کا انداز تکلم، جسے وہ سیاست کہتے ہیں وہ سیاست نہیں سیاستدانوں کی تذلیل ہے۔
سیاست عوام کی امنگوں کے اظہار اور حکومت اور عوام کے درمیان بامقصد تعلق کا ذریعہ ہے۔

لفظ مفاہمت کو جوڑ توڑ اور ہوس قرار دینا درحقیت سیاست اور سیاستدانوں سے بغض کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی میں اچھے اور سیاسی سوچ کے حامل شخصیات بھی موجود ہیں لیکن بد قسمتی ہے کہ مہمان اداکار ہی غالب ہیں۔سیاست دان کا منصب ہی سیاست ہے وہ سیاسی میدان چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ شہزاد اکبر، شہباز گل ان کا کیا, یہ مہمان اداکار تو چلے جائیں گے استعفی دیں یا لے لیا جائے۔حکومت کو اب سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بہت ہوگئی کنٹینر کی سیاست جوآیا ساتھ کھڑا کرلیا اور جب دل کیا چلتا کیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :