''غلط سمت ''

جمعہ 18 دسمبر 2020

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

ایک حالیہ سروے کے مطابق ہر5میں سے 4پاکستانیوں نے ملکی سمت کوغلط قرار دیا۔یعنی 77فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ ملک غلط سمت کی جانب بڑھ رہاہے۔57فیصد پاکستانیوں نے ملکی معیشت میں آئندہ چھ ماہ میں مزید خرابی کی بھی پیشگوئی کی۔ سروے اگر حکومت وقت کے حق میں ہو تو حکومتی حلقے اسے بطور حوالہ پیش کرتے ہیں اگر خلاف ہو تو یکسر مسترد کردیا جاتا ہے۔

حکومت سب اچھا ہے کے فارمولہ کے تحت ہی چلائی جاتی ہے۔ ایوان اقتدار تک عوام کی آواز کسی بھی حال میں نہیں پہنچتی۔
قارئین کرام! کورونا وبا سے عالمی سطح پر مسائل بڑھے۔ معاشی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوئیں۔خوش قسمتی سے پاکستان میں صورتحال دیگر ممالک سے قدرے بہتر رہی۔ معاشی طور پر تو پاکستان کورونا وبا کے پھیلاو سے قبل ہی روبہ زوال تھی۔

(جاری ہے)

تبدیلی سرکار کے آنے سے بہتری کی بجائے منفی اشارے ہی ملے۔ تمام مسائل سابقہ حکومتوں کے اعمال میں ڈالنے کی کوشش سے حکومت اپنے حامیوں کو سیاسی طور پر مطمئن کرنے میں لگی رہی۔ آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر اور کسی واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔ حکومتی وزرا کی ناقص کارکردگی نے حکومت کی اہلیت پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا۔


آٹا، چینی، گھی اور اشیاء ضروریہ کی بڑھتی قیمتیں اور دستیابی کے فقدان سے مہنگائی کے طوفان میں اضافہ ہوا۔ نیب کے کردار سے بھی کاروباری طبقہ اضطراب کا شکار رہا۔
کرپشن کے خاتمہ کادعوی سیاسی نعرہ ہی ثابت ہوا۔ پٹرول اور گیس کی خریداری اور فراہمی میں حکومت کے حصہ میں ناکامیاں ہی آئیں۔چینی سکینڈل،پڑول بحران پر سخت ایکشن کی باتیں وزرا کے اجلاس تک محدود رہیں۔


معاشی صورتحال پر ناقدین اور مخالفین کی تنقید کو اگر نظر انداز بھی کردیا جائے لیکن مارکیٹ میں تبدیلی سرکار کی نااہلی عام پاکستانی کے سامنے عیاں ہے۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مہنگائی پر قابو پانے کے لیے کیے جانے والے دعوے کے برعکس مہنگائی کی شرح میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوتا گیا۔ آٹا،چینی اور ضروریات زندگی میں ہوشربا اضافہ ہوا۔

سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان تک پہنچ گئیں۔آلو، پیاز،ٹماٹر، انڈے، مرغی کا گوشت دیگر روزمرہ ضرورت کی اشیاء غریب کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔
وزیراعظم ایماندار ہے اور اپوزیشن چوروں کا ٹولہ اس بیانیے سے حکومت تو چلائی جاسکتی ہے، غریب کا چولہا نہیں جل سکتا۔ اپوزیشن پر لعن طعن کرنے اور گھبرانا نہیں جیسے سبق آموز وعظ سے آپکا ووٹر ہی حوصلہ میں رہ سکتے ہیں عام آدمی تو پریشان ہی ہوگا۔


معیشت کی بہتری کے لیے سیاسی استحکام کاہونا شرط اول ہے۔پالیسیوں میں تسلسل ضروری ہے۔ سب سے بڑھ کر سرمایہ کاراور تاجر طبقہ کا حکومت پر اعتماد کا ہونا اہم ہے مگروطن عزیز میں ایسا ماحول نہیں۔حکومتی ورزاء سے ایک قدم آگے ترجمانوں کی فوج ظفر موج سیاسی ماحول
 خراب کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔حکومت اگر عدلیہ کو اپنا کام کرنے دیتی اور نیب احتساب تک محدود رہتا تو بہتر تھا۔

نیب کی کاروائیوں سے سرمایہ کار خوف زدہ ہوئے۔ چھوڑوں گا نہیں کے بیانیے نے احتساب پر انتقام کے تاثر کو مضبوط کیا۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت نیب کی حراست میں ضرور رہی مگرکیسز کا فیصلے نہیں ہوئے۔ شب وروز میڈیا کے سامنے اپوزیشن کو للکارنے کے طرزعمل سے سیاست بند گلی میں داخل ہوچکی ہے۔ میثاق معیشت کو این آراو کہا گیا۔ کسی بھی طرح کے تعاون کو یکسر مسترد کردیا گیا۔

مفاہمت کی کسی بھی خواہش کو اپوزیشن کی کمزروری ہی سمجھاگیا۔ آج اپوزیشن سڑکوں پر ہے اور وزیراعظم کتوں کے ساتھ وقت گزارنے کی تصاویر شئیر کرتے ہیں۔
حکومت مضبوط ہوگی،اپوزیشن سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن بڑھتی مہنگائی اور ڈوبتی معیشت ضرور حکومت کو لے ڈوبے گی۔
راقم الحروف کی دانست میں اپوزیشن کو نظرانداز کرکے حکومت اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے لیکن عوامی حمایت سے ضرور محروم ہوجائے گی۔

حقیقت کا ادراک کرکے اگر حکومت نے اپنی پالیسی نہ بدلی تو پھر پی ٹی آئی کے لیے مشکلات ہی ہیں۔ عام آدمی کی مشکلات ہی حکومت کی اصل آزمائش ہے فی الوقت تبدیلی سرکار کچھ بھی تو تبدیل نہیں کرسکی۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس حقیقت کو مان لے کہ ملک درست سمت کی طرف نہیں بڑھ رہا۔ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتری کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔نعروں کی سیاست کنٹینرز اور جلسہ جلوسوں تک محددو رہے تو بہتر ہے۔حقیقی سیاست صرف انتخابی معرکہ تک محدود نہیں ہوتی۔ یہ تو اجتماعی رائے کے احترام اور بہتری کی طرف بڑھنے کا نام ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :