خارجہ پالیسی، کرکٹ اور ایبسلوٹلی ناٹ

جمعہ 24 ستمبر 2021

Salman Ahmad Qureshi

سلمان احمد قریشی

1987ء کے ایام کی بات ہے پاکستان اور بھارت میں سرحدی کشیدگی کی خبریں گرم تھیں۔ اس وقت پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھارت میں موجود تھی۔ بھارت میں راجیو گاندھی کی سرکار قائم تھی جبکہ پاکستان میں ضیاء الحق ایک ڈکیٹڑ کے طور پر برا جمان تھے۔ مخدوش سفارتی تعلقات کی بہتری کے لیے کرکٹ ڈپلومیسی کا سہارا لیا گیا۔ کشیدگی کم کروانے کے لیے ضیاء الحق نے پاک بھارت میچ دیکھنے ہمسایہ ملک جانے کا فیصلہ کیا اور وہ بھارتی شہر جے پور پہنچ گے۔

دلچسپ بات یہ ہے اس وقت عمران خان ہی قومی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔یہ ضیاء الحق کی دوراندیشی تھی یا امریکی بلاک سے منسلک پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تکمیل تھی اس پر دو آرا ہیں۔اس بحث میں الجھنے کی بجائے اس وقت کی صورتحال کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو سمجھنا آسان ہے۔

(جاری ہے)

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اقتدار کے خاتمہ کے بعد ہی پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان میں دس گیارہ سال تک مارشل لا رہے گئی۔

اس پیش گوئی کی بنیاد امریکہ کا سرد جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالہ پر تھی۔ بھٹو نے یہ بات سوویت یونین کی افواج کے افغانستان میں داخل ہونے کو سامنے رکھ کر کی تھی۔ یہ بات پاکستان کے معروف صحافی کی کتاب بھٹو کی سیاسی پیشگوئیاں میں درج ہے۔ اس کتاب میں دیگر اور بھی عالمی سطح کے حوالہ سے پیشگوئیاں درج ہیں جو حرف بحرف درست ثابت ہوئیں۔

ضیاء الحق کا پاکستان میں اقتدار پر قبضہ اسی گریٹ گیم کا حصہ تھا جو آج ایک دفعہ پھر سے شروع ہے۔آج سوویت یونین کی جگہ چین مرکز و محور ہے اور پاکستان کے لیے اسکا رول طے شدہ ہے۔ ضیاء الحق اس وقت امریکی بلاک کا حصہ تھے آج ہم گو مگو کا شکار ہیں۔
آج سے 34سال پہلے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد امریکہ تھا عہد رواں میں ہم فیصلہ سازی میں مشکل کا شکار ہیں۔

جائیں تو کدھر جائیں۔۹/۱۱ کے بعد ہم یکطرفہ طور پر امریکہ کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہوگے۔اس وقت ہر فیصلہ امریکہ کی خوشنودی کے لیے ہوا۔خطہ اور پاکستان پر اس کے اثرات کا مکمل ادارک نہ کیا گیا۔ نتیجتًا پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی سب سے بھاری قیمیت ادا کی اور عالمی امیج بھی خراب ہوا۔
قارائین کرام! کرکٹ پاکستانی قوم کا سب سے پسندیدہ کھیل ہے ضیاء الحق کے دور میں اسے خوب پرموٹ کیا گیا۔

عمران خان ایک کھلاڑی سے قومی ہیرو بن کر سامنے آئے۔کرکٹ سے ریٹایئرمنٹ کا فیصلہ بھی عمران خان نے ضیاء الحق کے کہنے پر واپس لیا۔ پھر ایک ورلڈ کپ جیت کر وہ سب سے پاپولر کرکٹر بن گے۔ یہاں پرفارمنس کی جگہ شخصی سحر کو اجاگر کیا گیا۔ ایسا ہی معاملہ شاہد آفریدی کا ہے وہ ایک بڑا کھلاڑی تو نہیں لیکن مقبولیت میں سر فہرست ہے۔ یہ کرکٹ اور سیاست کا سنگم ہے۔

کھیل کے میدان سے سیاسی میدان میں قیادت کے سفر کا نقطہ آغاز ہے۔بظاہر کرکٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اس کے باوجود عمران خان کرکٹ سے سیاست میں نمبر ون کی پوزیشن پر آگئے۔افغانستان سمیت عالمی سطح پر غلط فیصلوں کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔عمران خان نے بطور سیاستدان اس صورتحال پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش نہ کی بلکہ اس سے بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا۔

ایک بہت بڑی مثال جب سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کے بعد اس وقت صدر آصف علی زرداری نے نیٹو سپلائی بند کر دی اور شمسی ائیر بیس امریکہ سے خالی کروا لیا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی حکومتِ وقت کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف رہی۔ امریکی مخالف جذبات کو سیاسی فائدہ کے لیے استعمال کیا گیا۔ کھیل اور سیاست کا فرق ختم کر کے صرف اسلام آباد پر نظریں جمائے رکھیں۔

بلا آخر حکومت میں بھی آگئے۔ بھٹو والی سیاسی بصیرت خواہش ہی ہو سکتی ہے۔برسراقتدار آنے تک خارجہ سطح پر پاکستان کا امیج بہتر کرنے کی کوئی پالیسی تھی نہ آج تک سامنے لائی جا سکی۔الزامات اور بیانات سے ملکی سطح پر تو کامیابی مل گئی لیکن عالمی تنہائی بڑھتی ہی گئی۔اب نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کے ساتھ طے شدہ سیریز منسوخ کر دی۔

سیاسی قیادت کی دوراندیشی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ حکومت کو اس صورتحال کا ادارک ہوتا اس صورتحال کا تدراک ہوتا معاملہ وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔۔ملک میں جاری سیاسی پالیسی کے تحت تمام تر نا اہلی کا ایک ہی جواب سازش۔۔ عالمی محاذ پر شرمندگی کا سامنا کرنے پر عالمی سازش کا واویلا۔۔آخر ان سازشوں کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے کہاں ہے وفاقی وزیر کھیل اور وزیر خارجہ۔

۔؟
سوال سیکورٹی کے ذمہ داران پر نہیں سیاسی قیادت کی نااہلی کا ہے۔امریکہ نے اڈے مانگے نہ یہ معاملہ کسی سطح پر سامنے آیا ایک انٹرویو میں خود سے ہی ایبسلوٹلی ناٹ (Absolutely Not)کہہ کر ہیرو بن گئے۔ امریکی قیادت ایک فون کال تک تو کرنے کی روادار نہیں اور ہم خوش ہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے امریکہ کو ناں کر دی۔نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے کرکٹ کھیلنے سے انکار پر عالمی سازش کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ ہو گیا۔

وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے ایبسلوٹلی ناٹ کہیں گے تو اس کی قیمت تو جکانا پڑے گی۔ یہ وفاقی وزیر اطلاعات اور وزیر داخلہ شیخ رشید ایک فون کال پر پاکستانی حکومت کی ہاں کے بھی حصہ دار تھے آج خودار بن گے۔ وزیراعظم کرکٹ ڈپلومیسی سے بھی مکمل آگاہ تھے پھر یہ سب کچھ پاکستان کے ساتھ کیوں۔۔۔صرف سازش کا لالی پوپ قوم کو کیوں دیا جا رہا ہے۔

ابتدائیہ میں ضیاء الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی کا ذکر اسی لیے کیا ہے تاکہ قارائین سمجھ سکیں عالمی فیصلوں پر عملدرآمد حکمران کریں پھر ان نتائج کا خمیازہ پاکستان بھگتے اور حکمران ہر دفعہ ہیرو بن کر سامنے آئیں۔ہیرو تو وہ ہوسکتا ہے جو قوم کے لیے عالمی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ سازشوں سے آگاہی کافی نہیں ان سازشوں سے مقابلہ کی استعداد پیدا کریں۔

پاکستان کے ساتھ ہی ناروا سلوک کیوں۔۔۔اس کا جواب صرف اصول پسندی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بہتر امیج کا ہونا ضروری ہے۔ بنیادی شرط صرف قومی پالیسی اور اتفاق رائے کا پیدا کرنا ضروری ہے۔ عوامی تائید اور نمائندگی لازم ہے۔ایبسلوٹلی ناٹ کے ساتھ متوقع حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ امریکہ نے کھیل کے میدان میں سازش کی، سفارتی محاذ پر سازش، معاشی محاذ پر سازش ہمارا کپتان صرف ڈٹ کے ہی کھڑا رہے گا یا کچھ کرے گا بھی۔

۔۔بات آگاہی سے آگے فیصلہ سازی کی ہے، عالمی حمایت کے حصول کی ہے۔باقی سازش سازش یہ سب بہت ہو گیا۔
بقول ضیاء باقیات ایک غیر منتخب حکمران ضیاء الحق صرف ایک میچ کے ذریعے بھارت کو جارحیت سے روک سکتا ہے تو آپ تو ایک منتخب وزیراعظم ہیں پھر سیریز کے منسوخ ہونے پر سازش کی بات کرنے تک ہی کیوں محدود رہے۔ ضیاء الحق کی طرح سفارت کاری بذریعہ کھیل، ایسی کوئی کہانی ہی قوم کے سامنے رکھ دیتے۔

بیانات سے آگے بڑھیں۔ پاکستان کے بہتر امیج کا خیال کریں۔سیریز منسوخ ہوچکی اب مزید ایسی ناگوار صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ خدا نخواستہ سی پیک کے خلاف کوئی اور سازش نہ ہوجائے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو فعال کریں۔قومی اتفاق رائے کی اہمیت کو تسلیم کریں آپکی باتوں سے آپکے چاہنے والے مطمین ہوسکتے دنیا نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :