فرسودہ تعلیمی نظام اور پاکستان کا مستقبل؟‎

پیر 11 جنوری 2021

Sheikh Jawad Hussain

شیخ جواد حسین

کسی بھی قوم کی ترقی اور کامیابی کا انحصار اس ملک کے تعلیمی نظام پر ہوتا ہے… تعلیمی نظام کی کامیابی میں جہاں اس قوم کے اساتذہ اور تعلیمی اداروں کا کردار اہم ہے، وہاں تعلیمی نظام کی ٹھوس منصوبہ بندی، نصاب،اس کی سمت اور منزل کا درست تعین کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔گزشتہ سات دہائیوں سے پاکستان میں جہاں ہر شعبہ جمود کا شکار ہے، وہاں تعلیمی نظام کی بہتری، ترقی اور مو ثر منصوبہ بندی بھی سست روی کا شکار رہی ہے… گذ شتہ حکومتوں کا مطمح نظر کبھی تعلیمی شعبے کی ترقی اور سنجیدہ منصوبہ بندی نہیں رہا… اگر یوں کہا جائے کہ شعبہ تعلیم گذ شتہ حکمرانوں کے ایجنڈے میں ہمیشہ آخری نمبر پر رہا ہے تو اس میں کچھ غلط نہ ہو گا،اسی لئے پاکستان کی نئی نسل کا مستقبل اس ملک کے معماروں کی بجائے ہمیشہ ان چند مفاد پرست نجی تعلیمی اداروں کے ہاتھوں میں رہا ہے، جو مال و دولت کے لئے قوم کے نوجوانوں کو قومیت اور اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی بجائے نجانے کون کون سے نظام متعارف کرواتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

آپ سب جا نتے ہیں کہ وطن عز یز میں یکساں نظام تعلیم کی بجائے رنگ رنگ کا نظام تعلیم رائج ہے۔
کسی تعلیمی ادارے میں امریکی نظام تعلیم ہے تو کسی میں برطانوی،کسی میں تر کش تو کسی میں نام نہاد فرقہ واریت پر مبنی اسلامی نظام تعلیم رائج ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر تعلیمی ادارے کی اپنی اپنی سوچ اور فکر ہے۔ ہر ادارہ نو جوانوں کو، جو ملک و قوم کا مستقبل ہیں، اپنے اپنے نصاب کے ذریعے اپنی اپنی تعین کردہ منزل کی طرف لے کر گا مزن ہے، اس سوچ اورفکر سے آزاد کہ پا کستان کو کس قسم کی افرادی قوت کی ضرورت ہے، پاکستان کا مستقبل کیا ہے اور پاکستان کو آج سے دس سال بعد کہاں کھڑا ہو نا چاہیے؟
اگر کسی بھی شعبے میں کوئی مو ثرمنصوبہ بندی نہ کی جائے تو ہم بحیثیت قوم کوئی خاص نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے۔

حد تو یہ ہے کہ آج ستر برس گزر جانے کے باوجود حکومت پاکستان ملک میں کوئی یکساں تعلیمی نظام رائج نہیں کر سکی۔ ظاہر ہے جب تعلیمی نظام، جو کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، درست سمت میں نہ ہو تو پھر کیوں نہ قوم سندھی، بلوچی، پنجابی اور پختون کی آواز بلند کرے، کیوں نہ سا نحہ ڈھا کہ ہو،کیو نکر کشمیر آزاد ہو، کیوں نہ ملک سودی نظام کے چنگل میں ہو، کیوں نہ اسلامی جمہوریہ اسلام سے کو سوں دور ہو، آ خر کیوں نہ بچوں کو نوچ کر کوڑے دانوں میں پھینک دیا جائے، آخر کیوں نہ ماورائے عدالت قتل ہوں، آخر کیوں نہ ڈاکٹر اور وکلاء ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوں، آخر کیوں نہ قوم ڈیموں جیسی نعمت سے محروم رہے، آخر کیوں نہ رشوت، سفارش، ملاوٹ اور حرص ہمارا مقدر بنے، آخر کیوں نہ ملک بہترین اساتذہ سے محروم ہو، آخر کیوں نہ کو ئی غریب انصاف کی بھیک ما نگتے مانگتے منوں مٹی تلے جا پہنچے…جب بچوں کے تعلیمی نصاب میں کسی خاص سمت کا تعین ہی نہیں کیا گیا،تو پھر کس طرح ایک قوم معرض وجود میں آسکتی ہے، کس طرح ملک کے اداروں کو بہترین لوگ میسر ہو سکتے ہیں،کیسے لفافہ صحافی، کرپٹ سیاست دان، ٹیکس چور بزنس مین اور فرقہ واریت میں اٹے گروپوں کو پیدا ہونے سے روکا جاسکتا ہے، ہم کیسے اپنے ملک کی باگ ڈور اہل افراد کے سپرد کر سکیں گے، ہم کس طرح فیض اور اقبال جیسے استاد قوم کو دیں سکیں گے؟
دوسری جنگ عظیم کے دوران کچھ اہم لوگوں کی ہلاکتوں کا معاملہ جب ہٹلر کے سامنے آیا تو ہٹلر نے تاریخی الفاظ سے اپنی قوم کی راہنمائی کی… اس نے کہا: ”جاؤ اور اگر چھپا سکتے ہوتو اپنے اساتذہ کو کہیں چھپا دو، اگر تمہارے اساتذہ بچ گئے تو وہ ایسے اہم اور ذہین لوگوں کو دوبارہ تعلیم دے کر تمہاری صفوں میں شامل کر دیں گے“… ذرا سوچئے دوسری جنگ عظیم میں مکمل طور پر تباہ و برباد ہوجانے والے جرمنی نے پاکستان سے امداد مانگی،پھراس مشکل گھڑی کے بعد اس قوم نے ساری توجہ اپنے تعلیمی نظام اور انفراسٹرکچر کو ترقی د ینے پر لگا دی… آج جرمنی اپنے تعلیمی نظام اور یونیورسٹیوں سے ایک ٹکا بھی کما کر اپنی معیشت میں شامل نہیں کرتا، بلکہ تعلیمی نظام کی ترقی اور کامیابی پر خرچ کر تا ہے۔


جر منی کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آنے والے دنیا بھر کے طالب علم مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اسی جرمن تعلیمی نظام نے اوڈی، مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو، ووکس ویگن جیسی عظیم کاروں کو بنانے والے ماہرین پیدا کئے، جنہوں نے جرمنی کا لوہا پوری دنیا میں منوایا اور جرمنی میں پیدا ہونے والی اشیاء کو نئی جدت دی… ہمارے ہاں ڈاکٹر علامہ اقبال جیسے عظیم مفکر پیدا ہوئے اور اسی تعلیمی نظام نے ڈاکٹر منصورالحسن علوی جیسے عظیم پیتھالوجسٹ پیدا کئے، جو آج بھی ملک و قوم کے لئے مشعل راہ ہیں۔

جنہوں نے شیخ زید ہسپتال لاہور کے زیر انتظام انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، جہاں مجھے بھی پاکستان سٹڈیز کے استاد کی حیثیت سے ان کے زیر سایہ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے چند کاوشوں کا آغاز کیا گیا، ان کاوشوں کے آغاز میں ایک فنڈ قائم کیا گیا، جس کو اقراء سرچارج کا نام دیا گیا۔

آج کی تاریخ تک حکومتیں اقراء سرچارج کی مد میں اربوں روپے پاکستانی عوام سے مختلف طریقوں سے لے چکی ہے، مگر اس رقم کا ایک روپیہ بھی کبھی تعلیم پر خرچ نہیں کیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بہت سے کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا، جس کے لئے ڈاکٹر عطاء الرحمن کی کاوشیں قابل ستائش ہیں مگر سوال یہ نہیں کہ کتنے تعلیمی ادارے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا نصاب کو درست سمت میں رکھا گیا؟ کیا یکساں نصاب متعارف کروایا گیا؟ کیا پاکستان کی آنے والی نسلوں کی تربیت موجودہ تعلیمی نظام سے اس طرح کی ہو سکے گی کہ وہ مستقبل میں ایک قوم اور ملت کی حیثیت سے اس ملک پاکستان کی باگ ڈور احسن طریقے سے سنبھال سکیں؟ … اس کے بر عکس کیا ہم ایسے افراد تیار نہیں کر رہے جو امریکہ، برطانیہ اور یورپ میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں؟
کیا ہم ایسے لوگوں کا ہجوم پیدا نہیں کر رہے جو اپنی منزل اور راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں؟… جن کے ہیرو صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان کی بجائے مائیکل جیکسن اور جیکی چن ہیں، جن کو مغربی نظام زندگی نے اس قدر متاثر کر رکھا ہے کہ آج ان کو پاکستان سے نکلنے کا موقع ملے تو وہ پاکستان کو چھوڑ کر بھاگ نکلیں گے… میرا مقصد یہ نہیں کہ پاکستان سے باہر سفر کرنا درست نہیں، یہ تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے: ”علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین کیوں نہ جانا پڑے“… یقیناتعلیم حاصل کرنے کی غرض سے سفر کرنا یا کاروبار کے لئے ہجرت کرنا درست ہے، مگر اپنے ملک کے لئے ایک قوم ہونے کی سوچ نہ رکھنا انتہائی غلط ہے۔

اپنے ملک کو کسی گنتی میں نہ لانا اور اس کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ نہ رکھنا افسوس ناک ہے۔
ابتدائے اسلام کے وقت جنگ کے دوران جب صاحب علم قیدی مسلمانوں کی تحویل میں آتے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان قیدیوں سے جہاں نہایت اعلیٰ سلوک فرماتے تھے، وہاں ان کو یہ بھی حکم دیتے: ”اگر تم کسی بھی مسلمان کو تعلیم دو گے تو تمہاری سزا ختم کر دی جائے گی“… تعلیم کی یہ اہمیت تھی نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں،پھر قرآن پاک میں بھی پہلی بات ہی اقراء ہے کہ پڑھ… یہ ہے اسلام میں تعلیم کی اہمیت۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں ہر طرح سے زندگی کے ہر پہلو کی راہنمائی کی گئی ہے۔ اس میں قانون، معاشرت، معیشت اور تعلیم کا ایک مکمل ضابطہ حیات موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو درست انداز میں نافذ کیا جائے۔
کیا پاکستان میں کسی قرآن ریسرچ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جہاں قرآن کی ہر آیت پر ریسرچ کی جائے اور اپنی پالیسیاں اور نظام اس ریسرچ سینٹر کی سفارشات کے مطابق بنائی جائیں۔

کیا کسی نے کبھی سوچا ہے کہ اس قرآن ریسرچ یونیورسٹی میں 6666 شعبہ جات بنائے جائیں، ہر شعبہ صرف ایک آیت قرآنی پر ریسرچ کرے۔ اگر ہم ایسا کر سکیں تو شاید ہم فلاح پا جائیں۔ گزشتہ 70سال سے ہم نے کتنے محقق، سائنسدان، ریسرچر، فلاسفر، قانون دان اور ہسٹری کے استاد پیدا کئے ہیں، جن کو پوری دنیا میں بوعلی سینا اور جابر بن حیان کی طرح تسلیم کیا جائے۔

اس فرسودہ اور زنگ آلودہ نظام تعلیم سے نہ تو کوئی فائدہ ہے،نہ ہی اس سے قوم کو کوئی منزل حاصل ہو گی۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نافع علم عطا فرمائے،پھر ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے…آخر میں بس یہی کہوں گا کہ خدا ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں اپنے اسلاف سے سبق سیکھنے اور یکساں تعلیمی نظام کے ذریعے، جس کی کوئی منزل اور مقصد ہو، ہمیں ایک ملک کے بعد ایک قوم بن کر دنیا کے نقشے پر اُبھارے۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :