"میں کیا تعریف کروں؟ "

جمعرات 4 جون 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا اپنا ہی انداز ہے اور اِن سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز اور ووٹرز دل و جان سے ہر سچی اور جھوٹی بات کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ۔اگر کوئی کسی سیاسی جماعت کی اچھی بات کا دفاع یا تنقید کر رہا ہو تو کوئی دوسرا اُس کو پٹواری یا یوتھیا جیسے القابات سے ضرور نوازے گا۔
میں سیاست کا ادنیٰ سا سٹوڈنٹ ہوں ۔سیاست سے پیار ہے عشق ہے ۔

جس طرح سیاست میرا عشق ہے اسی طرح مملکتِ خداداد پاکستان کے تمام سیاست دان مجھے عزیز ہیں
۔مجھے معلوم ہے پاکستان انہی سیاستدانوں کے اباؤ اجداد کی انتھک جدوجہد کے بعد معرضِ وجود میں آیا ۔
مجھے عمران خان سے کوئی نظریاتی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی میں کسی سیاسی جماعت کی اندھا دھند تقلید کرتا ہوں لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں اگر ایک وزیراعظم اچھی کارکردگی نہیں دکھا رہا تو عوام ہی کا حق ہے کہ وہ اُن کا مواخذہ کرے ۔

(جاری ہے)

اور کھل کر تنقید کرے کیونکہ ہمارا آئین ہمیں اِس چیزکی اجازت دیتا ہے ۔ملک میں ہر اچھے اور برے کام کی ذمہ داری حکومتِ وقت پر ہی عائد ہوتی ہے ۔جب سے خان صاحب نے حکومت سنبھالی ہے کوئی شعبہ ایسا نہیں جو مشکلات کا شکار نہ ہوا ہو۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب غریب عوام نے مہنگائی کی دہائی نہ دی ہو۔
پاکستان کے تمام بڑے سرکاری ادارے معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں موجودہ حکومت اِن اداروں کو خسارے سے نکالنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔

۔سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق یہ ادارے اربوں روپے کے مالی خسارے کا شکار ہو چکے ہیں ۔وزراتِ خزانہ کی اپنی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دس بڑے ادارے مالی خسارے کا شکار ہیں۔19 جون 2019 تک اِن اداروں کا مجموعی خسارہ 1622 ارب روپے تھا۔۔این ایچ اے صرف ایک سال 2018 تا 2019 میں 33 ارب روپے کے خسارے کا شکار ہوا۔ریلوے کا ادارہ بھی 40 ارب روپے کے خسارے کا شکار ہو چکا ہے ۔

یہ وہ ادارہ ہے جس کے سربراہ شیخ رشید صاحب ہیں جو ہر وقت ٹی وی پر آ کر سیاسی پیشن گوئیاں کرتے رہتے ہیں۔بجائے اپنے ادارے کی بہتری کے حوالے سے بات کرنے کے یہ اپوزیشن پر مسلسل کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اِن کا مکمل رجحان ریلوے کی بہتری اوراِس خسارے کو کم کرنے پر ہوتا لیکن بدقسمتی سے ایک سال میں ہی خسارے میں40 ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔


ملکی ایئر لائن پی آئی اے کاسالانہ خسارہ بھی 39 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اور یہ ادارہ بھی مسلسل زوال پذیر ہے ۔پاکستان کی سب سے بڑی صنعت سٹیل مل کا بھی سالانہ خسارہ 14 ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے ۔اور اِس ادارے کے سربراہ عبدالرزاق داؤد صاحب ہیں جو خود کوبہت بڑے ماہرِ معاشیات سمجھتے ہیں ۔لیکن کارکردگی صفر سے بھی بدتر ہے اور سٹیل مل کی بہتری کے حوالے سے اب تک کوئی خاطر خواہ اقدامات بھی نہیں کئے گئے ۔


پاکستان کی مختلف توانائی کی کمپنیاں بھی اربوں روپے کے خسارے میں ڈوبی ہوئی ہیں اور یہ وہ ادارے ہیں جن کا براہِ راست تعلق پاکستان کی عوام کے ساتھ ہے۔اِن فیگرز کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ایک سال میں ہی پاکستان کے یہ تمام ادارے 1622 ارب روپے کے مالی خسارے کا شکار ہو چکے ہیں ۔اِس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت آنے سے پہلے یہ ادارے منافع بخش تھے۔

بلکہ اِس حکومت کے صرف ایک سال کے دوران ہی یہ تمام ادارے اربوں روپے کے خسارے میں جا چکے ہیں لیکن اِن اداروں کے سربراہ بجائے اپنی کارکردگی بہتر دکھانے یا بتانے کے مسلسل ڈھٹائی دکھا رہے ہیں اور سب اچھا کا جھوٹا راگ الاپنے میں مصروف ہیں ۔
اگر پاکستان کی معیشت کی بات کی جائے تو، معیشت کو جانچنے کا سب سے بہترین پیمانہ جی ڈی پی ہے ۔موجودہ حکومت کے دوران پاکستان کی جی ڈی پی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ۔

نوازشریف دورِ حکومت میں پاکستان کی جی ڈی پی %5.8 تھی جو 2020 میں گر کر منفی میں جا چکی ہے۔۔
یہ تو حقیقت ہے کہ جی ڈی پی کا گراف اوپر نیچے جانے سے معیشت پر براہِ راست اثر پڑتا ہے ۔جب تک یہ گراف اوپر نہیں جاتا تو آپ کی معمولات زندگی پر کوئی خاطر خواہ اثرات مرتب نہیں ہونگے اور بہتری نہیں آئے گی کیونکہ یہ گراف حکومت کا عوام کو سہولیات فراہم کرنے کا گراف ہے اِس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حکومت کہاں تک عوام کو سہولیات فراہم کر رہی ہے ۔


اِس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ملک میں صحت کے کیا حالات ہیں ۔تعلیم کی کیا صورتحال ہے۔اگر یہ گراف اوپر ہو گا تو اِن شعبوں میں بہتری آئے گی۔اور یہ گراف جتنا نیچے جائے گا تو اندازہ یہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری معیشت زبوں حالی کا شکار ہے یا ہو سکتی ہے ۔
کبھی ملک میں آٹے کا بحران پیدا ہو جاتا ہے تو کبھی چینی کا تو کبھی ملک بھر میں پٹرول کی عدم دستیابی کی شکایات موصول ہوتی ہیں ۔


چینی آٹا بحران پر بنائی گئی رپورٹ کے حوالے سے بلند وبالا دعوے کئے جاتے ہیں۔سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جاتی ہے۔مجربوں کو سزا دینے کے بلند وبالا دعوے کئے جاتے ہیں۔ جب رپورٹ آتی ہے تو اصل کرداروں کو بچایا جاتا ہے ۔یہاں بھی سیاست آڑے آ جاتی ہے تو میں کیا تعریف کروں؟
کیا یہ تعریف کروں کہ خان صاحب تقریر اچھی کرتے ہیں ۔بول اچھا لیتے ہیں ۔

ڈریسنگ بہت اچھی کرتے ہیں بہت ہینڈ سم بھی ہیں ۔بلند وبالا دعوے کرتے ہیں ۔کبھی نہ گھبرانے کا درس دیتے ہیں ۔بہت بڑے جلسے کرتے ہیں ۔اِن کو انگریزی بھی آتی ہے ۔نوازشریف صاحب کو تو وہ بھی نہیں آتی تھی۔اِن سب باتوں کا غریب عوام یا ملکی سلامتی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اِن باتوں کو بیان کر کے عوام کی مشکلات کو کم کیا جا سکتا ہے ۔
پاکستان کی عوام کے لئے بہتر معیشت ضروری ہے ۔

روزگار ضروری ہے، مہنگائی میں کمی لا کر عوام کی زندگیوں میں بہتری لائی جا سکتی ہے ۔اِن سب زاویوں سے موجودہ حکومت ناکام ہو چکی ہے۔تو میں کیا تعریف کروں؟
اس وقت بھی حکومت کا مکمل دھیان اپوزیشن کو نیچا دکھانے اور بےبنیاد الزامات لگا کر جیل میں ڈالنے پر ہی مرکوز ہے ۔احتساب کے نام پر انتقام جاری ہے لیکن اِس حوالے سے بھی یہ حکومت ناکام ہو چکی ہے۔

احتساب کے عمل کو بھی متنازعہ بنا دیا ہے جو حکومت کی واہ واہ کا واحد ذریعہ تھا ۔
حکومت نوازشریف یا شہبازشریف تو کیا پوری ن لیگ کو بھی جیل میں ڈال لیں۔ساری پیپلزپارٹی پر اپنے ترجمان بولنے کے لئے چھوڑ دیں یا جتنے مرضی غداری کے چورن بانٹیں۔ اِن سب باتوں سے عوام کی  زندگیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔تو پھر میں کیا تعریف کروں کہ یہ حکومت صحیح راستے پر ہے یا باقیوں سے بہتر کام کر رہی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :