"اپوزیشن کی بیٹھک اور نواز کی للکار"

پیر 21 ستمبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

‏موجودہ اپوزیشن کا اتحاد پاکستان کی گیارہ سیاسی و مذہبی پارٹیوں پر مشتمل ہے اور اِس کے مقابلے میں حکومت کو قومی اسمبلی میں ادنیٰ سی اکثریت حاصل ہے ۔سینیٹ میں بھی حکومت کے اراکین کی تعداد اپوزیشن سے کم ہے۔اِس لیے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپوزیشن اپنے دعووں اور وعدوں کے برعکس حکومت کی باآسانی چھٹی کروا سکتی تھی لیکن اپوزیشن ایسا کرنے سے قاصر رہی۔

اِس کی وجوہات جو بھی ہوں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ موجودہ اپوزیشن ابھی تک کمزور ترین حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔اِس داغ کو مٹانے کے لئے اب کی بار ایک بار پھر اپوزیشن "پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ" کے نام سے میدانِ میں داخل ہو چکی ہے۔پیپلزپارٹی کی زیرِ قیادت اسلام آباد میں اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی ۔

(جاری ہے)

ایسا ایک سال پہلے بھی ہو چکا ہے لیکن وہ کانفرنس زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی۔

اب کی بار حالات قدرے مختلف ہیں کیونکہ بلاول بھٹو زرداری نے اِس کانفرنس میں جان ڈالنے کے لئے مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں خطاب کرنے کی بھی دعوت دی جو دونوں رہنماؤں نے قبول کر لی۔آج جب یہ کانفرنس ہونے جا رہی تھی تو اُس سے پہلے حکومتی ترجمانوں کی لمبی قطار اُمڈ آئی اور اپوزیشن پر پےدرپے وار کیے ۔

شہباز گِل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اِس کانفرنس میں میاں نواز شریف کی تقریر میڈیا پر نشر نہیں ہونی چاہیے اگر ایسا ہوا تو پیمرا ٹی وی چینلز کے خلاف کاروائی کرے گا لیکن آج ہی وزیراعظم کے حکم کے بعد تقریباً تمام بڑے چینلز سمیت میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی تقریر براہ راست نشر کی گئی۔ میاں نواز شریف سے پہلے سابق صدر آصف علی زرداری نے خطاب کیا اُن کا خطاب بھی معمول سے ہٹ کر تھا جس میں انھوں نے اپنی زیادہ توجہ حکومت مخالف بیانات پر ہی مرکوز رکھی لیکن سب سے قابلِ ذکر خطاب سابق وزیراعظم نوازشریف کا تھا جو ایک طویل عرصے کے بعد سیاست کی اسکرین پر لائیو آئے اور دل کی بھڑاس خوب نکالی ۔

میاں  نواز شریف نے اپنے خطاب میں اُن باتوں کا بھی ذکر کیا جس کی امید ہم میں سے بہت سوں کو نہیں تھی کہ میاں نواز شریف ایسی تقریر کرینگے جس کی بنا پر وہ پہلے بھی کئی مشکلات کو اپنے گلے ڈال چکے ہیں ۔اُن کی تقریر سے یہ بات ضرور عیاں ہوئی کہ نوازشریف ووٹ کو عزت دو کے نعرے پر مکمل طور پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔یقیناً یہ بہت بڑی بات ہے کیونکہ مسلم لیگ ن خاص طور پر نوازشریف کی موجودہ سیاست اِس نعرے کے گرد ہی گھومتی ہے لیکن اِس سے ہٹ کر نوازشریف نے گراؤنڈ کے چاروں طرف خوب کھیلا اور کچھ باتیں ایسی بھی کیں جو عموماً الیکٹرانک میڈیا پر سنسر کر دی جاتی ہیں لیکن آج وہ بھی چلائیں گئیں ۔

میاں نوازشریف نے ایک بار پھر سے غیر منصفانہ احتساب کا شکوہ کیا اور عاصم سلیم باجوہ کے خلاف جاری کردہ احمد نورانی کی رپورٹ کا بھی ذکر کیا۔میاں نوازشریف نے کہا کہ ‏عاصم سلیم باجوہ کے خلاف اتنا بڑا سکینڈل سامنے آیا لیکن نہ نیب حرکت میں آیا نہ کوئی جے آئی ٹی بنی نہ کوئی مانیٹرنگ جج سامنے آیا اور وزیراعظم کہتے پھرتے ہیں وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے لیکن انھوں نے خود کو بچانے کے لئے این آر او دیا۔

نوازشریف نے اپنی تقریر کا زیادہ تر حصہ غیر جمہوری قوتوں کو للکارنے پر ہی صرف کیا جس میں انھوں نے کہا کہ ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ اُن کو اقتدار میں لانے والی قوتوں سے ہے۔ یقیناً اُن کی للکارغیر جمہوری قوتوں کو ہی تھی جن کو لے کر انھوں نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بھی لگایا اور اتنی مشکلات آنے کے باوجود آج بھی اُس نعرے پر ڈٹے ہیں۔

‏ نواز شریف نے لمبے عرصے بعد اپنی خاموشی کو توڑا اور سیاست کے میدان میں دبنگ انٹری دی ۔اُن کی تقریر سے لگ یوں رہا تھا کہ میاں صاحب نے اپنی ساری کشتیاں جلا دیں اور بہت سوں کو خاموش بھی کرا دیا کہ اب وہ اپنے نظریے پر ڈٹ کر کھڑے ہیں منزل پانے تک واپسی کا کوئی راستہ نہیں لیکن میاں نواز شریف کو اِس ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے جلد از جلد پاکستان ضرور آنا چاہئے اور عدالتوں میں زیرِ التوا مقدمات کا سامنا کرنا چاہئے کیونکہ سیاسی ناقدین نوازشریف کی پاکستان واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور آل پارٹیز کانفرنس کے بعد یہ مطالبہ شدت پکڑے گا لیکن معالجین کے مطابق انہیں لندن میں کچھ عرصہ مزید قیام کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنا علاج بہتر طریقے سے مکمل کروا کر ہی وطن واپس جائیں اگر ایسا ہوتا ہے تو یقیناً نوازشریف لندن میں یی بیٹھ کر اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں گے اِس سلسلے میں انھوں نے سوشل میڈیا پر بھی ایکٹو ہونے کا اعلان کیا ہے اور اپنے اکاؤنٹس بھی بنا ڈالے۔

نوازشریف کی تقریر کے بعد اے پی سی کی اہمیت اور بڑھ گئی ۔آج مشترکہ اعلامیے میں ایک بار پھر سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے ساتھ مل کر چلنے پر اتفاق کیا اور 26 نکات پیش کیے۔مشترکہ اعلامیے میں مستقبل کا لائحہ عمل بھی پیش کیا جس کے مطابق ‏اپوزیشن کا حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ سامنے آیا ہے، ‏اکتوبر کے پہلے ہفتے سے ریلیاں اور جلسے کیے جائیں گے، ‏جنوری 2021 میں 11 اپوزیشن جماعتیں جن کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نام دیا گیا، اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گی، تاکہ حکومت کو گھر بھیجا جا سکے ۔

اکتوبر سے جنوری تک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ بھی کرتا رہے گا ۔اگر وزیراعظم کی طرف سے استعفیٰ دے دیا گیا تو ٹھیک ورنہ ‏اسلام آباد پہنچ کر اسمبلیوں سے استعفے دییے جایں گے تاکہ حکومت کو رخصت کروا کر نیے انتخابات کروائے جا سکیں ۔متحدہ اپوزیشن نے اسٹبلشمنٹ پر یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت کرنے سے باز رہے تاکہ صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ متحدہ اپوزیشن کو کامیاب ہونے کے لئے مثالی اتحاد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اِس طرح کا اتحاد ماضی میں بھی سامنے آیا لیکن زیادہ کامیابی نہ مل سکی۔اپوزیشن کو چاہئے کہ حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے اپنی صفیں درست رکھنا ہونگی اور اُن بندوں کو بھی تلاش کرنا ہو گا جو اپوزیشن میں رہ کر ووٹ نہیں دیتے اور دباؤ میں آ کر چیئرمین سینٹ کے لئے اکثریت ہونے کے باوجود اپنا چیئرمین نہیں بنوا سکتے‏۔اِس بار بھی اپوزیشن کو شرمندگی سے بچنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی اپنانا ہوگی اور اُس پر قائم بھی رہنا ہوگا ورنہ یہ دھول ایسے ہی اُڑتی رہے گی اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :