"نوازشریف ،الطاف حسین اور ہماری سوچ"

پیر 23 نومبر 2020

Sheikh Munim Puri

شیخ منعم پوری

ہمارے معاشرے میں بعض اوقات ایسی باتیں بھی زیرِ گردش ہوتی ہیں جن کو سُن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ کس طرح کی باتیں ہم تک پہنچا دی گئی ہیں ۔ہم میں سے بہت سے لوگ سیاست کے بنیادی اُصولوں اور پاکستان کی سیاسی تاریخ سے ہی ناواقف ہیں اور چند نام نہاد دانشوروں کی باتوں سے میں آ کر حقائق کو مسخ کر دیتے ہیں ۔ پچھلے کچھ دنوں سے ایک مخصوص طبقہ اِس بات کو جانے یا انجانے میں میں سچ مان بیٹھا ہے کہ نواز شریف صاحب دوسرے الطاف حسین بن چکے ہیں ۔

ایسا انہوں نے کیوں سمجھا ؟محض اِس لیے کہ نوازشریف نے لندن سے بیٹھ کر جلسوں اور کچھ میٹنگز میں ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرنا شروع کر دیا یا صرف اِسلیے کہ اُن کا لندن میں قیام طویل ہو چکا ہے اور انھوں نے ابھی تک واپسی کی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی یا صرف اِس لیے کیونکہ وہ نوازشریف سے سیاسی اختلافات رکھتے ہیں صرف اِسی بنیاد پر انہوں نے حقائق کو جانے بغیر ایسی باتیں کہنا شروع کر دیں ۔

(جاری ہے)

اِن تمام باتوں کو پسِ پردہ ڈال کر ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ نوازشریف کی سیاست اور الطاف حسین کی سیاست یا اِس حوالے سے دونوں کی سیاسی تاریخ میں بڑا فرق ہے ۔الطاف حسین نے سیاست کاآغاز کراچی سے کیا اور صرف ایک طبقے کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ صرف مخصوص علاقوں تک ہی اپنی جماعت کی سیاست محدود رکھی، یہاں تک کہ الطاف حسین کبھی بھی ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی نہیں رہے ۔

وہ کبھی بھی اپنی جماعت سے ہٹ کر بڑے عہدے پر فائز نہیں رہے، الطاف حسین کی ساری سیاست سندھ کے شہری علاقوں سے شروع ہو کر یہیں ختم ہو جاتی ہے ۔نوے کی دہائی کے شروع میں جب کراچی میں حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو انہیں اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف کی حکومت نے جلاوطن کر دیا تب سے لے کر آج تک وہ ملک واپس نہیں آ سکے اور لندن قیام کے دوران ہی انھوں نے اپنی جماعت کی قیادت کی۔

اُن کی جماعت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہوتی گئی اور اِس کھیل میں آخری بال اُس وقت کرائی گئی جب نواز شریف کے تیسرے دور میں کراچی آپریشن کا آغاز ہوا لیکن الطاف حسین کی سیاست مکمل طور پر اُس وقت اپنے اختتام کو پہنچی جب نوازشریف ہی کے تیسرے دورِ حکومت میں انھوں نے ایک جلسے میں خطاب کے دوران پاکستان کے خلاف نعرے لگوائے اور تب سے انھوں نے اپنی سیاست کو پاکستان میں ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ۔

الطاف حسین کے ایسے بیانات کے بعد ایم کیوایم پاکستان معرضِ وجود میں آئی اور الطاف حسین ایم کیو ایم لندن تک محدود کر دیے گئے اور ایم کیو ایم سے وجود میں آنے والی جماعت ایم کیو ایم پاکستان نے مقبول صدیقی کی قیادت میں سیاسی سرگرمیاں شروع کیں ۔لیکن نواز شریف کے حقائق الطاف حسین کی نسبت واضح ہیں ۔نواز شریف کو عمران خان صاحب کی حکومت نے خود ہی علاج کے لئے باہر بھیجا اور اب نواز شریف کا لندن میں قیام کافی لمبا ہو چکا ہے ۔

یہی وہ وجہ ہے کہ نواز شریف کے سیاسی ناقدین یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ نوازشریف بھی الطاف حسین کی طرح کبھی واپس نہیں آئیں گے لیکن نوازشریف اور اُن کی جماعت یہ کہتی ہے کہ علاج مکمل ہونے کے فوراً بعد ہی نوازشریف صاحب پاکستان آ جائیں گے ۔دوسری طرف نواز شریف اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے مفرور قرار دیے جا چکے ہیں کیونکہ نواز شریف کا قیام مقررہ تاریخ سے زیادہ ہو چکا ہے اور عدالت نے ہی حکومتی اصرار کے بعد نواز شریف کو بیرونِ ملک علاج کے لئے جانے دیا اور حکم دیا کہ نواز شریف مقررہ تاریخ تک پاکستان پہنچ کر عدالتوں کا سامنا کریں لیکن نواز شریف اور اُن کے قریبی حلقوں کے مطابق اُن کی صحت مقررہ تاریخ تک بہتر نہیں ہوئی جس کی وجہ سے وہ واپس نہیں آ پائے۔

لندن قیام کے کافی عرصہ تک نواز شریف صاحب خاموش رہے لیکن اِن کی خاموشی معنی خیز ضرور رہی لیکن جب بولے تو اُن کا بولنا حکومتی شخصیات اور اداروں کے لئے بھاری بھی پڑا، پھر وہیں سے اصل گیم کا آغاز ہوا اور نواز شریف کی صحت  اور سیاست کے حوالے سے غلط بیانیوں کا سلسلہ چل نکلا ۔انہی دنوں میں ہی حکومت کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ وجود میں آیا اور اِس تحریک کے جلسوں میں نواز شریف کا خطاب شامل کیا گیا۔

نواز شریف نے اپنے اِن خطابات میں کافی رازوں سے پردہ بھی اُٹھایا جن کو حکومت اور اِس کے ہمنوا ادارے برداشت نہیں کر پائے اور ٹی وی چینلز سے اِن کا خطاب رکوا دیا گیا لیکن جلسوں اور سوشل میڈیا میں اِن کے خطابات کے چرچے رہے .نوازشریف کی تقاریر اور باتیں پاکستان کے آئین کے تابع ہیں، اُنھوں نے کبھی ریاست کے خلاف بیان نہیں دیا ۔وہ دے بھی کیسے سکتے ہیں جب وہ پاکستان کے تین بار کے منتخب وزیراعظم رہے۔

حکومت کی طرف سے بارہا یہ کوششش کی گئیں کہ نوازشریف کو بھی ملک دشمن قرار دیا جائے اور عوام میں یہ تاثر پیدا کیا جائے کہ نواز شریف بھی الطاف حسین کے نقشِ قدم پر چل نکلے ہیں لیکن اُن کی جماعت اور نواز شریف کا ووٹر ڈٹ کر کھڑا ہے اور نوازشریف کے بیانیے کا بھرپور دفاع بھی کر رہا ہے۔مریم نواز اِس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کو پاکستان میں سنبھالے ہوئی ہیں۔

اُن کے جلسے اِس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ نواز شریف کا بیانیہ ملک دشمن نہیں بلکہ عوام کی ترجمانی کر رہا ہے۔یعنی اِن باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نواز شریف کی سیاست الطاف حسین سے بلکل مختلف ہے نواز شریف ایک قومی سطح کے لیڈر ہیں اور ملک کے تین بار کے منتخب وزیراعظم رہ چکے ہیں لیکن الطاف حسین صرف سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندگی ہی کر پائے۔

نوازشریف کسی جماعت یا حکومت کی طرف سے جلاوطن نہیں ہیں وہ علاج کی غرض سے باہر گیے اور علاج مکمل ہونے کے بعد وطن واپس ہی لوٹ آئیں گے کیونکہ وہ پاکستان کی دوسری سب سے بڑی جماعت کی قیادت کر رہے ہیں اُن کی جماعت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں اکثریتی جماعت ہے۔نواز شریف کی کہی گئی باتیں پاکستان خاص طور پر پنجاب میں بہت سنجیدہ لی جاتی ہیں اِس بات کا حکومت اور مقتدر قوتوں کو بخوبی اندازہ بھی ہو چکاہے ۔

اِس لیے نواز شریف دوسرے الطاف حسین والا نعرہ بھی بری طرح فلاپ ہو چکا ہے کیونکہ نواز شریف کی سیاست پاکستان ہی کے گرد گھومتی ہے، وہ پاکستان کی عوام کے مقبول لیڈر بھی ہیں ۔پاکستان کے کئی قومی رازوں کے محافظ بھی ہیں ۔پاکستان پر بےشمار احسانات کے محسن بھی ہیں ۔اِس لیے نوازشریف کو الطاف حسین کے ساتھ جوڑنا سراسر حقیقت کے منافی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :