این آر او یااپوزیشن کی بلیک میلنگ

بدھ 26 اگست 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

اپنے ذاتی کام کے سلسلے میں انگلینڈ سے لاہور پاکستان اگست کے پہلے ہفتے پہنچا، دوست احباب کی جانب سے کرونا کے دور میں ایئرپورٹ پر بوڈنگ ،سفر اور پھر پاکستان پہنچ کر امیگریشن اور دوسرے معاملات کے بارے میں کافی سن رکھا تھا کہ ہیتھرو ایئرپورٹ سے لیکر پاکستان پہنچنے تک کرونا وائرس کے بعدبہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کرونا کے ٹیسٹ اور اس کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے اپنے آپ کو مکمل تیار کررکھا تھا، ویسے الحمداللہ میں ماضی میں کرونا وائرس کی وباء سے مکمل محفوظ رہااور ابھی تک ہوں الحمداللہ۔

لیکن جس طرح سفری احتیاط کی ضرورت پر حکومتی سطح پر تشہیر ہو رہی ہے اس کو پورا کرتے ہوئے میں بھی دوسرے مسافروں کی طرح اپنے چہرے کو ماسک سے ڈھانپ رکھا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیربعد ہاتھوں پر ملنے والا لوشن بھی میرے پاس جیب میں موجودتھا اور اس کا استعمال وقت فوقتاً کرتا رہا، لیکن جیسا ڈر یا خوف دوست احباب سے سن رکھا تھا ، ویسا بالکل بھی کہیں دیکھنے میں نہیں آیا،آہستہ آہستہ ایئرپورٹ پر بڑھتی ہوئی رونقوں کے درمیان سے ہوتا ہوا لندن ہیتھرو سے اڑا کر بحرین چار گھنٹے کیلئے رکا، بحرین ایئرپورٹ دوسرے عرب ممالک کی نسبت چھوٹا ایئرپورٹ تھا اور ایسے ویران تھا کہ گویا سانپ سونگھ گیا ہو۔

(جاری ہے)

اگلی فلائٹ سے تھوڑی دیر پہلے لاہور پاکستان کی فلائٹ کے چند مسافر نظر آنا شروع ہوئے اور چند دوسرے جو یورپ کے دوسرے ممالک سے لاہور کیلئے سفر کر رہے تھے ، وہ بھی ایئرپورٹ پر چہل قدمی کرتے دکھائی دیئے۔ فلائٹ اپنے مقررہ وقت پر لاہور کیلئے روانہ ہوئی اور خدا خدا کرکے لاہور پاکستان اترے ، فلائٹ لینڈ کرنے سے دو گھنٹے پہلے ہی جہاز میں موجود فضائی میزبانوں نے تمام مسافروں کو پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے کرونا وائرس سے متعلق ایک فارم دیدیا جو سب مسافروں کو پر کرنے کے بعد لاہور ایئرپورٹ پر امیگریشن سے پہلے جمع کرانا تھا،جہاز سے اترتے ہی ایک صاحب ٹمپریچر گن لئے موجود تھے جو ہر مسافر کے ماتھے پر ٹمپریچر لینے کے بعد آگے پاس کر رہے تھے۔

اس کے بعد باقی سب حسب سابق ویسے ہی تھا ، جیسے پہلے ہوتا ہے۔ یہاں لاہور پہنچنے کے بعد اپنے گھریلو ذاتی کاموں میں ایسا مگن ہوا کہ دو ہفتے گزر گئے لیکن کالم لکھنے کی جو یکسوئی ہونی چاہئے وہ نہ مل سکی، جس کی وجہ سے کالم لکھنے اور بھیجنے سے قاصر رہا۔ پچھلی رات کچھ دیر ٹی وی ٹاک شو نظر سے گزرے اور ملکی حالات کے بارے پتہ چلا تو ابھی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کالم لکھنے کی پیاس بجھانی چاہئے تو خیالات میں جو جو کچھ آتاجائیگا لکھتا جاؤنگا۔


پتہ چلا ہے کہ پاکستانی حکومت نےFATF کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے اسمبلی سے جو بل پاس کرایا تھا اس بل کو پاس کرانے میں اپوزیشن نے حکومتی بینچوں کو بہت زیادہ بلیک میل کرنے کی کوشش کی ، اور عمران خان اگر اس بلیک میلینگ میں آ جاتے تو اس حکومت میں کرپشن کا ایک بازار نئے سرے سے شروع ہو جاتا، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بل کو پاس کرانے کیلئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی اس میں اپوزیشن کی جانب سے جتنے بھی ارکان نے اس کمیٹی میں اپوزیشن کی نمائندگی کی وہ سب کے سب ہی نیب کے زیرعتاب تھے اور ہیں، جو سرے سے ہی یہی مطالبہ کر رہے تھے کہ نیب ادارے کو بالکل ہی ختم کر دیا جائے۔

کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی عمل میں لائی جاتی رہے اور ان کو گورنمنٹ کی طرف سے ہی آفیشل این آر او مل جائے۔لیکن وزیر اعظم عمران خان نے ان سب نیب زدہ لٹیروں کے دانت کھٹے کر دیئے۔کیونکہ جب سے تحریک انصاف برسر اقتدار میں آئی ہے اس دن سے اپوزیشن متعدد مرتبہ این آر او کا مطالبہ کر رہی ہے۔ جس پر ان کی ہٹ دھرمی یہ ہے کہ وہ اپنی ماضی میں کی گئی کسی کرپشن پر نادم نہیں بلکہ اگر عمران خان ان نیب زدہ سیاست دانوں کا مطالبہ مان لیتے اور انہیں این آر او مل جاتا تو جو پہلے کرپشن کرنے سے قبل ان کی آنکھوں میں کوئی جو تھوڑی بہت شرم باقی ہے وہ بھی ختم ہو جانی تھی۔

ان سیاست دانوں نے کھل کر اپنے من پسندیدہ کرپشن کے کھیل کو سرعام اور وہاں تک کھیلنا تھا جہاں تک ان کا بس چلتا۔کیونکہ اس کمیٹی کے ایجنڈا میں شامل 37 پوائنٹ میں سے پیش کئے جانیوالے 34 ایسے تھے جو اپوزیشن نے پیش کئے اور اگر موجودہ حکومت ان پوائنٹس کو مان لیتی تو ناصرف آج سے پہلے کی گئی تمام کرپشن حلال ہو جاتی بلکہ آئندہ بھی تمام کرپشن کرنے کے تمام راستے بھی ہموار ہو جاتے۔

اپوزیشن نے جو موجودہ حکومت کے سامنے اپنی ترامیم کو پیش کیا اس کا جائزہ لینے کیلئے میں ان کو قارئین کرام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں،جو ایسے ہی ہے جیسے '' انوکھا لاڈلا ، کھیلن کو مانگے چاند''
* ۔۔۔۔۔نیب ایکٹ کرپشن قوانین کا اطلاق 1999ء سے پہلے سے کی گئی کرپشن پر ناہو۔یعنی جتنے بھی ایسے مقدمات جو 1999ء سے پہلے قائم کئے گئے ان کوختم کر دیا جائے۔

اگر یہ مطالبہ مان لیا جائے تو 1999ء سے پہلے کے تمام کیس خود بخود ختم ہو جائیں گے۔
* ۔۔۔۔۔اپوزیشن کی جانب سے اگلی ترمیم کا مطالبہ یہ تھا کہ ملک میں ایک ارب روپے سے کم کی کرپشن کو کرپشن نہیں مانا جائیگا۔ یعنی اگر کسی سیاست دان ،بیورو کریٹ یا بزنس مین نے ننانوے کروڑ اور ننانوے لاکھ روپے اور ننانوے ہزارکی لوٹ مار کی ہو گی، اسے کرپشن نہیں مانا جائیگا۔

اور اس پر کرپشن کا کوئی مقدمہ قائم نہیں ہو سکے گا۔دیکھیں زرا ہمارے سیاست دان ملک کی بہتری کیلئے کیسے کیسے قانون پاس کرانے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔
* ۔۔۔۔۔منی لانڈرنگ کو نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دینا چاہئے، یعنی جتنے بھی کرپٹ سیاست دانوں نے بیرون ممالک میں لاتعداد جائیدادیں بنائی ہیں، ان جائیدادوں کی خرید و فروخت کیلئے انہیں یہاں سے غریب عوام کا پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے ہی باہر بھیجا گیا اس کو قانونی شکل دی جائے اور اس پر نیب کوئی سوال نا اٹھائے۔

واہ رے ہمارے لیڈرو۔ اگر اس مطالبہ کو مان لیا جائے تو نواز شریف، شہباز شریف، فریال تالپور اور آصف علی زرداری پر بنائے گئے تمام مقدمات ختم ہو جائیں گے اور وہ مکھن میں سے بال کی طرح نکل جائیں گے۔
* ۔۔۔۔۔نیب کے دائرہ کار میں سے لوٹ مار اور کرپشن کے پیسہ کے عوض پراپرٹی کی ریکوری کو بھی نکال دیا جائے ۔ اب پڑھنے والے خود سوچیں کہ اگر پراپرٹی کی ریکوری کو نکال دیا جائے تو جو لوٹے ہوئے مال کو واپس لانے کیلئے نیب اپنے پلے سے ادائیگیاں کرے گی کیا؟ اور اگر اس شق کو مان لیا جائے تو شریف خاندان، زرداری خاندان اور دوسرے کرپٹ سیاست دان پہلی ہی پیشی پر بری ہو جائیں گے۔


* ۔۔۔۔۔بیرون ملک سے کرپشن کے تمام ثبوتوں کو براہ راست عدالت میں پیش نہیں کیا جائیگا، یعنی اگر کوئی ثبوت کو تبدیل کرنا مقصود ہو گا تو اسے تبدیل بھی کیا جا سکے گا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا ثبوت بھی فراہم کیا جائے سکے گا۔ واہ میرے بھولے کرپٹ سیاست دانوں ۔۔۔
* ۔۔۔۔۔چیئرمین نیب کی مدت ملازمت چار سال کی بجائے تین سال کر دی جائے ۔ دراصل یہ جتنے بھی اپوزیشن کی جانب سے مطالبات پیش کئے ہیں، ان پر باری باری غور کیا جائے تو اس میں کچھ نا کچھ بدنیتی شامل ہے، اپوزیشن کا مقصد اس وقت موجود چیئرمین جاوید اقبال کو ان کے عہدے سے ہٹانا ہے تاکہ ان کا دھیان دوسری طرف مبذول کیا جا سکے۔

ویسے بھی کم عرصے میں اس عہدے پر قائم رہنے والے چیئرمین کو کم سے کم وقت میں گھر بھیجا جا سکے اور اگر کوئی ان کا پیٹی بھائی کیس میں ملوث پایا جائے تو نیا چیئرمین آنے پر اس کو سنبھالا جا سکے اور اس پرپہلے ہی قابوپایا جا سکے۔
* ۔۔۔۔۔اپوزیشن کی جانب سے اگلی تجویز بھی تمام دوسری تجاویز کی طرح کافی دلچسپ ہے کہ نیب پانچ سال تک تو کرپشن کے پکڑے جانے یا شکایت ہونے کی صورت میں اس سیاست دان پر کیس چارج شیٹ کر سکتا ہے لیکن اگروہ کیس پانچ سے زیادہ پرانا ہے تو نیب اس پر کوئی کارروائی نہیں کر سکے گا۔

یعنی آج 2020ء میں ہونیوالی کرپشن کا انکشاف اگر 2027 ء میں سامنے آتاہے تو اسے نیب کچھ نہیں پوچھ سکتا کیونکہ پانچ سال بعد سب حلال ہو جائیگا۔
* ۔۔۔۔۔اگلی پیش کی جانیوالی تجویز پر تو پڑھنے والے یقیناً تالیاں بجانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ کہ کرپٹ سیاست دان پر کرپشن ثابت ہونے کی صورت میں اسے دس سال نااہل کرنے کی بجائے پانچ سال مدت کر دی جائے تاکہ وہ ان پانچ سالہ نااہلی میں اپنی پرانی تھکاوٹ اتارے، کپڑے جھارتے ہوئے دوبارہ ایم پی اے / ایم این اے بن کر دوبارہ اپنے نئے کرپٹ منصوبوں کے ساتھ اسمبلی کے فلور پر آ بیٹھے اور پھر زور و شور سے اپنی نئی لوٹ مار کا آغاز کر سکے۔

قارئین کرام خود اندازہ کریں اس ملک میں ہو کیا رہا ہے، ان حرام خوروں کو تو چاہیے کہ ایسا عبرتناک قانون بنانے کی سفارش کریں کہ کرپشن کرنیوالا دوبارہ اس دلدل میں جانے سے پہلے ہزار بار سوچے۔اسے ذلت و سوائی کا نمونہ بنا دینا چاہئے ، تاکہ وہ کسی کو اپنا منہ نا دکھا سکے اور اسے ناحیات نااہل کیا جائے یا چین کی طرح پھانسی پر ہی لٹکادیا جائے۔

لیکن آفرین ہے ہمارے ملک کے سیاست دانوں پر جو پاکستان کا قانون بناتے ہیں۔
* ۔۔۔۔۔اگلی پیش کی گئی تجویز میں ان اپوزیشن کے نیب زدہ سیاست دانوں نے مطالبہ کیا کہ نیب میں کرپشن کیس میں ملوث بیورو کریٹ، بزنس مین ،جرنیل ، اور سیاست دان کو کیس ثابت ہونے تک گرفتار نا کیا جائے۔ یعنی اسے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے گواہ اور ثبوتوں کو مٹانے کیلئے کھلی چھٹی رہے۔

پتہ نہیں کیوں اس طرح کی تجاویز دینے اور لکھنے والے کو بھی کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی۔
* ۔۔۔۔۔نیب کے خلاف ایک اہم بلکہ نیب کے تابوت میں آخری کیل کے طور یہ تجویز پیش کی گئی کہ نیب کے چیئرمین کسی کرپٹ ملزم کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کر سکیں گے۔ اب آپ خود بتائیں یہ کیا مذاق چل رہا ہے۔ ابھی تو ان تجاویز کی تعدا د 37 تھیں، میں نے جو اپنے قارئین کے سامنے چند ایک چیدہ چیدہ پیش کی ہیں ان کو پڑھ کر اگر اب بھی یہ لوگ کہیں کہ ہمیں این آر او نہیں چاہئے تو یہ بات دیوانے کی طرف سے پھیلائی بات معلوم ہوتی ہے ۔

اگر یہ تجاویز منظور کر لی جاتیں تو ہمارے ملک میں کیا ہونے والا ہے، اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں ماشااللہ سارے پڑھے لکھے ، محب وطن اور باشعور ہیں۔اس پر ایک دو لفظی فقرہ ضرور لکھوں گا کہ ۔۔۔ ''' شاباش عمران خان'''

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :