''اوہ دن ڈبا ، جدوں گھوڑی چڑھیا کُبا''

اتوار 11 اکتوبر 2020

Syed Abbas Anwar

سید عباس انور

آج کل پاکستان میں پھر وہی ماضی کی طرح کا ماحول بنانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے جس کے متعلق ملک بھر کے اکثر و بیشتر سیاست دان اور احباب اختیار اپنے اخباری بیانات اور ٹی وی شوز میں اکثر ایک ہی فقرہ دوہراتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ '' پاکستان اس وقت اپنے نازک دور سے گزر رہا ہے'' دو ڈھائی سال قبل پی ٹی آئی کی حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد پوری قوم کو ایک آسرا بندھا تھا کہ کم از کم اس دور حکومت میں یہ فقرہ سننے کو نہیں ملے گا لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ فقرہ پاکستانی سیاست میں لازم و ملزوم بن چکا ہے۔

پاکستان کی عدلیہ اور حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونک کر پاکستان سے فرار ہو کر لندن میں لوٹ مار، کرپشن اور ناجائز کمائی سے بنائی جانیوالی جائیداد میں قیام پذیرپاکستان کے سب سے بڑے جعلی مریض اعظم کی طرف سے پچھلے ہفتے پاکستان مخالف تقاریر نے گو کہ پاکستان کے باشعور عوام پر وہ اثر نہیں چھوڑا ، جس کا یہ پاکستان مخالف ٹولہ امید لگائے بیٹھا تھا، کیونکہ پاکستانی عوام آج بھی اپنے ملک سے اور اپنے ملک کی سرحدوں کی رکھوالی پر مامور پاکستان آرمی سے وہی والہانہ محبت کرتے ہیں ، جو ایک زندہ قوم اپنے قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

کیونکہ ہر ملک میں فوج کا ایک کلیدی کردار ہوتا ہے جو پاکستان آرمی بااحسن طریقے سے نبھارہی ہے اور انشااللہ تاقیامت نبھاتی رہے گی۔انہی تقاریر کے بعد پاکستان میں بننے والے اپوزیشن کے سازشی ٹولے کے اتحاد کو پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کا نام دیا گیاہے جس کے اجلاس آجکل صبح شام جاری ہیں اور ان اجلاسوں میں پاکستان کے سبھی وہ سیاست دان شامل ہیں جن کے ذہن میں غالب گمان ہے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں اور وہ جتنی مرضی چور بازاری کا بازار گرم کرتے رہیں یا ابھی تک کر چکے ہیں انہیں اس کے متعلق نا کبھی کوئی پوچھے اور نا اس پر وہ کسی بھی ادارے کو کوئی جوابدہ ہوں۔

اپنی چوری اور ناجائز بنائی جانیوالی دولت کو بچانے کیلئے ایک مرتبہ پھر سے یہ ٹولہ پاکستانی عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے میدان میں نکل پڑا ہے جس کیلئے یہ لوگ عوامی جلسے اور اجتماعات کر کے عوام کو ایک مرتبہ پھر سے سبز باغ دکھا کر بے راہ روی کا شکار کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
 ماضی میں نواز شریف پر عوام نے تین مرتبہ اعتبارکرتے ہوئے اسے پاکستان کا وزیراعظم بنایا لیکن اس بے ہدایتے شخص کو عزت راس نہیں آئی، وہ اپنے ہر دور حکومت میں لوٹ کھسوٹ کی سیاست کی پٹڑی پر پہلے سے زیادہ تیز ہو کر بھاگتے رہے، اسی وجہ سے ہی وہ اپنا کوئی بھی دور حکومت پورا نا کر سکے اور اپنے گزشتہ دور حکومت میں ایسے منہ کے بل گرے کہ تاحیات نااہل ٹھہرائے گئے، اسی وجہ سے ہی انہیں گھر بھیج دیا گیا اور پھر ملک بھر میں جگہ جگہ ایک ہی فقرہ دہراتے نظر آئے '' مجھے کیوں نکالا، مجھے کیوں نکالا'' میرا خیال ہے اب انہیں سمجھ آ چکی ہو گی کہ انہیں کیوں نکالا گیا ۔

اس سارے ادوار میں ایک مرتبہ تو نواز شریف کو اسمبلی میں دو تہائی اکثریت بھی ملی لیکن مسلم لیگ ن کی اس دور کی حکومت نے بھی عوام کی طرف سے دیئے جانیوالے مینڈیٹ پر پورا نا اترتے ہوئے اس ملک کوناصرف دونوں ہاتھوں سے لوٹابلکہ ملک بھر کے متعدد ادارے گروی رکھوا دیئے، اپنی لوٹ مار کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی خاندانی دولت میں اس قدر اضافہ کیا کہ اللہ کی پناہ۔

یہ ملک دشمن سیاست دان پاکستان کے کبھی بھی خیرخواہ نہیں رہے، اپنی تین مرتبہ ملی ہوئی حکومت میں تو یہ ملک میں کی جانیوالی بدعنوانیوں کو درست نہیں کرتے لیکن جب بھی اپوزیشن بینچوں میں بیٹھتے ہیں تو انہی خامیوں کو دوبارہ ٹارگٹ کرنے اور انہیں ٹھیک کرنے کا شورشرابہ کر کے حکومت وقت کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ اس بنا پر اگر حکومت وقت ان کی ماضی میں کی جانیوالی کرپشن کا حساب مانگے تو اسی وقت ملک میں جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

اگر عدالت کی جانب سے ان کے حق میں فیصلہ آ جائے تو یہی سیاست دان مختلف جگہوں پر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے اسے حق کی فتح قرار دیتے ہیں اور اگر ان کے خلاف فیصلہ آ جائے تو اسے یہی حرام خور سیاست دان اسے اپنے خلاف ناانصافی قرار دیتے ہوئے عدلیہ کے اقدام کو اپنے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے انتقامی کارروائی کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ان ماضی کے سیاست دانوں نے عوام کو ہمیشہ دھوکہ دیا ہے کیونکہ پاکستان میں کرپشن کی راہ میں فوج، عدلیہ اور نیب اس وقت ڈٹ کر کھڑی ہے اور پاکستانی عوام کو قوی امید ہے کہ بہت جلد اس گندی سیاست کا خاتمہ ہو جائیگا اور اس سازشی ٹولے کے دانت کھٹے ہوجائیں گے۔


 پچھلے ہی ہفتے پاکستان عدلیہ نے بھی جعلی مریض اعظم نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی پر عملدآمد کیلئے انہیں ایک ماہ کی مہلت دی ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندرواپس پاکستان آ کر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرتے ہوئے عدالت میں پیش ہو جائیں اور اپنی اس طویل غیرحاضری کے دفاع کیلئے عدالت کو بتائیں کہ انہوں نے جھوٹے میڈیکل پیپرز اور دھوکہ دہی سے ملک سے فرار ہونے کا راستہ کیوں اختیار کیااور یہ کہ اس لوٹی ہوئی دولت کے بارے میں جو وہ جگہ جگہ اپنے جعلی ذرائع بتایا کرتے تھے ان کی بھی وضاحت پیش کریں،لیکن یہ ثبوت وہ کیوں اور کیسے پیش کریں گے، اس ساری فراڈ بازی سے ایک بات تو روز روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے غبارے سے ہوا آہستہ آہستہ نکل رہی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ ن بھی الف سے لیکر بڑی یے تک کسی اور حروف کے اضافے کے بعد ختم ہو جائیگی۔

اس وقت تک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اور اب تو شامل باجہ کے طور پر مولانا فضل الرحمان المعروف مولانا ڈیزل بھی اپنے ساتھ شامل کر کے زیادہ سے زیادہ شور ڈالنے کی کوشش میں سرفہرست ہیں اور انہیں اس سازشی ٹولے کا سربراہ بھی بنا چکے ہیں۔ان کی بھی یہی کوشش ہے کہ کسی نا کسی طرح پاکستان عدلیہ ، نیب کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ریاستی ادارے کو اس قدر بدنام کیا جائے کہ عوام ان اداروں سے بدزن ہو جائیں لیکن '' اوہ دن ڈبا ، جدون گھوڑھی چڑھیا کبا'' ۔

پاکستانی باشعور عوام اس سیاسی گندی چال کو سمجھ چکے ہیں اور اب وہ ان کی گندی سیاسی چالوں میں نہیں آئیں گے۔اور اس مریض اعظم کی انڈیا کے ایجنڈے پر چلنے کی کسی بھی کارروائی میں پاکستانی محب وطن عوام ان کا ساتھ نہیں دے گی بلکہ اگرکبھی نواز شریف خود پاکستان واپس لوٹے ) جو شائد اب ممکن دکھائی نہیں دے رہا( تو ان کو منہ توڑ جواب دے گی، ورنہ پاکستانی حکومت نے اپنے تئیں برطانوی حکومت اور انٹرپول کے ذریعے نواز شریف کو پاکستان واپس لانے کیلئے ضروری اقدامات کا آغاز کر دیا ہے۔

جو غدار اعظم الطاف حسین کی طرح لندن میں چھپ کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہیں ۔بہت جلد ان کا الطاف حسین سے بھی زیادہ برا حشر ہونیوالا ہے۔
 اب زرا اس سازشی ٹولے کے نئے قائم ہونیوالے اتحادپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی پھرتیوں پر کچھ بات کر لیں کیونکہ یہ بھی ایک لمبے عرصے بعد ہوا ہے کہ یہ دو ڈھائی سال قبل قائم ہونیوالی حکومت بغیر ڈیزل کے ہی چل رہی ہے، اور بہت بہتر طور پررواں دواں ہے۔

اس وقت تک ہر گزرنے والا دن مولانا فضل الرحمان کا معاملہ بد سے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے۔اس 10جماعتی سازشی ٹولے کا قائم کردہ پی ڈی ایم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے ٹولے کی جانب سے ہر فائر مولانا کے کندھے پر رکھ کر چلایا جائے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمان کے پاس مذہبی کارڈ استعمال کرنے کی بھرپور طاقت ان کے مدرسے اور ان میں پڑھنے والے طالب علموں کی بڑی تعداد کی صورت میں موجود ہے۔

جو بغیر کسی سوچے سمجھے ہر وقت ان کے ساتھ جلسوں اور جلوسوں میں ایک لشکر کی صورت سڑکوں پر لاسکتے ہیں، انہیں متحرک کرتے ہوئے جلسے اور جلسوں میں استعمال کرا سکتے ہیں۔ اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے بارے کچھ شکوک و شبہات موجود ہیں کہ یہ پارٹیاں اب عوام کو جلسے جلوسوں میں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اور پاکستانی باشعور عوام اب ان کے پیچھے گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے۔

مولانا فضل الرحمان کو اس سازشی گٹھ جوڑ کا سربراہ تو بنا دیا گیا لیکن پیپلزپارٹی کی رہبر کمیٹی نے اس پر اپنی ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے دبے لفظوں میں انہیں پی ڈی ایم کا سربراہ بنانے کی کھل کر حمایت نہیں کی۔اور جب پوری پی ڈی ایم کی جانب سے یہ مطالبہ پیش کیا کہ تمام ارکان اسمبلی پہلے مرحلے میں اپنے اپنے استعفے پیش کریں گے اور ان کے استعفوں کے بعد موجود حکومت کے قائم رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جائیگا تو موجودہ حکومت کو گھر جانا ہی پڑے گا اور نئے الیکشن کروانا پاکستان الیکشن کمیشن کی مجبوری ہو گی۔

اور شائد اس گوں مگوں کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاک آرمی اپنا کردار ادا کریگی، لیکن حالات کسی اور ہی جانب جاتے دکھائے دیتے ہیں، کیونکہ حالیہ ٹی وی انٹرویو میں عمران خان نے بڑے واضح الفاظ میں اپوزیشن اور اس سازشی ٹولے کو تنبیہ کر دی ہے کہ احتجاج کرنا اپوزیشن جماعتوں کا حق ہے ، ضرور کریں لیکن اگر اس سازشی ٹولے نے قانون کو توڑا تو انہیں اس کا خمیازہ خود بھگتنا پڑے گا۔

ماضی میں مولانا نے ہر چڑھتے سورج کو سلام کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی اور اپنے خاندان کیلئے بہت سارے فائدے حاصل کئے۔ ماضی میں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں1200کنال کی بہت قیمتی زمین صرف 200 روپے فی کنال کے حساب سے حاصل کی۔ نیب میں بھی مولانا کا کھاتہ کھل چکا ہے اور نیب ڈی آئی خان میں ایک بہت بڑا رقبہ کے متعلق انکوائری کر رہی ہے۔

پاکستان کے مختلف شہروں میں گھر اور آمدن سے زیادہ اثاثوں کے کیسوں پر نیب کی تحقیقات شروع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی بینکوں میں کثیر رقم اور بیرون ملک جائیدادوں کے متعلق بھی انکوائریاں شروع ہو چکی ہیں۔کیونکہ ہر محب وطن شہری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ان کے پاس اتنے اثاثہ جات آئے تو آئے کہاں سے، مولانا صاحب کا ذرائع آمدن آخر ہے کیا؟کہ انہوں نے اتنا مال و زر آخر بنایا کہاں سے، کیونکہ ملک بھر کے بڑے سے بڑے کاروباری شخص نے اتنا مال و دولت اتنے کم عرصے میں نہیں بنایا جتنا مولانا فضل الرحمان تن تنہا مالک بن بیٹھے ہیں۔

ان سے نیب کی جانب سے جب ان کے جواب مانگنے کیلئے بلایا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں جب بھی نیب میں سوالوں کے جواب دینے کیلئے جاؤں گا تو میرے ساتھ میرے تین لاکھ کارکن بھی جائیں گے، اب اگر ایک شخص کے ساتھ نیب کی عدالت میں ایک شخص اپنے ساتھ تین لاکھ آدمی لائے گا تو وہاں پیشی کیا خاک ہو گی، ہاں جھگڑا ، ہنگامے اور توڑ پھوڑ ضرور ہوگی۔ مولانا کو نیب میں پیشی کیلئے بلانے کے معاملہ پر ان کا غصہ اس حد تک بڑھ گیا کہ انہوں نے چند روز پاکستان آرمی کو بھی کھلی دھمکی دے ڈالی کہ '' پاکستان آرمی سن لے ہم پاک آرمی ساتھ وہ کریں گے جو طالبان نے افغانستان میں امریکہ کے ساتھ کیا تھا'' ۔

ایسے بیان دیتے ہوئے اس منافق مولانا کو شرم بھی نہیں آتی۔ اپنے ملک کے جانثار فوجیوں کے خلاف وہ ایسے بیانات دے کر آخر کس کو خوش کر رہے ہیں۔ پاک آرمی کا مقابلہ وہ کافر امریکن فوجیوں سے کر رہے ہیں۔جو سات سمندر پار سے افغانستان پر قبضہ کرنے کی غرض لیکر آئے اور اس تمام خطہ کو غیرمحفوظ کر دیا۔ پاک آرمی میں سارے افسر و جوان پاکستانی ماؤں کے سپوت ہیں، امریکہ افغان جنگ میں ان ہی فوجیوں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کئے، اور کئی مرتبہ تو ٹی ٹی پی نے خود انہی ہی مولانا پر قاتلانہ حملے کئے جس میں وہ کئی ایک مرتبہ بال بال بچ نکلے اور بعد میں اسی فوج نے ان پر کئے جانیوالے حملوں کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی۔

اور یہ حلوہ خور مولانا اسی پاکستان آرمی پر دشنام طرازی کرتا ہے۔ اب بہت ہو گیا، اس ناقابل معافی بیان کے بعد پاکستان کے ریاستی اداروں میں تشویش کی لہر دوڑجانا قدرتی امر ہے، ملک بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اب ایسے ہی مولانا کو معاف نہیں کریں گی،ایسے منہ زور گھوڑے کو لگام ڈالنا لازمی ہو گیا ہے، اب تو ان کا سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ کرنا تو بنتا ہی ہے بلکہ ایسے سوفٹ ویئر کو سرے سے ڈیلیٹ ہی کر دیا جائے تو کوئی بری بات نہیں ہوگی۔

کیونکہ یہ اپنے آپ کو اسلامی سکالر ، عالم اور ناجانے کیا کیا کہلوانے والاخودساختہ جعلی سیاسی لیڈر اسلامی ختم نبوت کانفرنس کے سٹیج پر چڑھ کرختم نبوت پر بات کرنے کی بجائے اپنی پاکستان آرمی کے متعلق ایسے الفاظ سے تقریر کر رہا ہے کہ خود اس مولانا کے حواری مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ آنے والا وقت دیکھے گا کہ اس مولانا کے ساتھ وہ ہو گا کہ'' داستاں بھی نا ملے گی ، داستانوں میں'' انشااللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :