پیپلز پارٹی کے لیے پی ٹی آئی کی دوربین نگاہیں

جمعرات 31 دسمبر 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

آصف علی زرداری نے لاڑکانہ میں بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کچھ ایسے اشارے دیئے ہیں جن کے تجزیئے سے نئی سوچیں جنم لیتی ہیں۔ ان کی پہلی توجہ طلب بات یہ تھی کہ ”پی ڈی ایم کے جتنے دوست بیٹھے ہوئے ہیں عوام یہ ہیں، عوام کے نمائندے یہ ہیں۔ مینگل صاحب بلوچستان کے نمائندے ہیں، اچکزئی صاحب بلوچستان کے نمائندے ہیں، اے این پی کے پی کے کی نمائندہ ہے۔

پیپلز پارٹی کا ساحلوں کے سمندروں کے آئی لینڈ سے لے کے جناح پوسٹ تک جو کہ آخری چوکی ہے کشمیر کی وہاں تک پیپلز پارٹی کا جھنڈا ہے“۔ اس بیان کو غور سے ڈی کوڈ کریں تو معلوم ہوگا کہ آصف علی زرداری نے بلوچستان، کے پی کے، سندھ اور آزاد کشمیر سمیت تمام صوبوں اور علاقوں کے نام لیے لیکن اگر نہیں لیا تو اِس حوالے سے پنجاب کا نام نہیں لیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے بلوچستان، کے پی کے، سندھ اور آزاد کشمیر کی بڑی سیاسی جماعتوں کے نام لیے اور اگر نہیں لیا تو ن لیگ کے قائدین اور ن لیگ پارٹی کا نام نہیں لیا جس کی پنجاب میں بہت اکثریت ہے۔

اس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اندرون سندھ میں پنجاب کو ماضی میں گالی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ استعمال کرنے والوں میں وہاں کی قوم پرست جماعتیں اور کسی حد تک خود پیپلز پارٹی بھی شامل تھی۔ اگر آج آصف علی زرداری پنجاب کی تعریف میں کچھ کلمات ادا کردیتے تو ممکن ہے انہیں مستقبل میں سندھ کارڈ کے استعمال میں مشکلات پیش آتیں۔ مزید یہ کہ ن لیگ کا نام نہ لینے کی ممکنہ وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ن لیگ پیپلز پارٹی کے مدمقابل جماعت ہے۔

ہوسکتا ہے آصف علی زرداری کو خیال گزرا ہو کہ اگر انہوں نے ن لیگ اور ان کے قائدین کا شکریہ ادا کیا تو اندرون سندھ کے عوام پیپلز پارٹی کے سابقہ سخت رویئے میں موجودہ نرمی دیکھ کر کہیں ن لیگ کی طرف متوجہ ہونا شروع نہ کردیں۔ اس کے برعکس مریم نواز نے کھلے دل کے ساتھ اور اعلانیہ طور پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو سراہا اور پیپلز پارٹی کی جدوجہد کی تعریف کی۔

یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کے مزاروں پر جاکر پھول بھی رکھے۔ مریم نواز نے سیاسی فراخدلی کی نئی مثال قائم کرتے ہوئے ن لیگ کے قائد اور اپنے والد نواز شریف کی قربانیوں کو ا جاگر کرنے کی بجائے صرف پیپلز پارٹی کی قربانیوں کو اس موقع پر خاص طور پر دہرایا۔ مریم نواز نے کہا کہ اگر پھانسی ہوتی ہے تو سیاست دانوں کو، اگر سینوں میں گولیاں اترتی ہیں تو سیاست دانوں کے۔

یہ دونوں مثالیں پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے لیے تھیں۔ دیکھا جائے تو مریم نواز یہاں تیسرے جملے میں کہہ سکتی تھیں کہ اگر دیس نکالا ملتا ہے تو سیاست دانوں کو جس سے مراد ن لیگ کے قائد اور ان کے والد نوازشریف ہوتے لیکن مریم نواز نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ن لیگ کے قائد اور اپنے والد نواز شریف کا اس طرح ذکر نہیں کیا۔

دوسری توجہ طلب بات یہ ہے کہ آگے چل کر آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں کسی رہنما کانام لیے بغیر وارننگ کے انداز میں کہا کہ ”آج بھی میری کوشش ہے کہ پورے پاکستان کی سیاسی پارٹیاں ایک پیج پہ ہو جائیں ایک سوچ پہ آجائیں مگر ایک دوسرے کو ہم مت بتائیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ کچھ ہم سے بھی سیکھ لو، کچھ ہماری بھی سن لو۔ ہوسکتا ہے میں نے یہ کام پہلے کیے ہوں۔

میں نے ایک جنرل کو پریزیڈنٹ ہوتے ہوئے مکھی کی طرح دودھ سے نکال دیا، عمران خان کیا چیز ہے۔ نیازی کو ہم نکال سکتے ہیں مگر ہمیں سوچ بدلنی ہوگی، ہمیں اپنا طریقہ بدلنا ہوگا، ہم نے جیلیں بھرنی ہوں گی“۔ آصف علی زرداری کے اس بیان کو غور سے ڈی کوڈ کریں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے اپنا یہ سیاسی زعم ن لیگ کو جتلایا ہے کہ وہ سیاست میں استاد اعظم ہیں۔

انہوں نے جنرل کو نکالنے کی جو مثال دی ہے اس کے ذریعے وہ ن لیگ کو بیک گراؤنڈ میں ممکنہ طور پر چل سکنے والی ڈیل کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے کا اشارہ دے رہے تھے اور یہ بات آصف علی زرداری ہی بتا سکتے ہیں کہ نکالنے سے مراد کیا واقعی عمران نیازی ہی تھے؟ انہوں نے پی ڈی ایم کا طریقہ بدلنے کی جو تلقین کی ہے اس سے مراد کیا یہ نہیں لیا جاسکتا کہ آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم کو چلانے کے لیے ن لیگ کا طریقہ مسترد کردیا ہے؟ آصف علی زرداری کے ن لیگ کو ڈاؤن کرنے کے مذکورہ رویے کی جھلک پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا میں بھی فوری طور پر نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔

مثال کے طور پر لاڑکانہ کے موجودہ جلسے کے فوراً بعد ہی پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا پر یہ گفتگو شروع ہوگئی کہ پیپلز پارٹی کے زیرانتظام پی ڈی ایم کے کراچی، ملتان اور لاڑکانہ کے جلسے بہت بڑے اور پرجوش تھے جبکہ ن لیگ کے زیرانتظام پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ اور لاہور کے جلسے زیادہ بڑے اور زیادہ پرجوش نہیں تھے۔ جب سے پی ڈی ایم قائم ہوئی ہے یہ پہلی بار ہے کہ پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا پر ن لیگ کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اوپر کے دلائل کا تجزیہ کریں تو کچھ سوالات ذہن میں آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ آصف علی زرداری کا ن لیگ اور پنجاب کے حوالے سے مندرجہ بالا رویہ محض سندھ کارڈ کو بچانے کی چال تھی یا آصف علی زرداری کی دوربین نگاہیں مستقبل قریب میں عام انتخابات کو دیکھ چکی ہیں جس کے باعث وہ الیکشن موڈ میں جانے کی اطلاع دے رہے ہیں کیونکہ پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں ہے بلکہ صرف موجودہ پی ٹی آئی حکومت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا پلیٹ فارم ہے۔

لہٰذا جب بھی عام انتخابات ہوں گے پی ڈی ایم کی جماعتیں اپنے منشور اور اپنی سوچ کے مطابق انتخابات میں حصہ لیں گی۔ یعنی پی ڈی ایم کی اِس وقت شیروشکر جماعتیں عام انتخابات میں ایک دوسرے کی مخالف ہوں گی اور اُس ماحول میں ایسی ہی آوازیں آئیں گی جن کی گونج لاڑکانہ کے جلسے میں آصف علی زرداری کی تقریر میں سنائی دی۔ دوسرا سوال یہ کہ پی ٹی آئی والوں کو یقین ہے کہ پیپلز پارٹی کسی ایشو پر اختلاف کرکے ن لیگ سے راہیں جدا کرلے گی۔ تو کیا پیپلز پارٹی کے لیے پی ٹی آئی کی دوربین نگاہیں درست ہیں؟ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ نئے سال میں پاکستان کے عوام انحطاط پذیر اولڈ سیاسی مائنڈسیٹ کو ہی جگہ دیتے ہیں یا جواں سال نئے سیاسی مائنڈسیٹ مریم نواز اور بلاول بھٹو کو پسند کرتے ہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :