کامیاب پی ایس ایل فور، دنیا پہ کیا ثابت کیا

جمعرات 21 مارچ 2019

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

جو قومیں مشکلات کا دیوانہ وار مقابلہ کرتی ہیں انہیں دنیا کی کوئی طاقت نہ تو زیر کر سکتی ہے نہ ہی انہیں تگڑے سے تگڑا ہتھیار بھی جھکا سکتا ہے۔ وہ ڈٹ جایا کرتی ہیں۔ پاکستان بھی ایک ایسا ہی ملک ہے کہ جہاں بسنے والے لوگ بھی عجیب ہیں یہ بیرونی دنیا کو تو لگتا ہے کہ آپس میں ہی گتھم گتھا ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے لیکن جیسے ہی بیرونی عناصر ان کی آپس کی لڑائیوں کو ان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں اور ان کو ایسا جواب دیتے ہیں کہ دشمن بھی حیران رہ جاتا ہے کہ آخر اس عجیب قوم کا کریں تو کیا کریں۔

کہ جو آپس میں ویسے تو مل کے بیٹھتی نہیں لیکن جب فائدہ اٹھانا چاہیں ان کے نفاق کا یہ فائدہ بھی نہیں اٹھانے دیتی اور باہمی اختلاف پرے رکھ دیتی ہے۔

(جاری ہے)

اور یہ حقیقت بھی ہے۔ پاکستانیوں میں پاکستانیت اس قدر رچ بس گئی ہے کہ وہ اس ملک کی بنیادوں کی حفاظت کے لیے ہر وار نہ صرف سہہ جاتے ہیں بلکہ وار سہنے کے بعد ایسے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ وار کرنے والا بھی دنگ رہ جاتا ہے۔

اور اسے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس نے وار کر کے اپنی توانائیاں ہی صرف کی ہیں اور حاصل کچھ نہیں ہوا۔ وقتی طور پر جہاں کسی وار سے نقصان کھا بھی لیں تو یہ قوم اس نقصان کا بوجھ اپنے زور بازو پہ اتارتی ہے۔ اور پاکستان کی موجودہ صورت حال بھی اسی بحث پہ صادق آتی ہے۔
سری لنکن ٹیم پہ حملے کے بعد سے کوئی قابل ذکر کھیلوں کی سرگرمی یہاں نہیں ہو سکی(کچھ انڈور کھیلوں میں پیشرفت ہوئی، اور کچھ قدرے کمزور کرکٹ ٹیموں نے بھی پاکستان کا رخ کیا لیکن اسے ہم ملک میں کرکٹ کی بحالی یا کھیلوں کے بحالی بہر حال نہیں کہہ سکتے تھے)۔

اور مخالفین نے ملک کی مجموعی صورت حال کو بنیاد بنا کر ہمیں کھیلوں کے میدان میں تنہا کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ لیکن حیرت انگیز پہلو یہ رہا کہ اتنے ہمارے کھلاڑی عالمی درجہ بندی میں اولین درجوں پہ زمانہ امن میں نہیں جتنے ان مشکل حالات میں رہے۔ کئی ہمارے بڑے نام تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنے کیرئیر کے ابتدائی چند سال ملک میں کوئی میچ ہی نہیں کھیلا۔

لیکن ان کا طوطی بہر حال بولنے لگا۔دنیا اس مشکل صورتحال سے پاکستان کی امید کم ہی رکھتی تھی۔ پہلے صرف فائنل پاکستان، پھر پلے آف پاکستان میں اور اس کے بعد آٹھ میچز کا پاکستان میں انعقاد اس بات کا غماز ہے کہ اگلے سال پوری لیگ ہی پاکستان میں ہو گی۔ اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق اگلے سال میران شاہ میں میچز کے بعد تو حیرت میں گم ہے دنیا کہ یہ کیسی قوم ہے جو جھکنا گوارا ہی نہیں کرتی۔


آپ اس سال کی پی ایس ایل پہ اگر غور کیجیے تو یہ صرف ایک ٹورنامنٹ نہیں رہا بلکہ یہ عزم، حوصلے اور ہمت کی داستان بن گیا۔ آٹھ میچز کے پاکستان میں انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ اور اس حوالے سے لاہور اور کراچی پہ نگاہ انتخاب ٹھہری۔ اور ابتدائی طور پہ امید بھی یہی تھی کہ ان دونوں شہروں میں خوش اسلوبی سے میچز کا انعقاد ممکن ہو پائے گا۔ اس کے بعد حالات کارخ پلٹنا شروع ہوا کہ یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ آٹھ تو کجا ایک بھی میچ شاید پاکستان میں ہونا ممکن نہ ہو سکے ۔

وجہ بھارت کی شر انگیزی کے بعد کے حالات ٹھہرے۔ اور سونے پہ سہاگہ دیکھیے کہ آفیشل براڈکاسٹر نے بھی پینترا بدل لیا کہ ان کا تعلق بھی ہمسایہ ملک سے ہی تھا( جس پہ بہرحال بحث ہونا لازم ہے کہ ایسے براڈ کاسٹر کو منتخب کرتے وقت تمام احتیاط ملحوظ خاطر کیوں نہ رکھی گئی)۔ پچھلے پی ایس ایل ایڈیشن میں کچھ غیر ملکی پلیئرز کے پاکستان آنے سے انکار کے بعد پاکستان میں ہونے والے میچز پہ غیر یقینی کے بادل چھا گئے۔

لیکن دنیا نے دیکھا کہ آٹھوں میچز نہ صرف پاکستان میں منعقد ہوئے بلکہ جیم پیک اسٹیڈیم بھی رہے۔ دنیا کے لیے حیران کن مرحلہ وہ آیا کہ جب تمام غیر ملکی کھلاڑیوں نے بھی پاکستان آنے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ وہ آئے ۔ اے بی ڈی ویلیئرزکے حوالے سے بھی جو خدشات تھے انہوں نے خود دور کر دیے کہ ان کے نہ آنے کی وجہ فٹنس مسائل تھے۔
ملکی سرحدوں پہ حالات تلخی کی جانب مائل ہوں۔

اور ان حالات میں دنیا کو اس سے بڑھ کے جواب کیا دیا جا سکتا تھا کہ فوجی و سول قیادت ملک میں کامیاب ایونٹ کی خوشی منا رہے ہیں۔ ہم سرحدوں سے غافل نہیں رہے لیکن ہم نے دنیا کو یہ بھی بتا دیا کہ ہم امن پسند قوم ہیں۔ اور دنیا کے پچاس سے زائد اہم کھلاڑیوں کا پاکستان میں موجود ہونا اس بات کی گواہی تھی کہ دنیا میں اب پاکستان کا چہرہ مثبت ابھر چکا ہے۔

اور وہ دن دور نہیں جب اقوام عالم میں ایک پروقار کردار ہمارا منتظر ہو گا(یمن تنازعہ، ترکی کی صورت حال، سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کی کشمکشں میں ہمارا کردار، اقوام متحدہ کے امن مشنر میں ہماری شمولیت پہلے ہی یہ ثابت کرنے کو کافی ہیں کہ عالمی سطح پہ پاکستان ایک اہم ملک بن کے ابھرا ہے)۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا کہ اگلے سال پی ایس ایل کے میچز خیبر پختونخواہ، میران شاہ اور مظفر آباد میں ہوں گے ظاہر کر رہا ہے کہ ہم بحرانوں سے آگے بڑھنے والی قوم ہیں۔


پی ایس ایل فور کے میچز کے کامیاب انعقاد سے پاکستان نے نہ صرف دشمن کی محاذ آرائی کا مثبت انداز سے جواب دے دیا ہے بلکہ ہم نے دنیا پہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ پاکستانی امن سے محبت کرنے والی قوم ہیں۔ اور ہم امن کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ عبور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ محاذ آرائی، ریشہ دوانیوں، مہم جوئی، سے پاکستان اورپاکستانیوں کو نہ تو زیر کیا جا سکتا ہے نہ ہی زیر کیا جا سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :