
ہم واقعی دلچسپ قوم ہیں
پیر 20 اپریل 2020

سید شاہد عباس
(جاری ہے)
پوری دنیا چیختی رہی، اور چیخ رہی ہے کہ کرونا ایک وبا بن چکا ہے۔ یہ لاکھوں زندگیاں نگل لے گا۔ یہ ہزاروں کو نگل چکا ہے۔ اور ڈیتھ کاونٹر رک نہیں رہا۔ لیکن مجال ہے جو ہمارے کان پہ جوں تک رینگی ہو۔ یہ صرف ایک حکومت تک سلسلہ رکتا نہیں۔ بلکہ آپ عوامی رجحانات کا جائزہ لیجیے تو وہاں بھی ایسی ہی صورتحال نظر آئے گی۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا کے تمام مذاہب اور تمام فرقے اس بات پہ متفق ہو چکے ہیں کہ اس وبا سے نمٹنا مشکل مرحلہ ہے تو ایک چہلم کی دعا میں ایک صاحب غصے میں مائیک پہ کہتے نظر آئے کہ دنیا پاگل ہو چکی ہے۔ اور وہ ممالک کو لعن طعن کرتے رہے کہ انہوں نے سب کچھ بند کر دیا۔سوچا ان صاحب سے کہوں کہ حضور آپ جتنے جوشیلے ہیں تو ذرا یہ جوش اس وارڈ کا چکر لگا کے دکھا دیجیے جہاں کرونا کا شکار کوئی مریض داخل ہے۔ یقینی تھا کہ وہ بات سنتے ہوئے آگ بگولہ ہو جاتے۔ شادی کی تقریب کا حال ملاحظہ کیجیے۔ شادی ہال بند ہو گئے۔ لیکن تقریبات گھروں میں منتقل ہو گئیں۔ ایک صاحب نے بیٹے کا ولیمہ ہال کی بکنگ کینسل ہونے کے بعد ایک خالی پلاٹ میں منتقل کر دیا۔ اور محو حیرت ہو کر عرض کی کہ صاحب یہ تو آپ مسئلہ بنا دیں گے اللہ نہ کرئے ایک بھی یہاں وائرس کا شکار مریض موجود ہوا تو جواب میں ان کا جاندار قہقہ سننے کو ملا اور بس۔ یہ بطور مجموعی ہمارے قومی رویے ہیں۔ بس سٹاپ کا منظر دیکھیے لاریاں ہارن پہ ہارن دیے جا رہی ہیں۔ سڑکوں پہ اب بھی ٹریفک اسی طرح جام ہے۔ کوئی شک نہیں توکل ایک بہتر عمل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پیدا کرنے والے نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ اس لیے دیا کہ عقل سے کام بھی لیجیے۔ لیکن ہم ایسا کرنا گوارا نہیں کریں گے۔
دفاتر سامنے نہیں تو چوری چھپے کچھ نہ کچھ چلائے جا رہے ہیں کہ بھئی تنخواہ نہیں دیتے کیا ہم۔ یعنی ہمیں پرواہ نہیں دنیا میں تو لوگ سازش کے تحت مر رہے ہیں۔ بلدیاتی نظام میں سابقہ ادوار میں اہم مقام رکھنے والے ایک صاحب بولے کہ مجھے تو اب بھی مکمل یقین ہے کہ یہ سازش ہے مسلمانوں کے خلاف۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ جناب اس وائرس نے نہ مسلمانوں کا قبلہ چھوڑا، نہ ہی عیسائیوں کا ویٹی کن سٹی، نہ ہی یہودیوں کی دیوار گریہ بچ پائی ہے، نہ ہی ہندووں کے مندر، نہ سکھوں کے گرداورے کا کرونا وائرس نے کوئی لحاظ کیا ہے، نا بدھ مت کی عبادت گاہوں کا۔ اس وائرس نے تو مذہب و فرقے کی تفریق سے بالاتر ہو کر اپنا کام کیا ہے۔ اور ہم ہیں کہ ابھی تک عقل سے کام لینے کے بجائے اس میں سے سازشیں تلاش کر رہے ہیں۔
عوامی مجموعی رویے تو بطور قوم ہمارے طرز عمل کی عکاسی کرتے ہی ہیں لیکن ارباب اختیار جنہیں عام بول چال میں حکمران کہا جاتا ہے ان کا رویہ بھی کچھ خاص الگ نہیں ہے۔ یہ چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ اور ہونا تو یہ چائیے کہ یہ لوگ عوامی رویوں کے برعکس ذمہ داری کا مظاہرہ کریں لیکن ان کے ہاں بھی ذمہ داری مفقود ہے۔ یہ اس وقت خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہیں جب سر پہ پڑھ جائے۔ اور ایسا ہونا ہمارے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔سب چیختے رہے کہ کچھ عقل سے کام لیجیے، حالات بگڑ رہے ہیں۔ ہم نے بس سوچے رکھا، ”سانوں کیہ“۔ اور پھر آپ دیکھ لیجیے کہ تفتان اگر ووہان بنا ہے تو کراچی، سکھر، حیدر آباد، ملتان، ڈیرہ غازی خان، اسلام آباد، راولپنڈی و دیگر شہروں میں حالات کس نہج پہ جا رہے ہیں۔ ہمیں اٹلی کی سڑکوں پہ لاشیں ڈھوتے فوجی ٹرک بس تصویروں کی حد تک نظر آ رہے ہیں۔ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے ہاں انسانی المیے کو جنم دینے کی اپنی کوششوں کو یکسر نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔چین میں پاکستانی طلباء اگر موجود رہے تو یاد رکھیے چین نے ان کی ذمہ داری لی اور چین ذمہ داری لے سکتا تھا کہ چین دنیا کی اقتصادی طاقت ہے۔ لیکن اگر ایران پاکستانی زائرین کو نہیں رکھ سکا تو اس پہ تنقید کے بجائے یاد رکھیے ایران کے پاس ہے ہی کیا؟ نہ طبی سہولیات، نہ کھانے پینے کا نظام اعلیٰ، نہ انفراسٹرکچر، نہ ہنگامی معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت، وہ کرتا بھی کیا؟ درخواست کی کہ زائرین کو پاکستان واپس لیجیے اور ہمیں انہیں ہر حال میں واپس لینا تھا کہ ایران کے حالات ہم سے بھی گئے گزرے ہیں۔ وہاں گرتی لاشیں گواہی دے رہی ہیں۔
ہم نے پہلے تو تفتان میں واپس آنے والوں کو قید کی سی صورتحال میں رکھا اور ان سے توقع بھی رکھی کہ وہ رضاکارانہ طور پر ہمارا ساتھ دیں۔رہی سہی کسر ہم نے تبلیغی جماعت والوں کو غلط طریقے سے ہینڈل کر کے پوری کر دی۔ زائرین و تبلیغی جماعت کے اراکین کے علاوہ عام پاکستانی جو حکومت وقت پہ اعتماد نہیں رکھتے وہ جو ملک کے مختلف حصوں میں آگئے وہ نا جانے کیا رخ اختیار کرے گا معاملہ۔ چین میں حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھنے والے چیختے رہے کہ بلوچستان پہ توجہ دیجیے لیکن آپ کی نیند میں شاید خلل پڑتا تھا اس لیے توجہ دینا آپ نے مناسب نہ سمجھا۔اور دوسری بات کتنے عرصے سے تفتان کے راستے آمدورفت جاری ہے؟ کیا یہ آج کی بات ہے؟ آپ کو یہ یاد رہا کہ تفتان کوئٹہ سے سات سو میل دور جنگل بیاباں ہے لیکن یہ آمد و رفت تو سالہا سال سے جاری ہے تو آپ نے کیا اس بارڈر پہ آج تک مناسب اقدامات کیے؟ جب ہم نے تفتان بارڈر پہ معاملات کو برے طریقے سے ہینڈل کیا تو لوگ بددل ہو گئے۔ اور کسی نہ کسی طرح ملک میں داخل ہو کے سلپ ہونا شروع ہو گئے۔ ان کا اداروں پہ اعتماد نہیں رہا۔ ان کا حکمرانوں پہ اعتماد نہیں رہا۔
سندھ حکومت کا بھلا ہو کہ کسی نہ کسی حد تک ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ لیکن مرکز ائیرپورٹس تک کو نا سنبھال سکا اور ایک خبر نظر سے گزری کے ایک صاحب مثبت رپورٹ ہونے کے باوجود چھ ہزار روپے دے کے نکل گئے، نتیجتاً گھر جا کے صاحبزادے میں بھی کرونا پھیلانے کا باعث بن گئے۔ ہم روتے عوام کو ہیں لیکن حال برا حکمرانوں کا بھی ہے۔ کانفرنس ہوتی ہے، وزیر اعظم بیس منٹ رٹی رٹائی باتیں دوہراتے ہیں اور توقع یہ کرتے ہیں کہ اپوزیشن کے راہنما بس ان کی باتیں سنیں اور باقی سوال جواب آپ کے نائبین سے کریں۔گلہ کس سے کریں اور کیا گلہ کریں کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ سونے پہ سہاگہ، عوام کے سامنے آئے اور ایٹمی قوت ملک کا وزیر اعظم کہنا شروع ہو گیا کہ ہم بھوکے مر جائیں گے۔ ارے صاحب آپ نے عوام کو حوصلہ دینا ہے ان کا مورال ڈاون نہیں کرنا۔ فرض کیجیے آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اور آپ کے پاس کوئی سہولت موجود نہیں۔ آپ تہی داماں ہیں لیکن عوام کے سامنے بہرحال آپ کو ہمت کی داستاں رقم کرنی ہے کہ عوام کا کیا حال ہو گا جب ان کا حاکم کہتا نظر آئے کہ، مجھ پہ آسرا نہ رکھنا۔خدارا عقل سے کام لیجیے۔ آپ کو اللہ نے عقل عنایت ہی اس لیے کی ہے کہ اس کا استعمال کیا جائے۔ کیا ہمارے پاس 14 دن کے وسائل بھی موجود نہیں ہیں؟ آپ سے اچھے تو گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ ٹھہرے کہ آپ کے قلت کے بیان کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ایک ماہ کا پٹرول موجود ہے۔اور ہم ہیں کہ دو ماہ گزرنے کے باوجود ابھی فیصلہ نہیں کر پائے کہ لاک ڈاؤن مکمل کرنا ہے یا جزوی، کون سا کاروبار کھولنا ہے اور کون سا بند کرنا ہے۔ اپنی کمزوری خود ظاہر کر رہے ہیں تو کل سرحد پہ دشمن کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ اسلحے کے انبار تو نہیں لڑتے۔ لڑتے تو حوصلے ہیں۔ اور آپ اچھا حوصلہ بڑھا رہے ہیں کہ خود ہی جھک گئے ہیں۔
جرمنی، امریکہ، برطانیہ، ایران، چین، اٹلی، فرانس اور لاتعداد ایسے ممالک ہیں جہاں کرونا وائرس پہنچ چکا لیکن وہاں کے حکمرانوں نے عوام کو حوصلہ دیا۔لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں لیکن حکمران وہاں کر اس وبا سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ کر رہے ہیں۔ ایک ہمارے حکمران ہیں جو عوام کے سامنے صرف یہ کہنے آتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں، لاک ڈاون ہوا تو ہم بھوکے مر جائیں گے۔ ارئے ظالمو! لاک ڈاون ہو تو بھی اپنے اللے تللے کچھ کم کر کے عوام کو ان کے گھر تک سہولیات دو۔ جواب عوام کو نا دیجیے لیکن خدا تو سوال کرئے گا کہ اقتدار بخشا میں نے تو کیا اس کا استعمال درست کیا؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید شاہد عباس کے کالمز
-
کیا یہ دُکھ بانٹنا ہے؟
جمعرات 17 فروری 2022
-
یہ کیسی سیاست ہے؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
نیا افغانستان اور پاکستان
جمعہ 1 اکتوبر 2021
-
توقعات، اُمیدیں اور کامیاب زندگی
ہفتہ 10 جولائی 2021
-
زندگی بہترین اُستاد کیوں ہے؟
منگل 22 جون 2021
-
کیا بحریہ ٹاؤن کو بند کر دیا جائے؟
منگل 8 جون 2021
-
کورونا تیسری لہر، پاکستان ناکام کیوں؟
بدھ 26 مئی 2021
سید شاہد عباس کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.