توانائی کا بحران اور ہمارے طرزِزندگی میں تبدیلی

ہفتہ 20 جون 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

پاکستان اکنامک سروئے 2019-2020کے مطابق پاکستان کی ٹوٹل پاور جنریشن کی صلاحیت تقریباً37MWہے،جس میں 68.4فیصد تھرمل،23.8فیصد ہاہیڈروپاور ،جبکہ باقی نیوکلئیر اور رینوایبل انرجی سے حاصل کیا جاتا ہے۔جبکہ پاکستان کی گھریلواور انڈسٹریل ڈیمانڈ تقریباً25MWہے لیکن ہماری بجلی کی ڈسٹریبوشن کی صلاحیت صرف 22MWہے ،یعنی ہم زیادہ بجلی تو بنا سکتے ہیں لیکن اِس زیادہ پیدا کیجانے والی بجلی کو گھریلو صارفین یا انڈسٹری تک موثر طریقے سے پہنچا نہیں پاتے کیونکہ ہمارا ڈسٹریبوشن سسٹم بہت پُرانا اور اِس قابل نہیں ہے کہ وہ اِس کپیسٹی سے زیادہ بجلی کی ترسیل کا بوجھ اُٹھا سکے۔

جبکہ آج سے تقریباً 5-10سال پہلے کی صورتحال تواِس سے بھی خوفناک تھی،جس میں روزانہ 6-8گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہورہی تھی اور لوگوں کے کاروباراورمعمولات ِزندگی بُری طرح تباہ ہورہے تھے۔

(جاری ہے)

چلیں یہ چیز تو کسی حد تک کنٹرول ہو گئی لیکن ہمیں اپنا ڈسٹربیوشن سسٹم بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی عوام کو بجلی کے موثئر استعمال (Efficient use)کی بھی ترغیب دینا ہوگی۔

ایسا کسی صورت نہیں ہو سکتا کہ حکومت صرف اپنی توجہ بجلی پیدا کرنے یا اِسکی ترسیل کے طریقہ کار پر صرف کرنے اور عوام اس محنت سے پید ا کی گئی بجلی کو بڑی ہی بے دردی سے صرف کرتے ہیں ،اِس سلسلے میں قارئین کے سامنے چند گزارشات رکھنا چاہتا ہوں۔
میری پہلی گزارش یہ ہے کہ چلیں کرونا وبا کیوجہ سے ہی سہی ،ہمارے کاروباری معمولات میں ایک بہتر چیز کا اضافہ شام 7بجے کے بعد کاروبارِزندگی کی بندش ہے۔

دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ رات 11-10بجے تک جوتوں، کپڑوں اور کراکری کی دکانیں کُھلی رہیں۔لوگ دوپہر تین بجے اُٹھنے کے بعد رات 8بجے شاپنگ کے لیے جارہے ہوں۔دنیا جہاں میں اشیائے ضروریہ کی دکانیں مثلاًجو تے ، کپڑے، گروسری یا موبائل فونز وغیرہ کی دکانیں صبح 9بجے سے رات 6بجے تک کُھلی رہتی ہیں۔لوگوں کو شاپنگ کرنی ہوتی ہے تو وہ صرف انہی اوقات میں کرتے ہیں لیکن ہاں! ریستوران اور کھانے پینے کی دکانیں آدھی رات اور میڈیکل و ایمرجنسی سروسز 24گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔

دن کے اوقات میں کاروباری سرگرمیوں کی اجازت سے سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جا سکتا ہے رات کے وقت شاپنگ کی اجازت سے روشنی اور بجلی کے اضافی اخراجات کا سبب بنتی ہے۔دن میں کاروبار کی موثئر حکمتِ عملی کے باعث کمرشل صارفین کی طرف سے بجلی کے استعمال میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔
بجلی کے موثر استعمال سے متعلق میری دوسری رائے یہ ہے کہ ہمیں گھروں کی طرزِ تعمیر کے متعلق بھی سوچنا چاہیے۔

حکومت کو ملک کے ماہر آرکیٹکٹ (Architect)اور سول انجئیر سے مشاورت کر کے گھروں کے 2.5, 3 اور5مرلوں کے گھروں کے نئے اور optimizedنقشے اور layoutبنوانے چاہیں جس میں روشنی و ہوا کا مناسب انتظام اور موسم کی شدت میں کمی کا بندوبست اور ساتھ ہی ساتھ اِن نئے گھروں کے ڈیزائن میں بجلی کا استعمال بھی کم سے کم ہو نا چاہیے۔گھروں کی تعمیر میں اِس چیز کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ گھر کا کتنا حصہ چھتا ہوا(covered) ہے اور کتنا حصہ کُھلا ہے؟گھروں کی دیواروں میں اچھی کوالٹی کے transparentشیشہ کا استعمال ایک خاص تناسب سے ہونا چاہیے تاکہ دن کی روشنی میں گھرقدرتی روشنی سے روشن رہیں اور گھروں یا کمروں کو روشن رکھنے کے لیے بجلی کا استعمال کم سے کم کرنا پڑے۔

میں چائنہ میں اپنی تعلیم کے دوران ایک فلیٹ میں تقریباً 10ماہ کے لیے رہا، میرا فلیٹ نویں فلور پر تھااور وہ فلیٹ اِس طرح بنا ہواتھا کہ مجھے دن میں فلیٹ کے لاؤنج، کمرے، کچن کے لیے کبھی بجلی کا بلب جلانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ دن میں فلیٹ کا ہر کونا سورج کی قدرتی روشنی کیوجہ سے روشن ہوتا تھا،میں فلیٹ میں لائٹس صرف مغرب کے بعد آن کیا کرتا تھا۔

میرے اُس بلاک میں تیس فلورز تھے جس میں ہر فلور پر چار فلیٹس تھے یعنی تقریباً 120فلیٹس اُس ایک بلاک میں تھے، جبکہ اُس جگہ پر اِس طرح کے 8بلاک تھے یعنی 120x8=960فلیٹس اُس 500میٹر کے رداس میں تھے جن میں فلیٹس کے لیے بجلی ،پانی، پارکنگ،لفٹس، جم خانہ اورچلڈرن پارکس سب موجود تھے۔وہ ایک بہت ہی شاندار رہائشی منصوبہ تھاجو بجلی، گیس جیسی یوٹیلٹز کے مناسب استعمال کو ذہن میں رکھ کر بنایا گیا تھا۔

اگر چائنہ یہ کام کرسکتا ہے تو ہماری حکومت یا ہماراواپڈا کا ادارہ ہمارے ملک کے آرکیٹکٹس اورسول انجئیر کے ساتھ مِل کر اِس طرح کے گھروں کے ڈیزائن کیوں نہیں بنواسکتا جو گرمیوں میں ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم رہ سکیں تاکہ صارفین پر بجلی اور heating-coolingکا بوجھ کم پڑ سکے۔جبکہ اِس سلسلے میں بچائی گئی بجلی انڈسٹریل سیکٹر کو فراہم کی جاسکتی ہے یا کسی دوسرے ملک کو بیچ کر زرِمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔


اِسی طرح حکومت ،واپڈا، وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کیساتھ مل کرسولر پینل اور سمارت ہومز کا conceptبھی متعارف کروا سکتی ہے جس میں گھریلو صارفین کی حوصلہ افزائی اور تاکید کی جائے کہ وہ گھروں کی چھتوں پرسولر پینل لگائیں اور اپنی ضرورت کی بجلی خود پیدا کرنے کو کوشش کریں۔ صارفین جس حد تک ممکن ہو سکے اپنی ضرورت کی بجلی سولر پینل یا ونڈ ٹربائین کے ذریعے خود پیدا کریں اور اگر یہ صارفین اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کر بیٹھیں تو وہ صارفین حکومت یا ڈسٹربیوشن کمپنیوں کو بجلی فروخت کر سکیں۔

حکومت سمارٹ ہومز کے سامان پر موجود ڈیوٹی کم کرے اور automatic switchesاورmotion sensorلائیٹنگ سسٹم انسٹال کرنے کی حوصلہ افزائی کرے۔Motion-sensorلائیٹس گھروں، کمروں اور گزرگاہوں پر صرف انسانوں کی موجودگی کی صورت میں روشن ہوں اور جب وہاں کوئی شخص موجود نہ ہو تو یہ لائیٹس خودبخود آف ہوجائیں۔
اِسکے ساتھ ساتھ واپڈا اور ڈسٹریبوشن کمپنیاں تھوڑی سی تحقیق کروا کر لوگوں کو چھتیں اور دیواریں ٹھنڈی رکھنے کے طریقے متعارف کروا سکتی ہیں۔

یہ ادارے لوگوں کو ترغیب دیں کہ گرمیوں میں آپ لوگ گھروں کی چھتوں پر پودے اور گملے لگائیں۔یہ لوگوں کو سکھائیں کہ کس طرح گھروں کی چھتوں پر گھاس ،پودے اور بیلیں اُگائی جاسکتی ہیں۔ لوگوں کو گھروں میں سبزیاں اور پھلداردرختوں کی کیاریاں لگانے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔اِس سلسلے میں مَیں نے پچھلے دِنوں یوٹیوب پر لاہور کے ایک صاحب کی وڈیو دیکھی ، جس میں اُن صاحب نے گھر کی چھت پر گھاس اُگارکھی تھی اور اِسکے ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے گھر میں تقریباً220گملے، کیاریاں اور بیلیں بھی لگا رکھی تھیں۔

اُن صاحب کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے گھرمیں اے سی نہیں لگا رکھالیکن پھر بھی اُنکے گھر میں کافی ٹھنڈک تھی ۔ یہ ایک طریقہ کارمڈل کلاس صارف کی ائیرکنڈیشن کی ضرورت کو بخوبی پورا کرسکتا ہے۔اِسکے ساتھ ساتھ اور مذیدطریقہ کاربھی دریافت کیے جا سکتے ہیں جن میں چھتوں اور دیواروں کی لیمینیشن شامل ہے۔
مندرجہ بالا اور مذید کئی اقدامات جو حکومت ،واپڈا، ڈسٹری بیوشن کمپنیاں، وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، یونیورسٹیز، ریسرچ انسیٹیوٹس اور سول سوسائٹی کے ساتھ مِل کر اُٹھائے جا سکتے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو بجلی کے موثئر استعمال کی ترغیب دے، لوگوں کو انرجی سیکٹر سے متعلق نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جاسکتی ہے اور لوگوں کو اپنے طرزِزندگی میں تبدیلی کے لیے بھی قائل کیا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :