اب وزیرِہوابازی کو جانا ہوگا

جمعرات 25 جون 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن کی فلائٹ (پی کے8303) لاہور سے کراچی جاتے ہوئے 22مئی کو خطرناک حادثے کا شکار ہوگئی۔ اِس حادثے میں مسافروں اور عملے سمیت 97قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔آج 24جون کو اِس حادثے کی عبوری رپورٹ پارلیمنٹ ہاؤس میں پیش کی گئی۔ اِس ابتدائی رپورٹ میں چند ذمہ داران کی نشاندہی کی گئی۔ اِس کے ساتھ ہی پچھلے تقریباً دس سالوں میں ہونیوالے حادثات (ائیر بلیوحادثہ، بھوجاائیر لائن حادثہ، پی آئی اے 2016چترال تا اسلام آبادجہاز حادثہ)کی تحقیقات بھی منظرِ عام پر لانے کا یقین دلایا گیا۔

پاکستان میں گزشتہ 10سالوں میں چاربڑے فضائی حادثات ہوئے ہیں جن میں 2010میں ائیر بلیو حادثہ، 2013میں بھوجا ائیر لائن حادثہ، 2016چترال تا اسلام آبادجہاز حادثہ اور اب مئی2020میں فلائٹ پی کے 8303کا حادثہ،یعنی اوسطاً اڑھائی 2-1/2سالوں میں ایک فضائی حادثہ، جو کہ کسی بھی طور پر پاکستان کی سول ایویشن، ائیر لائنز کے معیار اور مینٹینس کے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

(جاری ہے)

جبکہ قطر ائیر لائن دنیا کی بڑی اور بہترین ائیر لائن ہے جو 1994ء میں بنی اور اِس کا ابھی تک ایک بھی کو ئی بڑا فضائی حادثہ نہیں ہوا کیونکہ وہ بڑی سختی سے فضائی حفاظتی قوانین پر عمل کرتی ہے۔
 22مئی کے حادثے کی عبوری رپورٹ کے ذمہ داران میں پہلا ذمہ دار پائلٹ کو ٹھہرایا گیا جو کہ لینڈنگ کے دوران بلندی اور رفتارپر قابو نہ رکھ پایا اور مسلسل ائیر ٹریفک کنٹرولر کی ہدایات کو نظر انداز کرتا رہا۔

پائلٹ نے ائیر ٹریفک کنٹرولر اورائیرپورٹ حکام ( فائیر سیفٹی ، ریسکیو) کو بتائے بغیر اور اعتماد میں لیے بغیر ہی بیلی لینڈنگ کی ناکام کوشش کرتا رہا اور جب بیلی لینڈنگ میں ناکام رہا تو دوبارہ طیارہ فضاء میں بلند کردیا تاکہ دوبارہ لینڈنگ کی کوشش کر سکے۔ تاہم دوبارہ لینڈنگ کی کوشش کے دوران جہاز کے دونوں انجن رن وے پر رگڑ کھانے کی وجہ سے تباہ ہوچکے تھے اور جہاز کریش کر گیا۔


جبکہ دوسری طرف اِس رپورٹ کے ذمہ داران میں ائیر ٹریفک کنٹرولر ہے جس نے پائلٹ کی لینڈنگ اپروچ کو صحیح طریقے سے مانیٹر نہیں کیا اور لینڈنگ کے دوران جہاز کے انجن کی رن وے سے رگڑ اور انجن میں آگ سے متعلق پائلٹ کو بروقت اطلاع نہیں دی۔دراصل ائیر ٹریفک کنٹرولر اِس جہاز کی لینڈنگ کو ایک روٹین کی لینڈنگ سمجھ رہا تھا اور کسی ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر صرف الیکٹرونک آلات اور کمپیوٹر سکرین کے ذریعے جہاز کی لینڈنگ کو مونیٹر کررہا تھا۔

جبکہ جہاز وں کی آمدورفت، ٹیک آف اور لینڈنگ کو واضح طور پر دیکھنے کے لیے ہر ائیر پورٹ پر ایک اونچا سا ٹاور بنایا جاتا ہے جہاں ڈیوٹی پر مامور لوگ جہازوں کی لینڈنگ اور ٹیک آف کو دوربینوں کے ذریعے بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔اگراِس پی کے 8303فلائیٹ کو بھی ائیر ٹریفک کنٹرولر آفیسر دوربین کے ذریعے بغور دیکھ رہے ہوتے تو وہ سمجھ جاتے کہ جہاز کی لینڈنگ میں کوئی مسلئہ ہے اور جہاز کا پائلٹ بغیر بتائے بیلی لینڈنگ کی کوشش کر ہا ہے اِس پر ائیر ٹریفک کنٹرولر جہاز کے کپتان کو وارننگ دیتایا ائیر پورٹ حکام کو ریڈ الرٹ کردیتا۔

لیکن ائیر ٹریفک کنٹرول کو اِس سے کیا وہ تو بڑے مزے سے ٹھنڈے اے سی والے کمر ے میں بیٹھاصرف کمپیوٹر سکرین اور ریڈار پینل کے ذریعے جہاز کے پائلٹ کو ہدایات دیتا رہا اُسے اصل حقیت سے کیا لینا دینا۔ اِس اندھیر نگری اور چوپٹ راج کی انتہا صرف یہاں تک نہیں ہوئی بلکہ اُس 8303فلائیٹ کی لینڈنگ کے بعد بھی اُسی دن یعنی 22مئی کو مذید دو فلائیٹس اُسی رن وے پر اُتاری گئیں، جبکہ 8303فلائیٹ کے انجن کے پرزے اگلی صبح رن وے سے اُٹھائے گئے۔

اب اگر اُس کریش ہونیوالی فلائیٹ کے رن وے پر ناکارہ پرزوں کی وجہ سے کوئی بعد میں آنیوالی فلائیٹ حادثے کا شکار ہوجاتی توذمہ دار کون تھا، ائیرٹریفک کنٹرول یا ائیرپورٹ سیفٹی حکام؟ ہمارے پے درپے نکمے پن ، نااہلی، اور غیر ذمہ داری کی کوئی حد نہیں ہے ہم با حثیت قوم ہر آنیوالے دن میں تباہی کیطرف جا رہے ہیں۔ دنیا کے مصروف ترین ائیر پورٹس پر بشمول دوبئی ائیر پورٹ ، ہر روز تقریباً دو ہزار کے قریب فلائیٹس لینڈ کرتی ہیں ُُُٓٓپاکستانی ائیرلائن اور سول ایویشن کو دیکھتے ہوئے یہ بات میری سمجھ سے بالآتر ہے کہ کس طرح دوبئی کے ائیرپورٹ پر روزانہ دوہزار فلائیٹس لینڈنگ اور ٹیک آف کرتی ہیں؟جبکہ پاکستان کے ائیرپورٹس پر تو شاید کئی کئی دنوں اور ہفتوں دوہزار فلائیٹس نہ اتر پائیں۔

یہ سراسر ہماری سول ایویشن کی نا اہلی اور نکماپن ہے۔پورٹس پر بشمول دوبئی ائیرپورٹ ، ہر روز تقریباً دوہزار کے قریب فلائیٹس لینڈ کرتی ہیں۔
پاکستانی ائیرلائنز اور ایویشن کو دیکھتے ہوئے یہ بات میری سمجھ سے بالآتر ہے کہ کس طرح دبئی ائیرپورٹ پر روزانہ دوہزار کے قریب فلائیٹس ٹیک آف اور لینڈ کرتی ہیں؟جبکہ پاکستا ن کے ائیرپورٹس پر شاید کئی دنوں اور کئی ہفتوں تک دوہزار فلائیٹیں نہ اترتی ہوں ، یہ سراسر ہماری سول ایویشن کی نااہلی اور نکمے پن کا ثبوت ہے۔


فلائیٹ پی کے 8303کا حادثہ تو محض ایک نتیجہ تھا اور یہ ہونا ہی تھا آج نہیں تو کل۔اِس کے اصل محرکات ہمارے سسٹم ، ہمارے نظام ، ہمارے مزاج اور ہمارے رویوں کی نااہلی اور سردمہری تھی جس کا نتیجہ اِس فضائی حادثے کی صورت میں نکلا۔قومی ائیر لائن میں عملے اور پائلٹوں کی بھرتی، ٹرینیگ، سیفٹی، مینٹینس، کیبن کریو ،غرض کسی بھی شعبے کو اُٹھا کر دیکھ لیں اور پھر دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا اِن تمام شعبوں میں بھرتیاں میرٹ پر ہوتی ہیں؟کیا یہ بھرتیاں قابلیت پر ہوتی ہیں؟اگر نہیں تو پھر یہ حادثہ اِس سارے نظام کے منہ پر طمانچہ ہے جو ہم نے بنا رکھا ہے اگر ہم قومی ائیر لائن کو ہی محفوظ نہیں بناسکتے تو پھر ہم اِس بھاری بھرکم ہمسایہ دشمن سے اِس قوم کو کس طرح محفوظ رکھ سکیں گے جس دشمن کی برائیاں بیان کرتے صبح شام ہمارا میڈیا نہیں تھکتا۔

ہمارامیڈیا ہمارے ہمسائے دشمن کی کمیناں اور کوہتاہیاں اِس زوروشور سے بیان کررہا ہوتاہے جیسا کہ یہ بڑا ثواب کا کام ہو۔سفارش، اقرباپروری اور یونین سسٹم کا یہی حال سول ایویشن میں بھی ہے جہاں بھرتیاں کرتے ہوئے اور نوکریاں دیتے ہوئے میرٹ کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور فرض یا ڈیوٹی پر مجرمانہ غفلت برتنے پر کو ئی سزا جزا کا سسٹم موجود نہیں، جس کا نتیجہ پھر کسی بڑے فضائی حادثے کی صورت میں ہی نکلناتھا۔

پی آئی اے اور سول ایویشن کی تباہی اور بربادی میں ایک بڑا کردار وردی والے اور دوسرے اداروں سے لائے گئیڈیپوٹیشن ، ریٹائیرڈ اور حاضر سروس لوگ بھی ہیں یہ لوگ عوام کے ٹیکس کے پیسے سے بھاری بھرکم تنخواہیں، مراعات اور گاڑیا ں انجوائے کرتے ہیں اور جاتے جاتے قومی اداروں کو بڑا سا ٹیکہ لگا جاتے ہیں۔
پاکستان کے اندر قومی ائیرلائن ہو، سول ایویشن ہو، نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ ہو، ایچ ایم سی ٹیکسلا ہو یا سی پیک ہو ، چند خاص اداروں کے لوگوں کو صرف قابلیت ، ایمانداری اور پروفیشنلزم کا سرٹیفیکیٹ بانٹ کر دوسرے اداروں کی اہم نشستوں پر کیوں لگایا جاتاہے؟ہم اداروں کے اندر سے کیوں نہیں قابل اور اہل لوگوں کو بتدریج ترقی دے کر اور اوپر لا کر اِن اداروں کی اہم پوسٹوں پر لگا پاتے ہیں؟ہم اپنے قومی اداروں کی اہم پوسٹوں پر باہر دوسرے شعبوں سے لوگوں کو لا کر اِن اداروں کا بیڑہ غرق کیوں کر دیتے ہیں؟اور اِس فضائی حادثے میں بھی یہی ہوا ہے ، کیا وزیرِ ہوابازی اور پی آئی اے کے سی ای او ائیر مارشل ارشد ملک صاحب کو پچھلے دو سالوں سے یہ معلوم نہیں ہو ا کہ پی آئی اے کے ساڑھے آٹھ سو میں سے تقریباًاڑھائی سو پائلٹوں کی قابلیت اور مہارت مشکوک ہے؟کیا ارشد ملک صاحب کو پچھلے دو سالوں سے یہ پتہ نہیں چلا کہ پی آئی اے کے بعض پائلٹس کی ڈگری جعلی ہے اور یہ کہ پی آئی اے کے پائلٹس جعلی امتحانات کے ذریعے اپنا لائسنس رینویو کروالیتے ہیں؟اب اگر کوئی اِس قوم کا مخلص اور ایماندار حکمران ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ وزیرِہوابازی اور پی آئی اے کے سی ای او جناب ائیرمارشل ارشد ملک صاحب سے استعفیٰ طلب کرے اور اِن سے پچھلے دو سالوں کی تنخواہیں اور مراعات کے پیسے بھی واپس لیے جائیں، ورنہ دوسری صورت میں اِس ملک میں مذید حادثات ہوتے رہیں گے اور قوم اِس طرح مگرمچھ کے آنسو بہاتی رہے گی۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :