اور تعلیم کا پہیہ صرف چنگ چی کے پہیے جتنا!

اتوار 28 جون 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

تعلیم کا شعبہ کسی بھی قوم کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے۔ اگر کسی بھی قوم نے تعلیم کے شعبے کو نظر انداز کرکے دوسرے شعبوں کو اہمیت دی ہے تواُس قوم کا نتیجہ صرف تباہی اور بربادی کی صورت میں ہی نکلا ہے۔کسی بھی فلاحی ریاست کو نئے پیدا ہونیوالے بچے کی تعلیم وتربیت پر تقریباً15-16سال صرف کرنا ہوتے ہیں۔اِن 15-16سالوں میں بچے کی تعلیم وتربیت ، اخلاقیات اور معاشرتی طورطریقے سکھانا کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔

اِن 15-16سالوں کی محنت ومشقت اور خون پسینے کے بعد ریاست اُس بچے سے ایک اچھا، ذمہ دار اور پُرامن شہری ہونے کی توقع رکھ سکتی ہے جو مُلکی ترقی میں کوئی کردار ادا کرسکے اور اُس معاشرے کو جس نے اُسے پروان چڑھایا ہے، کو کچھ فرض کی ادائیگی کی صورت میں واپس لوٹا سکے۔

(جاری ہے)

اگر ریاست کے اڑھائی کڑوڑ بچے سکولوں سے باہر ہوں اور پھر وہ ساتھ ہی ہی ساتھ ،ہم زندہ قوم ہیں کے نعرے بھی لگاتی ہو، تو پھر اُس قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔


پاکستان میں پرائمری تعلیم سے لیکر اعلٰی تعلیم تک سب کا ہی بہت بُرا حال ہے۔پرائمری شعبہ تعلم، بجٹ، انفراسٹرکچر، اساتذہ کی کمی اور بنیادی سہولیات کے فقدان سے اٹا پڑا ہے۔پرائمری سکولوں میں نہ تو بچوں کے لیے فرنیچر، پینے کا پانی، ٹوائلٹس کا بنیادی انتظام ہے اورنہ ہی تدریسی مواد(یعنی تختہ سیاہ، کلاس رومز، لائیبریاں وغیرہ)میسر ہیں۔

اورپھر اِس پر شعبہ تعلیم کی ایڈمنسڑیشن اور اساتذہ کی قابلیت بھی پی آئی اے کے پائلٹس کی طرح مشکوک ہے۔پرائمری شعبہ تعلیم کی ایڈمنسٹریشن میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں چائلڈ سائیکالوجی، چائلڈایجوکیشن اور فن ٹیچنگ کا سرے سے کچھ ادارک ہی نہیں۔ بلکہ صورتحال کے بالکل برعکس اِن کی ایڈمنسٹریشن اور اساتذہ کے اپنے بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھ رہے ہوتے ہیں جبکہ غریب کے بچوں کو غیر معیاری تعلیم کے لیے صرف سرکاری پرائمری سکولز بنائے جاتے ہیں۔

دراصل ہوناتو یہ چاہیے کہ محکمہ تعلیم کے تمام لوگوں کے بچے، سکینڈری بورڈز کے تمام ملازمین کے بچے ، سٹی ایڈمنسٹریشن، ڈپٹی کمشنرزاور اسسٹنٹ کمشنرز حضرات کے بچے صرف اورصرف سرکاری سکولوں میں ہی داخل ہوسکیں اور اِن اداروں کے ملازمین کے بچوں پر پرائیویٹ سکولوں میں داخلے پر سختی سے پابندی ہونی چاہیے۔لیکن ہم اِس قدر منافق قوم ہیں کہ ہمیں نوکریاں تو سرکار ی اور مراعات والی چاہیں جہاں ہمیں کوئی کام نہ کرنا پڑے یا برائے نا م کام کرنا پڑے جبکہ ہمیں اپنے بچوں کے لیے اعلٰی تعلیم یافتہ، قابل اساتذہ اور ہائی اسٹینڈرڈ سکولز چاہیں جو کسی طور پرہمارے سرکاری سکولوں میں تو ممکن نہیں۔

ہم خود کیلئے تو سرکاری نوکریاں چاہیں جبکہ بچوں کیلئے پرائیویٹ سکولز،کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ کیا یہ ہمارے اندر کی کھلی منافقت نہیں؟
یہ تو میں نے ابھی پرائمری شعبہ تعلیم کے انفراسٹرکچر کی بات کی ہے میں نے اِس پر بات نہیں کی کہ پرائمری شعبہ تعلیم کا نصاب کیا ہے؟یا اِس نصاب کو پڑھایا کیسے جاتا ہے؟یہ ایک بات واضح ہے کہ تعلیم کبھی بھی پاکستانی حکومت کی ترجیح نہیں رہی ہے۔

حکومتوں نے صرف بم بنانے اورہتھیار بنانے پر توجہ مرکوز رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ آج حکومت ،ریاستِ پاکستان اور مقتدر حلقے چیخ چیخ کر اِس قوم کو کرونا سے احتیاط برتنے کو کہہ رہے ہیں لیکن لوگ خود کرونا کا بم بن کر پھر رہے ہیں اور بیماری پھیلا کر ایک دوسرے کو مر اورمار رہے ہیں۔ اِس کرونا جیسی صورتحال میں عوام کو اعتماد میں لیکر چلنا تب ہی ممکن تھا اگرآپ نے اپنی قوم کو ایجوکیٹ کیا ہوتا، اگر آپ نے بموں، لڑاکاطیاروں اور ہتھیاروں کی جگہ پر کتابیں خریدی ہوتیں ،لائیبریاں بنائی ہوتیں اور اپنے لوگوں کو ہنر مند اور قابل بنایا ہوتا۔

لیکن بس کیا کریں عوام کی فلاح اور ترقی کا تو کبھی سوچا ہی نہیں گیااو رشعبہ تعلیم کو تو صرف چنگ چی کا پہیہ ہی سمجھا گیا۔پچھلے ستر سالوں سے ہمسایوں کے ساتھ ہم نے ایسے پیچیدہ تعلقات بنا رکھے ہیں کہ ہماری توجہ عوام کی تعلیم اور صحت کیطرف جا ہی نہ سکے۔جن ممالک نے ترقی کرنے کا سنجیدہ ارادہ کیا ہوتا ہے تو اُن ممالک کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔

اِس ضمن میں آپ چائنہ اور ہندستان کے باڈر کی صورتحال دیکھیں، چائنہ نے ہندوستان کے ساتھ 1962ء کی جنگ کے بعد حالات معمول پر لانے کیلئے اپنی اور ہندوستان کی باڈر فورسز کے درمیان ایک معاہدہ کررکھا ہے کہ وہ باڈر پٹرولنگ فورسز کو ہتھیارنہیں دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور چائنہ کے درمیان موجودہ باڈر جھڑپ کے باوجود اعلٰی فوجی سطح پر تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

یہ ہوتی ہیں آپ کی ترجیحات کہ آپ نے اپنی توجہ بیرونی معاملات سے ہٹا کر کس طرح صرف اورصرف اپنی قوم اوراپنے لوگوں پر لگانی ہوتی ہے۔
1980ء کی دہائی میں مذہبی شدت پسندی کو پروان چڑھا کر قوم کو کس طرح امریکی جہاد کے نام پر ورغلایا گیا۔اور اِسکے بدلے میں پاکستان پر امریکہ کی طرف سے ڈالروں کی بارش شروع ہوگئی جبکہ دوسری بڑی غلطی جنرل مشرف کی پاکستان کو امریکہ افغانستان جنگ میں جھونک دینا تھا۔

اگر سویلین حکومتیں اورڈکٹئیٹرقوم کے مخلص ہوتے تو وہ پاکستان کو اِن لڑائیوں میں جھونکنے کی بجائے اور ڈالروں کی بارش کی بجائے روکھی سوکھی کھا کر قوم کے حالات بدلنے اور تعلیم وصحت کے شعبوں پر توجہ دیتے۔صنعت و تجارت، کاروبار، ہنر مندی اور لوگوں کی قابلیت بڑھانے پر وسائل اور توجہ صرف کی جاتی۔
پاکستان کی اعلٰی تعلیم بھی مسلسل گراوٹ کاشکار ہے۔

دنیا کی ٹاپ200یونیورسٹیوں میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی شامل نہیں ، جبکہ ہندوستان کی آئی آئی ٹی بمبئے QSرینکنگ میں 152نمبر پر ہے۔جبکہ اِسی طرح آئی آئی ٹی کی باقی یونیورسٹیاں بھی اچھی رینکنگ کی حامل ہیں۔تو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ نے اپنے ہمسایوں سے مقابلہ کرنا ہی ہے تو یونیورسٹیز کی رینکنگ میں کریں، تجارت میں کریں، ٹیکنالوجی میں کریں،صنعت میں کریں، لوگوں کے معیارِزندگی بہتر بنانے میں کریں۔

آپ اِس طرح سے عوام کو زیادہ عرصے کیلئے بیوقوف نہیں بناسکیں گے۔2018ء کے الیکشن میں عمران خان تعلیم کیلئے ایک نئے خیال اور ویژن لیکر آئے تھے جہاں پرائم منسٹر ہاؤس میں یونیورسٹی بنناتھی، اور اِسی طرح گورنر ہاوسز میں بھی کوئی یونیورسٹی یا پبلک لائیبری بننی تھیں، لیکن پھریہ سب خواب کے خواب ہی رہ گئے اور سب کچھ دھرے کا دھرا ہی رہ گیااور نئے پاکستان کے حسین خواب دکھا کر عوام سے پُرانا پاکستان بھی چھین لیاگیا۔

2018ء کے الیکشن کو ملک میں پولیٹیکل انجئیرنگ کے لیے استعمال کیا گیا، اب اُس مکتبِ فکر کے لوگ اب پریشان ہیں۔بھٹو صاحب اپنی تقاریر میں کہا کرتے تھے یہ قوم گھاس کھائے گی لیکن ایٹم بم ضرور بنائے گی، آج چالیس سال بعد تعلیم ، صحت اور عوامی شعبوں کو یکسر نظر انداز کرنے کی وجہ سے یہ قوم واقعی ہی گھاس کھانے پر مجبور ہے ،اِس کے باوجود کہ اِس کے پاس ایٹم بم بھی موجود ہے!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :