انصاف کا ریپ

جمعرات 17 ستمبر 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

پچھلے چند دنوں سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر موٹر وے زیادتی کیس پر سول سوسائٹی ،عوام، اپوزیشن اور میڈیا کی طرف سے شدید غم وغصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔اِس سارے معاملے میں پولیس اور حکومت شدید تنقید کا سامنا کر رہی ہے اور اِس سارے معاملے کی ذمہ داری حکومت اور ریاستی اداروں(پولیس وموٹروے پولیس،وزارتِ مواصلات)پر ڈالنا حق بجانب ہے۔

یہ واقعہ تو چند ایک واقعات میں سے ہے جو میڈیا میں رپورٹ ہو جاتے ہیں، جبکہ باقی بہت سارے وہ واقعات جو میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے، اور جس طرح خواتین، بچیوں،اور طالبات کو سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دفاتر میں تشدد یا زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے،ایسے واقعات کا تو شُمار ہی نہیں ہوتا۔ میں اپنے اِس کالم میں اِس واقعے کے ذمہ داروں (پولیس ، نظامِ عدل، حکومت)کو تنقید بنانے کی بجائے خواتین و سول سوسائٹی کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھانے اور ایسے واقعات کے تدارک کے بارے میں چند ایک گزارشات قارئین کے سامنے پیش کروں گا۔

(جاری ہے)


میرے خیال میں ہمیں اپنے نظامِ تعلیم میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے سکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں طالبات اور بچے بچیوں کو جنسی زیادتی اور ہراساں کرنے کے خلاف آگاہی دینا ہوگی۔اُنہیں بتا نا ہوگا کہ کس طرح کوئی بھی شخص نا بالغ بچوں یا بچیوں کو جنسی زیادتی کا شکار بنا سکتا ہے۔بچے اور بچیوں کو بتانا ہوگا کہ اگرکوئی شخص آپکے بدن کے مخصوص حصوں کو چھوتا ہے تو اِس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ اور آپکو اِس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ہمیں worst case scenarioسامنے رکھتے ہوئے اپنے بچوں کو Rape Escapeاور Anti-Rape Trainingدینا ہوگی۔

آپ یقین کیجیئے کہ یو ٹیوب پر Rape EscapeاورSelf-defenseپر وڈیو سیریز موجود ہیں جن میں خواتین اور بچوں کو جنسی زیادتی سے بچنے اور اِس کے خلاف مزاحمت کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ ہمیں صرف اِن طریقوں پر سائنسی بنیادوں پر کام کرکے اِن طریقوں کو سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بچیوں کو سکھانے کی ضرورت ہے ۔ آپ یقین کریں کہ میں یہ بات لکھتے ہوئے بڑاافسردہ ہوں کہ پاکستانی خواتین میں خود اعتمادی، تعلیم اور ہنر مندی کی شدید کمی ہے، پاکستانی خواتین با اعتماد ہو کر بات نہیں کر سکتیں، اپنا موقف نہیں سمجھا سکتیں۔

پاکستانی خواتین بہت زیادہ dependent ہوتی ہیں۔پاکستانی خواتین بہت سے معاملات مثلاً سفر کرنے، سکول ، کالج سے گھر اور گھر سے سکول ، کالج و یونیورسٹی جانے کے لیے مردوں کی محتاج ہوتی ہیں۔اکثر پاکستانی خواتین کو کوئی سواری چلانانہیں آتی۔ جبکہ اِس کے برعکس ملائیشیا، انڈونیشیا، اور تُرکی میں خواتین سائیکل، موٹر سائیکل بڑے پُر اعتماد طریقے سے چلا رہی ہوتی ہیں۔


اکثر پاکستانی خواتین کے پاس کوئی سِکل سیٹ (تیراکی، سواری، آگ بُجھانا،سانپ سے بچنا، اتھلیٹکس، بنیادی گاڑی ٹھیک کرنا)موجود نہیں ہوتی۔ پاکستانی خواتین کو اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کے لیے مرد حضرات کیطرف دیکھنا پڑتا ہے اور موٹرے زیادتی کیس میں یہی کچھ ہوا۔ وہ خاتون چونکہ پڑھی لکھی، بااعتماد تھی اور اپنے مسائل خود حل کرنے کی عادی تھی، وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے کسی مرد (بھائی، شوہر یا خاوند) کے سہارے کی عادی نہیں تھی اِس لیے سوشل میڈیا اور کچھ لوگ اُس خاتون کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ وہ گھر سے باہر رات کے وقت نکلی کیوں؟کیونکہ ہمارے اِس مُلک میں کسی مجبوری کے تحت کوئی عورت رات کے وقت اکیلی نہیں نکل سکتی۔

اِس کو باہر جانے کے لیے ہر صورت کسی مرد کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہاں صرف مرد حضرات ہی گھر سے باہر نکل کر روزی کمانے کا حق رکھتے ہیں۔ جبکہ اِس کے برعکس ملائیشیا اور ترکی کا معاشرہ بھی مُسلمان معاشرہ ہے لیکن وہاں خواتین حجاب پہن کر گھر سے باہر بھی نکل سکتی ہیں اور نوکر ی بھی کر سکتی ہیں، وہاں نہ تو کوئی اُنہیں ہراساں کرتا ہے اور نہ ہی کوئی انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ نہیں بناتا ہے۔

مذہب کے نام پر بننے والے اِس مُلک میں زناکاری، چوری، ڈکیتی، قتل، ملاوٹ بھی عروج پر ہیں، کوئی اُنہیں کیوں نہیں سمجھاتا کہ معاشرے چلانے کے لیے مذہب سے زیادہ عدل وانصاف اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔یہاں تو یہ نہیں ہوتا کہ آپ کی عدالتیں نواز شریف کو تو اشتہاری قرار دے دیں ، لیکن پرویز مشرف کو ایک دن بھی جیل نہیں ہوتی ،اور انہیں سزائے موت کے باوجود کُھلی چھوٹ مِلی ہوتی ہے ، یہاں تو SECPکا چئیرمین بغیر بتائے شُمالی علاقہ جات کی سیر کو چلا جاتا ہے۔

آپ یقین کریں پاکستانی معاشرہ تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے پاکستانی عوام اور پاکستان کے اداروں میں اہلیت ، قابلیت، پروفیشنلزم، اور سِکل سیٹ کی شدید کمی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے پائلٹس نہ تو جہاز اُڑا سکتے ہیں ، نہ ٹرین کے ڈرائیور بحفاظت ٹرینیں چلا سکتے ہیں ، نہ عُمر شیخ جیسے پولیس آفیسرز امن وامان بہتر بنا سکتے ہیں، اور نہ ہی عثمان بُزدار جیسے وزیرِاعلٰی صوبہ چلا سکتے ہیں ۔ اِس موٹروے زیادتی کیس میں وہ عورت ریپ نہیں ہوئی ، بلکہ تحریکِ انصاف کے انصاف کے اُس دعوے کا ریپ ہوا ہے جس کا وہ پچھلے 22سالوں سے پر چار کر رہے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :