کاتیلونیا اور کراچی

اتوار 4 اکتوبر 2020

Urooj Asghar

عروج اصغر

پچھلے کچھ سالوں سے اسپین میں کاتیلونیا کی تحریک کو بغور دیکھنے کا اتفاق ھوا ۔ تاریخی طور پر نہ ہی مگر حالات اور واقعات میں کراچی سے کافی مشابہت معلوم ھوتی پے - غرض یہ کہ کراچی ذیادہ بد تر حالت میں ہے اور انتظامی ناھمواریاں بہت شدید ہیں ۔
موازنہ کیا جائے تو اسپین کی حکومت کا کاتیلونیا سے رویہ بھی نسبتاً بہت بہتر ہے مگر بھر بھی لوگوں کی اپنے حقوق سے آگاہی قابل رشک ہے کہ وہ بہت تفصیل کے ساتھ اپنی مرکزی حکومت کو ایک مدلل انداز سے یہ ثابت کرنے میں باراور کروانے میں کامیاب ھوئے ہیں کہ ان کو ان کے ٹیکس کے حساب سے حقوق نہیں مل پار ھے اور کچھ بنیادی مسائل ہیں جو حل نہیں ھوسکے
اس کے ساتھ ساتھ ان کی ایک علیحدہ پہچان ہے جو کہ باقی اسپین سے مختلف ہے اور ان کو امتیازی سلوک کا بھی سامنا ھے چنانچہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ اپنے ھاتھوں میں رکھنا چاہئیے ہیں اور اس کے لئے وہ ایک بااختیار ریاست کی داغ بیل ڈالنا چاہتے ہیں جہاں ان کے مستقبل کو تحفظ مل سکے اور ان کو وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا سامنا نہ کرنا پڑے
کاتیلونیا میں جو چیز بہت مختلف ہے وہ آدمی کے شعور کا درجہ ہے جو عقل اور دانائی کے ساتھ سیاست کے وہ رموز ہیں جو کراچی میں دور دور تک نظر نہیں آتے ۔

(جاری ہے)

جب کہ کراچی کا مطالبہ ایک علیحدہ ریاست نہیں بلکہ ایک علیحدہ صوبہ ہے حتی کہ بلدیاتی انتخابات کروانے تک کو کوئی قابل فہم اور باشعور تحریک نظر نہیں آتی - البتہ اگر پوچھا جائے تو کئی جلدوں میں شکوے اور شکایات کی کتابیں مرتب ھو جائیں گی مگر کوئی شخص عملی طور پر سامنے آنے کو تیار نہیں ہے
کاتیلونیا میں ایک قطرہ خون نہیں بہا اور کراچی ایسے کئی سمندر دیکھ چکا - کاتیلونیا کو اس تعصب کا سامنا نہیں جو کراچی کا مقدر بن چکا ہے - کاتیلونیا ملک کا اکیس فیصد اور کراچی ساٹھ فیصد جبکہ صوبے کا نوے فیصد ٹیکس دیتا ہے جبکہ کاتیلونیا کو پچاس فیصد واپس ملتا ہے اور کراچی کو ایک فیصد بھی نہیں پھر بھی کراچی میں حیران کن بے حسی بی اعتناعی اور لاپرواہی ہے جو کہ ناقابل بیان ہے
کراچی سے عشروں سے منتخب ھونے والے بھتوں سے اپنی قسمت سنوار چکے اور صوبے کے امین چائنہ کٹنگ سے دیارِغیر سدھار چکے مگر کراچی والے نجانے کون سے دائمی نشے میں ہیں کہ جس کی غنودگی سے وہ باھر آنے کو تیار نہیں
ھم نے گاوں دیہات میں اکثر دیکھا کہ بارش میں کیچڑ ھونے پر بھینس اور گائے اور وقت تک نیچے نہیں بیٹھتی جبتک گند کچھ کم نا ھو جائے یا پھر اندھیرا نہ ھو جائے مگر شاید کراچی میں ھم شعور کی اس حیوانی سطح سے بھی گر چکے ہیں اور ابلتے گٹروں اور بہتے نالوں سے اسقدر مانوس ھو گئے ہیں کہ بس زبانی کلامی یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔


اب بھی انسانیت کے کچھ آثار ں میں موجود ہیں مگر حقیقتاً کوئی اجتماعی تحریک نظر نہیں آتی نہ ھی کوئی ایسی فکر پائی جاتی ہے جو اس طرف اشارہ کرے - ھاں اتنا ضرور ھے کہ سیاست کی بازی گری دکھانی ھو تو لوگوں کو ریوڑ کی طرح ھانک دیا جاتا ہے اور پھر بارش میں بکرہ منڈی کے جانور کی طرح اپنے حال پہ چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ آنے والا وقت اپنے اپنے حساب سے مستقبل می بولی لگا کر پھر کسی نئی قربان گاہ کی زینت بنادے اور آس پاس کے ازلی مسکینوں کی کچھ دیر عید ھو جائے
دو کروڑ کے شہر میں اگر ایک لاکھ لوگوں کا بھی منظم جلسہ ھو جائے تو حکام کے ھاتھ پاؤں پھول جائیں گے اس کی سادہ سی مثال تحریک لبیک پے جس کے دس ھزار لوگوں نے وفاقی حکومت کو مٹی چاٹنے پر مجبور کردیا تھا
کراچی کا کنٹرول یا تو لندن میں یا پھر اسلام آباد یا پھر لاڑکانہ میں ھوتا ہے اور کراچی والا آدھا پونا مئیر بھی صرف مدت پوری ھونے پر کراچی پہ محض بے اختیاری آنسو بہا کر چلا جاتا جبکہ کراچی کے کمشنر ریٹائیرمنٹ کے بعد بلدیات کے ماھر بن کر ٹی وی کے مختلف پروگراموں میں شتر مرغ کی طرح سر نکالے نظر آتے ہیں ۔


حکام کے رویہ تو کجا خود کراچی والے اور کراچی کا کھانے والے بھی کراچی کو ماں کی بجائے کام والی ماسی سمجھ کر برتاؤ کرتے ہیں اور اس کی انگنت مثالیں ہیں صرف طارق روڈ کے آس پاس چھ سو ٹیکس چور بزنس ہیں جو دن کے کروڑوں کماتے ہیں جبکہ اس روڈ کی حالت پھلے بیس سال سے کسی نورالدین زنگی کی منتظر تھی جبکہ اگر وہ سب اپنے چوری کئے ٹیکس کے پیسے کا ایک فیصد بھی اس پر لگادیں تو وہ سڑک ایک شاہکار بن سکتی ہے
گھر کا گند باھر پھینک کر ھاتھ جھاڑنے کی جو تربیت پچھلے تیس سالوں میں کی گئ وہ ساری گرھیں کراچی والے اب دانتوں سے کھول رھے ہیں ۔

حکومت کے مظالم اپنی جگہ مگر نالے پہ مکان لینے والا کون ہے ؟ کیا ندی کنارے گھر لینے والے کو ندی نظر نہیں آتی ۔ کچرا کنڈی پہ دکان لینے والا انجان ہے ؟؟ ٹوٹی ھوئی دیواروں اور غیر میعاری تعمیر والی عمارت کو سمجھنے کیلئے کسی قانونِ ارشمیدس کی ضرورت ہے ؟ اب صرف حکومت سے منہ میں نوالہ ڈالنے کا شکوہ رھ گیا ہے وگرنہ باقی تو سب سن لئے ہیں!
دوسری اور تیسری فائیل کون خریدتا ہے غیر قانونی پلاٹنگ پہ رشوت دے کر کون رھتا ہے؟؟
شہریوں کی اپنی کوئی غیر سرکاری تنظیم نہیں جو شہریوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرے نہ ھی پڑھے لکھے چند نامور اور صاحب حیثیت لوگوں نے کسی ایسے ادنی سے ھی ادارے کی تشکیل کی ھو جو اس عوام کے ھجوم کو کسی منزل کے طرف گامزن کر سکے
کراچی والوں کی کاتیلونیا جیسی تحریکوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آئرلینڈ سے ذیادہ قربانیاں دے کر خودمختاری تو درکنار وہ کیونکر اپنے شہری حقوق تک بھی نہ حاصل کرسکے؟ تمام تر منازل طے کرنے کے بعد گیس والے غبارے کی طرح آھستہ آھستہ رو بہ زوال ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :