فرانسیسی صدر کی غیر ذمہ داریاں

پیر 26 اکتوبر 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

سورہ توبہ کی آیت نمبر 24 کا مفہوم ہے جس میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ: تم (ﷺ) فرماؤ کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بھائی، تمہارے بیٹے، اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ، تمہاری کمائی کے مال، اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے۔ اور تمہارے پسند کے مکان، یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو، یہاں تک کے اللہ اپنا حکم لائے، اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔


مندرجہ بالا آیت کریمہ کے ذریعے اللہ کریم نے اپنے حبیب محمد رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمادیا کہ دنیا کی تمام نعمتیں یہاں تک کہ مال، اولاد کنبہ اور عورتیں سب اللہ اور اسکے رسول کی حرمت و حکم کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ناموس رسالتﷺ مسلمانوں کے ایمان کی اولین شرط ہے۔

(جاری ہے)

اس تناظر میں بیشمار مثالیں موجود ہیں جن میں ناموس رسالت ﷺ کی اہمیت واضح کی گئی ہے مثال کے طور پر کمال رحمت و اکرام کے باوجود بہت سے مواقع پر ایسے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جو محمد رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب ہوا کرتے تھے۔

جن میں سے چند ایک یہ ہیں جیسے اسماء بنت مروان کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا کہ وہ آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کیا کرتی تھی، اسی طرح یہودی شاعر ابو افق کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا گیا کہ وہ اپنی شاعری میں آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کیا کرتا تھا، کعب بن الاشرف کو جنگ بدر کے بعد مکہ میں قتل کیا گیا کہ وہ آپ ﷺ کی شان میں ہرزہ سرائی کیا کرتا تھا۔ اور اس قسم کے بہت سے نام ہیں یہ سب ناموس رسالت ﷺ کو اجاگر کرتے ہیں کہ آپﷺ کی حرمت و ناموس مسلمانوں کیلئے ان کی جان مال ، عزت و آبرو ، آل اولاد سب سے زیادہ افضل و ارفع ہے جس پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں ۔


ترقی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ، نہ ہی ترقی اس بات پر منحصر ہے کہ انسان تہذیب و اخلاق سے بالکل ہی پیدل ہوجائے، حسن اخلاق کا معیار سب کے لئے یکساں ہونا چاہئے ایسا نہیں کہ من پسند کیلئے کچھ اور ناپسندیدہ کیلئے کچھ اور۔ کسی بھی معاملے میں دھرا معیار نظام کی کمزوری اور ناپائیداری کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی بھی غیر اخلاقی و غیر معیاری عمل کو کنبہ، شہر یا ملک کے بڑے کی پزیرائی و حمایت حاصل ہو تو وہ قوم یا لوگوں میں نظریات کی گراوٹ کا سبب بن جاتی ہے۔


بالکل ایسا ہی آجکل فرانس میں ہو رہا ہے، کہ وہاں ایک ٹیچر بار بار کے انتباہ کے باوجود اسلام دشمنی اور نبی پاک ﷺ کی شان میں گستاخی سے باز نہ آیا اور مارا گیا۔ پوری دنیا بخوبی جانتی ہے کہ مذہب اس کے ماننے والوں کیلئے ایک انتہائی حساس معاملہ ہوتا ہے، لوگوں کا عموما مذہب سے نفسیاتی اور روحانی لگاؤ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مذہب کے بارے میں کوئی بھی منفی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے ہیں اور اگر کوئی اس غلطی کا مرتکب ہو تو پھر وہ اس کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔


اس پورے معاملے میں فرانس کے صدر نہایت ہی بچگانہ اور جانبدار انہ کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہوگا ، کہ وہ شعلوں کو ہوا دے رہے ہیں ، جس کا نقصان ان کی اپنی قوم اور ملک دونوں کو پہنچ سکتا ہے ، مارکون مستقل طور پر جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ دوسرے مذہب کے لوگوں کی مسلسل دل آزاری ہو رہی ہے یا نفرت پھیل رہی ہے، وہ بیان پر بیان داغ رہے ہیں رہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان نہ صرف بے چین ہیں بلکہ احتجاج بھی کر رہے ہیں ۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے مارکون کے بیانات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور دنیا بھر کے مسلم ممالک میں بھی اس رویہ پر شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ ناموس رسالت ﷺ پر لکھ کر، زبان سے یا عمل سے کی گئی گستاخی پر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی سب کچھ فرانس میں روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔

جو مسلمانوں کی شدید دل آزاری کا سبب بن رہا ہے۔
مسٹر مارکون آپ کہتے ہیں کہ مسلمان تنازعات پسند، علیحدگی پسند اور بنیاد پرست ہیں، جبکہ آپ کے اپنے بیانات تنازعات کو جنم دے رہے ہیں اور مسلمانوں کو فرانسیسی قوم سے الگ کر رہے ہیں، آپ کے بیانات نفرت کے وہ بیج بو رہے ہیں جن کے نتائج بہت برے نکلنے کے قوی امکانات ہیں، اور آپ پھر مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرا کر بر ی الزمہ ہوجائیں گے۔

مسٹر مارکون آپ کہتے ہیں کہ آپ اپنے بچوں کو سیکولر لبرل تعلیم دینا چاہتے ہیں ، ضرور دیجئے، مگر اس مقصد کیلئے ، اسلام مسلمان اور نبی برحق ﷺ ہی کیوں مشق ستم بنتے ہیں، یہ تو نہایت ہی بد اخلاقی ہے کہ جانتے بوجھتے کسی کو نفسیاتی اور روحانی اذیت سے دوچار کیا جائے۔ دنیا بھری پڑی ہے مگر مسلمانوں کو ہی کیوں تختہ مشق بنایا جاتا ہے، کیا یہ بات آپ کی تنگ نظری ، تعصب پسندی اور تربیت کے فقدان کو ظاہر نہیں کرتی؟ بجائے اس کے کہ آپ انصاف کا فیصلہ کرتے اور تدبر کا مظاہرہ کرتے آپ نے بد ترین جانبداری کا مظاہرہ کرکے معاملے کو مذید بگاڑ دیا ہے۔

کسی بھی سربراہ مملکت سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اخلاقی طورپر اتنا دیوالیہ ، غیر ذمہ دار ہوکر اس حد تک گر سکتا ہے۔ کہ اپنے خود ساختہ مذہبی مخالف کی مضحکہ خیز تصاویر بنوا کر سرکاری عمارتوں پر آویزاں کرادے گا۔ مگر فرانس میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور باقی دنیا محض اسلام دشمنی میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بدھ کے دن فرانس کے صدر نے یہ کہہ کر ہاتھ اٹھا لئے کہ وہ آزادی اظہار رائے کے معاملے پر کسی کو روک نہیں سکتے، یعنی آپ کسی کو بھی صر ف مسلمانوں کے ساتھ بدتمیزی سے نہیں روک سکتے، ساتھ ساتھ انہوں نے ایک نہایت ہی گھٹیا بنیان دیا جو کم ظرفی کی بدترین مثال ہے کہ اسلام ایک مشکل اور عجیب مذہب ہے، جسے قابو کرنا ہوگا۔

یہ ایک نہایت ہی اخلاق سے گرا ہوا اور نازیبا بیان ہے جو مارکون کی ذہنی و اخلاقی معیار کی پستی کو ظاہر کرتا ہے، ایسے بیان کی کسی بھی سربراہ مملکت سے توقع نہیں کی جاسکتی ۔ فرانس میں حالیہ دنوں میں بڑے پیمانے پر مسلم مخالف مہم چلائی جارہی ہے۔ جس کے نتیجے میں مساجد کو بند کر دیا گیا ہے اور مسلمانوں کو فرانس میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔


ایک ترقی یافتہ ملک کے سربراہ کیلئے اتنا غیر ذمہ دار ہونا نہایت ہی حیرت کی بات ہے کہ وہ اپنی عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے پوری دنیا کے چین و سکون کو غارت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ کیونکہ معاملا ت کوئی ڈھکے چھپے نہیں اور سب ہی جانتے ہیں کہ کیا ہوا تھا ، یہ کوئی اچانک رونما ہونے والا حادثہ نہ تھا بلکہ دھیرے دھیرے پکنے والا آتش فشاں تھا جسے خود فرانسیسی ٹیچر اور اسکول انتظامیہ نے تیار کیا جو اب پھٹ گیا تو مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔

اسی طرح ان کے صدر کے بیانات مذید مشکلات کو جنم دینے کا سبب بن رہے ہیں۔ اور وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ حالات مذید بگڑ بھی سکتے ہیں۔
اب جبکہ دنیا کرونا کی وبا سے برد آزما ہے ایسی کسی بھی غیر ذمہ دارانہ مہم جوئی کی متحمل نہیں ہوسکتی ، لوگوں کو تعصب کا چشمہ اتار کر بالغ نظری اور انصاف سے کام لینا چاہئے، تاکہ معاشروں میں درگزر اور رواداری کی فضا قائم ہو سکے اور لوگ چین و آرام کی زندگی بسر کر سکیں۔ اس طرح کے جذباتی اور ناپائیدار روئیے اور بیانات بالخصوص کسی سربراہ مملکت کی جانب سے تو جیسے جلتی پر تیل کا کام کریں گے۔ جن کے نتائج کسی کے لئے بھی سودمند نہیں ہو سکتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :