کورونا کا دوسرا حملہ ۔ احتیاط بہت ضروری ہے،

منگل 8 دسمبر 2020

Zaeem Arshad

زعیم ارشد

کہتے ہیں کہ سانپ اور بیماری اگر پلٹ کر وار کریں تو وہ بہت شدید اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ کرونا کا بھی دوسرا حملہ بہت خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو رہا ہے۔ جس کا شکار لوگوں کی تعداد دن بہ دن تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ وباء نہ امیر دیکھتی ہے نہ غریب نہ ترقی یافتہ ملک نہ ترقی پزیر بلکہ جہاں کہیں بھی کوئی بے احتیاطی کا مظاہرہ کررہا ہوتا ہے یہ اسے فوراً دوسری دنیا میں پہنچادیتی ہے۔

اس کی مثال امریکہ و برطانیہ میں اس کا بدترین پھیلاؤ اور بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا چلے جانا ہے۔ امریکہ برطانیہ اٹلی فرانس جیسے ترقی یافتہ ممالک اس کے ہاتھوں پریشان ہیں اور بچنے کیلئے بے بسی سے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔
حالات کی سنگینی کا انداہ ہم اپنے اردگرد کے حالات سے بھی لگا سکتے ہیں، ابھی چند دنوں ہی میں کئی ایسے لوگ جن کے پاس نا وسائل کی کمی تھی نہ پیسے کی مگر اس کا شکار ہوکر جہان فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ مثال دینے کا مطلب صرف یہ ہے کہ وسائل اور پیسے سے عموما انسان آسائش اور آسانی خرید لیتا ہے۔ یا غیرمعمولی توجہ حاصل کر ہی لیتا ہے، مگر لگتا ہے کہ اس وباء کے سامنے صرف اور صرف احتیاط کا سکہ چلتا ہے باقی جس نے بھی بے احتیاطی کی وہ گیا اپنی جان سے۔ ملک کے نامور جسٹس کرونا کا شکار ہوکر انتقال کر گئے، ان سے پہلے عادل صدیقی اور جاوید گردیزی بھی کرونا کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں ۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس یقینا ہر طرح کے وسائل اور آسائش مہیا رہی ہوگی مگر ضرور کہیں نہ کہیں کوئی بے احتیاطی ہوئی ہوگی جس کے نتیجے میں وہ اپنی سب سے قیمتی شہ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس ضمن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جن کے پاس نہ وسائل ہیں نہ ہی دولت کے انبار وہ بسوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں تو ان کا کیا بنے گا۔ سادہ سا جواب ہے کہ وہ تو کرونا کا آسان شکار ہیں اور ان پر اس کا داؤ بہت ہی کاری ہوسکتا ہے، اس میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر لوگوں کے پاس تو قرنطینہ کیلئے مناسب علیحدہ جگہ بھی نہیں ہوگی ، نتیجتا ایک نشانہ بننے والا کئی لوگوں کی جان کو خطرہ بن سکتا ہے۔

اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے جانے کہاں تک پہنچ سکتا ہے کسی کو بھی اس کی سنگینی کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اس کی عوام بھی بدترین غربت کا شکار ہیں ہسپتال سہولیات سے محروم ہیں وینٹیلیٹرز کا فقدان ہے اور جو ہیں وہ پہلے ہی سے زیر استعمال ہیں، غریب آدمی کہاں جائے گا کیسے علاج کرائے گا۔ اللہ نہ کرے اگر یہ وباء یورپ و امریکہ کی طرح ہمارے ملک میں بھی بے قابو ہوگئی تو بہت ہی برے نتائج کی امید کی جاسکتی ہے۔


اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کل چار لاکھ دس ہزار لوگ کرونا سے متاثر ہوئے جن میں سے تین لاکھ پچاس ہزار صحت یاب ہو گئے جبکہ اٹھ ہزار دو سو ساٹھ کا انتقال ہوا۔ موجودہ صورتحال میں سندھ سب سے زیادہ متاثر صوبہ ہے، اس کے بعد پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کا نمبر آتا ہے۔ کراچی میں لوگ کرونا سے سب سے زہادہ متاثر ہوئے ہیں۔


فروری 2020 میں پہلا کیس پاکستان میں ریکارڈ کیا گیا تھا، جو بڑھے ضرور مگر دنیا کے دوسرے ممالک کی بہ نسبت معاملہ ہمارے ہاں قدرے بہتر رہا۔ اب جو یہ دوسری لہر آئی ہے یہ پہلے سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا ہوسکتی ہے، دسمبر 2020 کے ابتدائی ایام میں کیسز کے اعداد و شمار انتہائی چونکا دینے والے اور پریشان کن ہیں۔ مگر ہم تمام ناگہانیوں سے بے خبر کسی کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔

عمومی لوگوں کی عدم دلچسپی نے معاملے کو اور بھی سنگین اور تشویشناک بنا دیا ہے۔ وہی میلے ٹھیلے ہیں لوگوں کے ہجوم ہیں، احتیاطی تدابیر نہ ہونے کے برابر ماسک پہننا تو جیسے گناہ سمجھتے ہیں۔ پھر ہاتھ ملانا، گلے ملنا مرجانے سے زیادہ اہم ہے، اس بات کو جانے بغیر کہ بہت ممکن ہے آپ جس سے محبت میں گلے مل رہے ہیں آپ اسکی جان کو بھی خطرہ میں ڈال رہے ہیں۔

بہت سے باکمال اور لاجواب لوگ محض کسی کی نادانی یا بے احتیاطی کا شکار ہوکر راہی عدم ہوئے ہیں، بہت ممکن ہے کسی پیارے نے ہاتھ ملایا ہو یا گلے ملا ہو جو ان کو کرونا سے متاثر کرنے کا سبب رہا ہو اور جان لیوا ثابت ہوا ہو۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملہ کی نزاکت کو سمجھا جائے اور حالات کا مقابلہ تدبر اور فراست سے کیا جائے نہ کہ سنی سنائی افواہوں اور گمراہ کن خبروں کی بنیاد پر زندگی گزاری جائے۔

جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ کوئی بین الاقوامی سازش ہے تو محض اس بنیاد پر بے احتیاطی کرنا خودکشی کرنے کے مترادف ہوگا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ چاہے یہ کوئی قدرتی آفت ہے یا کوئی بین الاقوامی سازش ، اگر ہم اپنی بے احتیاطی کی وجہ سے اس کا شکار ہو رہے ہیں یا ہماری وجہ سے دوسرے اس کا شکار ہوکر تکلیف اٹھا رہے ہیں تب تو ہم سازشی عناصر کا آلہء کار بن رہے ہیں اور ان کی مدد کر رہے ہیں، جو اخلاقی اور سماجی طور پر ناپسندیدہ ہی گردانا جائے گا۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ خود بھی احتیاط کریں او ر اپنے حلقہ احباب کو بھی اس کی تلقین کریں۔ ماسک ضرور پہنیں، لوگوں سے فاصلہ رکھیں، ہجوم والی جگہ جانے سے گریز کریں، ہاتھوں کو جب ضرورت ہو سینیٹائز کرتے رہیں اور دھوتے رہیں۔ جب گھر سے باہر ہوں تو اپنے چہرے اور آنکھوں کو چھونے سے گریز کریں۔ کھانستے یا چھینکے وقت اپنے بازو کو اپنے منہ کے سامنے رکھ لیں۔

اگر طبیعت ٹھیک نہ ہو تو گھر پر رہیں، اور اگر نزلہ، بخار، گلا خراب ہو او ر منہ کا ذائقہ اور سونگھنے کی حس جاتی رہے تو ضرور کرونا کا ٹیسٹ کرالیں۔ ایک انگریزی کی کہاوت ہے کہ چھوٹی چھوٹی چیزیں مل کر کمال، شاہکار یا عروج تخلیق کرتی مگر کمال، شاہکار یا عروج کوئی چھوٹی یا معمولی شہ نہیں ہوتی۔ ہماری چھوٹی چھوٹی احتیاط لوگوں کو بڑے بڑے حادثات سے بچا سکتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :