ٴْقرضے لینے والوں کی جائیدادیں بیچ کر قومی خزانے میں جمع کرکے قرضے اتارے جائیں ،سراج الحق

ملک اور قوم کو جاگیر داروں ، اشرافیہ ، وڈیروں نے لوٹا ہے اور قوم پر جو مہنگائی کا بوجھ ڈالا ہے ؂ 76 سالوں سے ملک اور قوم کو فریب سے لوٹا گیا اور اشرافیہ کو مضبوط بناکر قوم کو دو وقت کی روٹی کے لئے محتاج بنایا گیا دنیا بھر میں سال میں ایک بار بجٹ پیش ہوتا ہے لیکن پاکستان میں 365 دن بجٹ پیش کرکے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے جو لمحہ فکریہ ہے k نگران حکومت پیٹرولیم مصنوعات اور گیس ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ واپس لے بصورت دیگر ہماری تحریک جاری رہے گی،گورنر ہائوس کوئٹہ کے سامنے مہنگائی کے خلاف دھرنے کے شرکاء سے اظہار خیال

اتوار 24 ستمبر 2023 20:30

ٴْقرضے لینے والوں کی جائیدادیں بیچ کر قومی خزانے میں جمع کرکے قرضے ..
ٌ,کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 24 ستمبر2023ء) جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک اور قوم کو جاگیر داروں ، اشرافیہ ، وڈیروں نے لوٹا ہے اور قوم پر جو مہنگائی کا بوجھ ڈالا ہے وہ قرضے لینے والوں کی جائیدادیں بیچ کر قومی خزانے میں جمع کرکے قرضے اتارے جائیں کیونکہ ان قرضوں سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا 76 سالوں سے ملک اور قوم کو فریب سے لوٹا گیا اور اشرافیہ کو مضبوط بناکر قوم کو دو وقت کی روٹی کے لئے محتاج بنایا گیا دنیا بھر میں سال میں ایک بار بجٹ پیش ہوتا ہے لیکن پاکستان میں 365 دن بجٹ پیش کرکے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔

اس لئے نگران حکومت پیٹرولیم مصنوعات اور گیس ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ واپس لے بصورت دیگر ہماری تحریک جاری رہے گی۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو گورنر ہائوس کوئٹہ کے سامنے مہنگائی کے خلاف دیئے جانے والے دھرنے کے شرکاء سے اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی ، صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمان ، ڈاکٹر عطاء الرحمان، ڈاکٹر نوید مگسی ، مولانا محمد افضل، حافظ نور علی، نواب ظفر اللہ شاہوانی سمیت دیگر رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔

دھرنے میں زاہد اختر مولانا عبدالکبیر شاکر ، عبدالولی شاکر سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ 76 سال گزرنے کے باوجود آج بھی ملک میں انگریزوں کا قانون اور پالیسیاں رائج ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سی25 کروڑ عوام کے لیے گھر چلانا مشکل سے مشکل تر ہو چکا ہے۔ لوگ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی، تعلیم، صحت سمیت زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

اس وقت کھانے پینے کی چیزوں جس میں آٹا ، چینی ، دالیں ، گھی کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہے کہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ حالانکہ یہ تمام چیزیں پاکستان میں پیدا ہوتی ہے اور پاکستان گندم پیدا کرنے والا 7 واں ، چاول پیدا کرنے والا پانچواں ، دالیں پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے اس کے باوجود ہمارے حکمران عوام پر مصنوعی مہنگائی مسلط کرکے ان سے جینے کا حق چھین رہے ہیں۔

جیسے کھانے پینے کی ان چیزوں کو یہ چاند سے لیکر آتے ہیں۔ بھارت چاند کے بعد سورج کی شعاعوں کو محفوظ کرنے کی جانب جا رہا ہے لیکن پاکستان کے عوام آٹے اور چینی کے لیے سڑکوں پر ہیں۔ ہماری اس تحریک کا مقصد ظلم اور جبر کے خلاف جہاد ہے۔ اور یہ تحریک ہمارے غریب لوگوں کی زندگی میں درپیش مشکلات سے نجات دلانے کے لئے نہ کہ میں نے اپنے بیٹے کو وزیر اعظم بنانا ہے۔

آصف زرداری کو بلاول بھٹو کو اور میاں محمد نواز شریف کو مریم نواز کو اور میاں شہباز شریف کو حمزہ شہباز کو وزیرا عظم یا اعلیٰ منصب پر لانے کی فکر ہوگی ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے قرضے حکمرانوں نے لیے لیکن ان قرضوں کا بوجھ غریب عوام پر ڈال کر سود سمیت وصول کیا جارہا ہے۔ قرضہ لینے والے اشرافیہ کے اثاثے بیچ کر قرضے اتارے جانے چاہئیں۔

نہ کہ غریب لوگوں سے جینے کا حق چھینا جائے اور ان پر پیٹرولیم مصنوعات ، گیس بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کے سامان کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرکے مصنوعی مہنگائی کے ذریعے لوگوں کے منہ سے نوالا چھینا جائے تکالیف غریب عوام بھگتے اور اشرافیہ ان کے بچے قوم کے پیسوں پر عیاشیاں کریں۔ حکمرانوں نے 4 کھرب 30 ارب 35 کروڑ روپے بینکوں سے لئے جانے والے قرضے معاف کرائے حالانکہ ان پر عوام کا حق تھا۔

لیکن غریب شہری کو 200 روپے کے بل ادا نہ کرنے کی پاداش میں تشدد کا نشانہ بناکر میٹر اتارا جاتا ہے ۔ ہماری جماعت ایسے غریب اور مظلوم لوگوں کا ساتھ دیتے ہوئے میٹر اتارنے والوں کا راستہ روکے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی تینوں جماعتوں میں اشرافیہ، جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ دار ملک اور قوم کو اس نہج تک پہنچانے کے ذمہ دارہیں۔

35 سال جرنیلوں نے اور 35 سال ان جماعتوں نے رہنے والوںنے حکومت کی لیکن ملک اور قوم کا نہیں سوچا صرف اپنے مفاد کو عزیز جانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں سال میں ایک بجٹ جبکہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں 365 روز بجٹ پیش کیے جاتے ہیں تاکہ غریب عوام کو لوٹا جائے اور اپنی شاہ خرچیاں اور عیاشیوں کے لئے سامان پیداکیا جائے۔ ملک میں سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے اس کے لئے ’ہائیڈرل ‘’ونڈ‘ اور سولر سمیت جوہری توانائی سے لاکھوں میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔

لیکن مہنگا تیل خرید کر عوام کے لیے بجلی مہنگی پیدا کی جاتی ہے۔سستے داموں بجلی پیدا کرکے پاکستان میں 5 روپے فی یونٹ بجلی مل سکتی ہے لیکن حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت عوام کو56 روپے فی یونٹ بجلی مل رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری اقتدار کے حصول کیلئے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کررہے ہیں یہ لیول پلیئنگ فیلڈ ملک کے غریب لوگوں کے لئے ہونا چاہئے تاکہ انہیں آگے بڑھنے کا موقع مل سکے۔

اور ہمارا بھی یہی مطالبہ ہے کہ غریب لوگوں کو لیول پلینئگ فیلڈ کی سہولت دی جاے تاکہ وہ اس سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے ملک اور قوم کی خدمت کے لئے آگے بڑھیں۔ نگران حکومت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں، گیس ، بجلی اور کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے کو واپس لے ورنہ ہماری تحریک جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اور سابق حکومت نے عوام کو سہولت فراہم کرنے کی بجائے اپنے نیب کے کیسز ختم کرائے اور سودی نظام کے خاتمے کی بجائے اس کو 17 فیصد سے بڑھا کر 22.7 فیصد تک بڑھا دیا ہے۔

اور موسیقی کی قانون سازی کی گئی کیونکہ انہیں اپنے اقتدار سے غرض تھی انہیں ملک اور قوم سے کوئی سروکار نہیںتھا۔ اس موقع پر صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی، مولانا ہدایت الرحمن، ڈاکٹر عطاء الرحمان، ڈاکٹر نوید مگسی ، مولانا محمد افضل، حافظ نور علی، نواب ظفر اللہ شاہوانی سمیت دیگر رہنمائوں نے کہا کہ بلوچستان کی سرزمین سے سونا، چاندی ، گیس سمیت معدنیات کے ذخائر نکلتے ہیں ساحل سمندر ہونے کے باوجود بلوچستان کے لوگ سب سے زیادہ غریب اور بے روزگار ہیں۔

کیونکہ اشرافیہ نے ہمیشہ وسائل کو لوٹ کر ملک اور قوم کو نقصان پہنچایا ہے آج عوام تکلیف اور اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جس طرح جنرلوں نے ملک کو دو لخت کیا اور انصاف فراہم کرنے والے اداروںنے بھی قوم کو انصاف نہیں دیا جس کی وجہ سے عوام میں احساس محرومی بڑھا اور بلوچستان کے لوگوں کو ان کے حق سے محروم کرکے بے روزگاری اور پسماندگی کی جانب دھکیلا گیا لوگ مایوس ہوکر پہاڑوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے ہمیں اپنی پالیسیوں کو بدلنا ہوگا بلوچستان کے لوگوں پر بارڈر ٹریڈ کو سمگلنگ کا نام دیکر بند کرکے ان پر روزگار کے دروازے بند کئے گئے اور آج بلوچستان میں بھوک بڑھتی جارہی ہے اور لوگ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

ملک دیوالیہ ہونے کے قریب اشرافیہ حکمرانوں ، مقتدر قوتوں کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کی بدولت پہنچا ہی