بلوچستان کے تمام مسائل کا حل سیاسی ڈائیلاگ سے ہوگا‘ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر

قوم پرست جماعتوں اور تمام سیاسی لوگ سے بات چیت کرنا ہوگی ،بلوچستان اس وقت سینٹرل ایشیا کا کوریڈور ہے اگر 2018ء کے الیکشن پر لوگوں کو اعتراض تھا تو 2024کے الیکشن پر بھی لوگوں کو اعتراض ہے‘عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں خطاب آئی ایم ایف کے پاس جانا ناکامی کا اعتراف ہے،جس ملک میں عدل کا نظام نہیں ہو گا وہاں ترقی نہیں آسکتی‘ شاہد خاقان عباسی ہم نالائق ہیں اپنے معاملات خود حل نہیں کر سکتے،سیاسی معاملات کو درست کرنے تک مسائل حل نہیں ہوسکتے‘سابق وزیراعظم ہر پاکستانی 2لاکھ 88ہزار کا مقروض ،بجٹ خسارے کوکم کرنے ،ایکسپورٹ بڑھانے کی ضرورت ہے‘سابق مشیر خزانہ ڈاکٹرعائشہ غوث پاشا پاکستانی عوام انتخابی نظام پر اعتماد نہیں کرتے،اگر ہم خود سے آواز بلند کریں تو پھر ہی شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن ہے‘سابق سینیٹر تاج حیدر بلوچستان کے عوام کو انکے صحیح ووٹ کا حق دیا جائے ،مسائل تب حل ہونگے جب صحیح نمائندے ایوان میں آئیں گے ‘ سابق وزیر اعلی عبدالمالک بلوچ اس ملک میں نہ مارشل لاء ہے نہ ہی آمریت ہے ، مگر سر سبز پرچم میں لپیٹی آمریت تو ہے ‘رہنما بلوچستان نیشنل پارٹی اختر مینگل اگر بارہ مئی کے واقعات کو نظر انداز کیا جا سکتا تو نو مئی کے واقعات کو بھی کیا جاسکتا ،آنے والوں دنوں میں این ار او کے ذریعے ریلیف ملے گا ‘خطاب تمام عوامی مسائل کے اختیارات صوبوں کے پاس ہونے چاہئیں ‘چیئرمین پشتونخواہ نیشنل عوامی پارٹی خوشحال خان کاکڑ آئی ایم ایف کے اگلے پروگرام سے قبل آٹھ ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے‘سابق گورنر اسٹیٹ بینک شاہد حفیظ کاردار سیاسی معاملات کے حل کے بغیر معاشی معاملات ٹھیک نہیں ہو سکتے ‘سابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر

اتوار 28 اپریل 2024 20:35

�اہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 اپریل2024ء) ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر نے کہا ہے کہ بلوچستان کے تمام مسائل کا حل سیاسی ڈائیلاگ سے ہوگا ، قوم پرست جماعتوں اور تمام سیاسی لوگ سے بات چیت کرنا ہوگی ،بلوچستان اس وقت سینٹرل ایشیا کا کوریڈور ہے،اگر 2018ء کے الیکشن پر لوگوں کو اعتراض تھا تو 2024کے الیکشن پر بھی لوگوں کو اعتراض ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے اختتامی روز خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ کانفرنس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، سابق مشیر خزانہ ڈاکٹرعائشہ غوث پاشا ،پیپلزپارٹی کے رہنما تاج حیدر ،سابق وزیر اعلی بلوچستان عبدالمالک بلوچ ،بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اختر مینگل ،پشتونخواہ نیشنل عوامی پارٹی کے چیئرمین خوشحال خان کاکڑ ،مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی ،یورپین پارلیمنٹ کے سابق رکن جان چشناہان ،فرحت اللہ بابر ، سابق جج لاہور ہائیکورٹ شاہ خاور ،سابق گورنر اسٹیٹ بینک شاہد حفیظ کاردار ،سابق گورنر اسٹیٹ بینک رضآ باقر اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔

(جاری ہے)

کانفرنس میں ملکی و غیر ملکی شخصیات کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں پینتیس سالہ سیاسی جد وجہد کے بعد یہاں پہنچا ہوں ، میرے لیڈر ہمیشہ قوم پرست جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک فیڈریشن کی حیثیت رکھتا ہے ۔بلوچستان اس وقت سینٹرل ایشیا کا کوریڈور ہے، بلوچستان کے تمام مسائل کا حل سیاسی ڈائیلاگ سے ہوگا ، قوم پرست جماعتوں اور تمام سیاسی لوگوں کو بات چیت کرنا ہوگی ۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ہماری جماعت کی سیاست کا مرکز نواز شریف ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر 2028کے الیکشن پر لوگوں کو اعتراض تھا تو 2024کے الیکشن پر بھی لوگوں اعتراض ہے ۔سابق وزیراعظم و سینئر سیاست دان شاہد خاقان عباسی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی معاملات کودرست کرنے تک مسائل حل نہیں ہوسکتے، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز (آئی ایم ایف) آپ کو زندہ رکھتا ہے، آئی ایم ایف کے پاس جانا اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم ناکام ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہر اکنامک پیرامیٹرز پر آپ زوال پذیر ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ بجٹ میں کیا ریلیف آئے گا آپ نے جو کچھ کرنا ہے قرضہ لے کر کرنا ہے، آپ کی انڈسٹری کی گروتھ ہو ہی نہیں سکتی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم آٹا بانٹنا شروع کر دیتے ہیں جس میں 40فیصد چوری ہوتی ہے، اگر سیاسی معاملات کو درست نہیں کریں گے تو یہ معاملات درست نہیں ہوں گے، کسی خام خیالی میں نہ رہیں، تمام چیزیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں، ہم سب چیزوں سے بے نیاز ہو کر دعوے کرتے ہیں، ان دعوں میں کوئی حقیقت نہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہم نالائق ہیں اپنے معاملات خود حل نہیں کر سکتے، آئی ایم ایف ڈیل سے گروتھ رک جاتی ہے مہنگائی بڑھتی ہے، آئی ایم ایف ہمارے لیے آئی سی یو ہے، 24ویں بار آئی سی یو جا رہے ہیں، اس سے مرض ٹھیک نہیں ہوگا۔شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ ایک ڈالر کی امداد دکھائیں جس سے کوئی چیز بنائی ہو جو ایکسپورٹ کی ہو، بیرونی سے بڑا مسئلہ اندرونی قرض بن گیا ہے۔

اس وقت ہر اکنامک پوائنٹ پر ہم نیچے جا رہے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ سنا ہے اس بار آئی ایم ایف ٹارگیٹ بیس فنڈز جاری کرے گا۔ جس ملک میں عدل کا نظام نہیں ہو گا وہاں ترقی نہیں آسکتی، نظام عدل درست ہونے تک ملک آگے نہیں چل سکتا اور کہیں سے سرمایہ کاری نہیں آئے گی۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جس ملک میں سیاسی انتشار ہوگا اس ملک کی معیشت کمزور ہو گی، وفاقی حکومت کی جو مجموعی آمدن ہے وہ اس کا سود بھی پورا نہیں کر سکتی، ڈالر کی قیمت میں کمی کسی صورت ممکن نہیں ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ بجٹ میں عوام کو ریلیف نہیں دے سکتے مہنگی بجلی خرید کر آپ کسی بھی سیکٹر میں کام نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائے کم کرنیکی ضرورت ہے۔سابق مشیر خزانہ ڈاکٹرعائشہ غوث پاشا کا تقریب سے خطاب میں کہنا تھا کہ ہمیں بجٹ خسارے کوکم کرنے اور ایکسپورٹ بڑھانے کی ضرورت ہے۔اس وقت ہر پاکستانی دو لاکھ اٹھاسی ہزار کا مقروض ہے ، ہم نے بطور نیشن آمدن کم اور اخراجات زیادہ کر لئے ہیں ، جب ادائیگی ڈالر میں کرنی تو ڈالر چھاپ نہیں سکتے کمانے ہوتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے بارہ سالوں میں ماضی کی نسبت دوگنا قرضہ لیا ہے ،آئی ایم ایف کو آئندہ تین سال میں 60 بلین ڈالر ادا کرنے ہیں ،بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے قرض لیا جاتا ہے ، آمدن کو بڑھانے کے لیے ایکسپورٹ کو بڑھانا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ پبلک کو ریلیف کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کے پاس ہے ، یہ بات باعث شرمندگی ہے کہ دنیا آگے اور ہم پیچھے جا رہے ہیں ، صوبوں کو اٹھارویں ترمیم کے مطابق فنکشنل کرنا ہو گا۔

پیپلزپارٹی کے رہنما سابق سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ پاکستانی عوام انتخابی نظام پر اعتماد نہیں کرتے۔بے نظیر بھٹو نے پولنگ اسٹیشن میں جا کر ووٹ کاسٹ کرنے پر زور دیا۔تاج حیدر نے کہا کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کے نظام میں تبدیلی لانے کے لیے میٹنگز کیں، پی ٹی آئی الیکشن نظام میں تبدیلی کا معاملہ ایوان میں پیش نہ کرسکی۔انہوں نے کہا کہ 40فیصد آبادی 18سال سے کم عمر ہے، پولنگ اسٹیشن میں ووٹرز لسٹ آویزاں ہونی چاہئیں۔

انہوںنے کہا کہ الیکشنز ایکٹ 2017 بہت بڑی کامیابی تھی مگر پی ٹی آئی حکومت نے اس میں 100 سے زائد ترامیم کیں۔کسی امیدوار کی نااہلی اور اہلیت کے لئے ایک بہترین طریقہ کار ہونا چاہئے، پوسٹل بیلٹ کو ریگولرائز کرنے اور ووٹرز لسٹوں کو عوام کے لئے جاری کیا جانا چاہئے،مردم شماری میں ہٹ دھرمی سے پاکستان کے ووٹرز کی تعداد کو کم کیا گیا، اگر ہم خود سے آواز بلند کریں تو پھر ہی شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن ہے۔

سابق وزیر اعلی بلوچستان عبد لمالک بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے عوام کو ان کے صحیح ووٹ کا حق دیا جائے ، بلوچستان کے مسائل تب حل ہونگے جب صحیح نمائندے ایوان میں آئیں گے ۔ اس الیکشن میں پاکستان کے عوام کو ووٹ کاسٹ کرنے کا حق نہیں تھا ،اس بار الیکشن میں بولیاں لگیں ، میرے مقابلے میں امیدوار مقامی تھا بھی نہیں لیکن اس کو چالیس ہزار ووٹ دیکر کامیاب کروایا گیا ۔

نواز شریف اور زرداری کو کہا ان کو ٹکٹ کیوں دیتے ہو جو آپ کے ہیں نہیں ۔ہماری دس نشستیں فارم 47کے ذریعے جتوائی گئیں ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ آل پاکستان پارٹی کانفرنس میں مذاکرات پر بات چیت ہوئی، جب میں بات چیت کے لئے گیا تو اس دوران ہی ایک طبقے کو اچھا نہیں لگا تو وہ معاملہ رک گیا ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اختر مینگل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی بار میری وجہ سے روزگار افراد بے روزگار ہوگئے تھے ۔ اس ملک میں نہ مارشل لا ہے نہ ہی آمریت ہے ، مگر سر سبز پرچم میں لپیٹی آمریت تو ہے ،75سال ہو گئے لیکن ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ بات کس سے کرنی ہے ، آج پاکستان کی تمام پارٹیاں قوم پرست ہیں ۔مسلم لیگ (ن) جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگانے والی ہے ،پیپلز پارٹی سندھ کی پارٹی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈا پور کی باتوں سے ظاہر ہوا کہ وہ کے پی کے کی قوم پرست پارٹی بن گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ آنے والوں دنوں میں این ار او کے ذریعے ریلیف ملے گا ، اگر بارہ مئی کے واقعات کو نظر انداز کیا جا سکتا تو نو مئی کے واقعات کو بھی کیا جاسکتا ہے ، ہمارے بچوں کو اسلام آباد میں پر امن احتجاج کی اجازت نہیں دی جاتی ۔پشتونخواہ نیشنل عوامی پارٹی کے چیئرمین خوشحال خان کاکڑ نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے ایشو اس وقت اہم مسئلہ ہے ، پاکستان ایک فیڈریشن ہے تو قومی بنیادوں پر صوبے بننے چاہئیں ، تمام عوامی مسائل کے اختیارات صوبوں کے پاس ہونے چاہئیں ۔

انہوں نے کہا کہ وفاق کے پاس سکیورٹی ، خارجہ اور مواصلات کے اختیارات ہونے چاہئیں ۔ایوان بالا سینیٹ ہے تو اس کو اختیارات دینے چاہئیں ، وزیر اعظم سینٹ اور بجٹ سینٹ سے پاس ہونا چاہیے۔مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لئے 2017 الیکشنز ایکٹ بہت معرکہ تھا، الیکشن ریفامز پر کام 2014 میں شروع ہوا تھا اس وقت دھرنے بھی ہو رہے تھے، 8 قوانین کو اس ایکٹ میں ضم کر کے الیکشن کمیشن کو کافی بااختیار بنایا گیا، الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کو بھی پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگز میں زیر غور لایا گیا، ای وی ایم دنیا میں 8ممالک استعمال کر رہے جبکہ 9ممالک ای وی ایم چھوڑ چکے ہیں، جرمنی، فرانس، آئرلینڈ، نیدرلینڈز، عراق سمیت دیگر ممالک ای وی ایم کا استعمال ترک کر چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کیساتھ انکا امیدوار کہاں سے ہو گا اس پر بھی غور کی ضرورت ہے۔یورپین پارلیمنٹ کے سابق رکن جان چشناہان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں عاصمہ کی زندگی میں ان سے نہیں مل سکا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں جو ہو رہا ہے اس میں امن ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے 2002 میں مجھے الیکشن آبزرویشن کے لئے بلایا تھا، پاکستان میں 2002 میں ایک یرغمالی ماحول تھا، پاکستانی حکام کی جانب سے ہمیں کہا گیا کہ ہم الیکشن کی آبزرویشن کے لئے جلدی آ گئے ہیں، پاکستان میں الیکشن آبزرویشن کیلئے کوئی خاص معاونت نہیں کی گئی تھی۔

سابق گورنر اسٹیٹ بینک شاہد حفیظ کاردار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آج جس جگہ کھڑے ہیں تو اس کے ہم خود ذمہ دار ہے ، پچھلے 45سال ہماری طرز حکومت ایسی ہی رہی ، ہم خسارے کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں ، ہمارے روپیہ پر دبائو بھی اسی وجہ سے رہا ہے ، پیسے اکٹھے کرنے سے زیادہ ہمارے اخراجات زیادہ ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے باوجود 43 ڈویژن کام کر رہے ہیں۔

پنشن کے بقایا جات پچیس کھرب تک ہیں ،حکومت کے ایک ہزار چار سو سے زائد ترقیاتی منصوبے چل رہے ہیں ،تمام منصوبوں کو ختم کرنے میں چودہ سال لگیں گے ۔انہوں نے کہا کہ اسمگلنگ ہم سے رکتی نہیں ،روزانہ چار ہزار ٹن تیل اسمگل ہوتا ہے ، ہمارے اندرونی اور بیرونی قرضے حکومتی آمدن سے چھ سو ستر فیصد زیادہ ہیں ، آئی ایم ایف کے اگلے پروگرام سے قبل آٹھ ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے ، آئی ایم ایف تو سوچ رہا اگلے دیئے تو وہ واپس کیسے کرنے ہیں۔

سابق گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ سیاسی معاملات کے حل کے بغیر معاشی معاملات ٹھیک نہیں ہو سکتے ۔ہمارا خسارہ کیا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے ، 2007سے ہمارا قرضہ بڑھتا گیا ، بجٹ خسارے کی تمام سیاسی جماعتیں اور حکومتیں ذمہ دار ہیں ، قرضہ اس لئے لیا کہ اخراجات آمدن کے برابر نہیں ہیں ۔

ہمارے خسارے کا یہ ہے کہ ہمارے ہیلتھ انڈیکیٹر خطر ناک حد تک پہنچ چکے ہیں ، پاکستان میں ایک ہزار بچوں میں سے 62پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں ،پاکستان میں ہیپاٹائٹس سات فیصد اور بنگلہ دیش میں زیرہ فیصد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 17سال سے قرضہ بڑھ رہا تو اس میں حکومت کا مسئلہ ہے ،خسارے کو کم کرنا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں ، ایس آئی ایف سی باہر سے سرمایہ لانے کے ساتھ تعلیم پر توجہ دیں ، خسارہ کم کرنے کی حکمت عملی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔