ؔملک میں سات دہائیوںسے رائج کسی بھی آئین ، معاہدہ پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے،نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی

بدھ 4 ستمبر 2024 22:20

‘/کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 04 ستمبر2024ء) سینئر سیاست دان وسابق سینیٹر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ ملک میں سات دہائیوںسے رائج کسی بھی آئین ، معاہدہ پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے، آمریت ونام، نہاد جمہوریت میں ون یونٹ، نظریہ ضرورت، ایل ایف او ، 58 ٹوبی کے بعدفارم 47 کی نئی اصطلاح متعارف کرائی گئی، وفاقی وزیر داخلہ تین چار ایس ایچ اوز کرکٹ ٹیم میں بھی بھرتی کریں تاکہ بنگلہ دیش سے تو میچ جیت جائیں، تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کی بجائے اپنے مطالبات پارلیمنٹ میںپیش کرکے اس پر بحث کرے تاکہ عوام کو پتہ چلے کے ان کے مطالبات کیا ہیں، ملک میں پارلیمنٹ فارم 47 کے تحت چل رہی ہے بحرانوں کے خاتمہ کیلئے شفاف انتخابات کے ذریعے آئینی حکومت تشکیل دی جائے اور ملک میں آئین کو توڑنے اوروزرائے اعظم کو برطرف کرنے کے واقعات کی تحقیقات کیلئے ایک نیشنل کمیشن تشکیل دیا جائے ، یہ بات انہوںنے گزشتہ روزبلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز میں منعقد ہ مزاکرے سے خطاب کرتے ہوئے کہی ،نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے مزاکرے سے خطاب میں تاریخی حوالے دیتے ہوئے مزید کہا کہ 1940ئ کی قرار داد میں مسلم آبادیوں کو اس ملک کا فیڈریٹنگ یونٹ قرار دیاگیا اور 1947ئ میں جب ملک کی بنیاد رکھی گئی تو 47 فیصد رقبہ پرمشتمل بلوچستان ایک معاہدہ کے تحت اس ملک کا حصہ بنا تاہم ملک کے پہلے گورنر جنرل نے 1940ئ کی قرار داد کے برعکس ملک میں ون یونٹ قائم کیا حالانکہ 1940 ئ کی قرار داد میں قومی اکائیوں کو اس ملک کا فیڈریٹنگ یونٹ قرار دیا گیا تھاجس کی ابتدائ ہی میںمخالفت کی گئی اور ایک عبوری آئین کے تحت ملک کو چلایا گیا انہوںنے کہاکہ 1949ئ میں ایک آئین ساز اسمبلی تشکیل دی گئی اور اس آئین ساز اسمبلی میں قرار اداد مقاصد پیش کی گئی جس میں آئین کی تشکیل کا فریم ورک بنایا گیا تھا قرار داد مقاصد میں یہ لکھا گیا تھاکہ پاکستان کو ایک فیڈرل ری پبلک ملک بنایا جائیگااوراس میں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی اس قرار داد مقاصد کو ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اسمبلی میں پیش کرکے آئین سازی کے عمل کا آغاز کرکے کوشش کی کہ ملک کو آئین کے تحت چلایا جائے تاہم ان کے قتل کے بعد یہ سارا عمل رک گیا اور1947 ئ سی1954ئ تک کی اسمبلی کو توڑ دیا گیا ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل کوئی حادثہ یا واقعہ نہیں تھا ،انہوںنے کہاکہ یکم مارچ 1962ئ کو بنے والی آئین سازی اسمبلی نے عدالت کے ذریعہ نظریہ ضرورت ایجاد کیا اور 1956ئ میں آئین اپنے حقیقی شکل میں پہنچا تاہم اس آئین کو ڈھائی سال تک بھی چلنے نہیں دیا گیا ایوب خان نے ملک کو ڈنڈے کے ذریعے چلایا اور بنیادی جمہوریت کا ڈرامہ رچا کر کونسلروں کے ذریعے ریفرنڈم کراکے خود کو صدر منتخب کرایا تاکہ ملک کو غیر مستحکم رکھا جائے اس دوران 1962ئ میںایک عمرانی معاہدہ تشکیل دیا گیا تاہم وہ نہیں چل سکا 1969ئ سے 1971 تک جنرل یحیی خان ملک پر مسلط ہوے اور ایل ایف او ایجاد کیا 1971ئ میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میںعوامی طاقت ڈھاکہ منتقل ہورہی تھی اس کو روکنے کیلئے جنگ چھڑ گئی اور اس کے نتیجے میں ملک کا ایک بہت بڑا حصہ جدا ہوا، 1972ئ میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں ایک عبوری آئین تشکیل دیا گیا تاکہ ملک کو ایک فریم ورک کے تحت چلایا جائے اسمبلی نے دو تہائی اکثریت سے آئین تشکیل دیا جس میں پاکستان کو ایک فیڈرل ری پبلک قرار دے کر قومی اکائیوں کے حقوق انسانی حقوق کا تعین کیا گیا 1973ئ سے لیکر 1977ئ تک کوشش کی گئی کہ ملک کو اس آئین کے تحت چلایا جائے تاہم 1977ئ میں جنرل ضیائ الحق نے مارشل لا نافذ کرکے 1988ئ تک اقتدار پر قابض رہے اس دوران آٹھویں ترمیم کی گئی اور آٹھویں ترمیم میں 58 ٹو بی کی شق شامل کرکے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کی حکومتوں کو دو دو مرتبہ ختم کیا گیا محمد خان جونیجو کی حکومت کا خاتمہ بھی 58 ٹوبی کے تحت کیا گیا تاکہ ملک کو غیروں کے مفادات کے تحت چلایا جائے، 2000ئ سے 2008ئ پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرکے گھر بیٹھے آئین ایجاد کیا اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں نے تمام غیر آئینی احکامات کو قانون کا سہارا دیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ 15 مئی 2006ئ کوپاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن متحرمہ بینظیر بھٹو اور مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف طویل سیاسی رقابت کے بعد ایک صفحے پر اکٹھے ہوئے اور جمہوری قوتوں کے درمیان میثاق جمہوریت تشکیل پائی تاکہ 1973 کے آئین کو اس کے اصل حالت میں بحال کیا جائے 15 مئی 2006ئ کو ہونے والے اس اجلاس میں میں نے بلوچستان کے معاملات پر ایک قرار داد پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیااور ملک واپسی پر 27 دسمبر کو ایک اور وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو جو اس ملک میں آئینی راج قائم کرنا چاہتی تھی ان کو شہید کیا گیا۔

انہوںنے کہاکہ 2008ئ میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں مرکز اور صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور اس دوران قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 1973ئ کے آئین کو اس کے اصل شکل میں دوبارہ بحال کرنے کیلئے قرار دادیں پاس ہوئیں اور آئین کو دوبارہ اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کیلئے میاںرضائ ربانی کی سربراہی میں 27رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی کمیٹی نے اٹھارویں آئینی ترمیم کرکے جنرل ضیاالحق کے دور میں ہونے والی 8ویں ترمیم کے تحت 1973 ئ کے آئین میں 90 سے زیادہ آرٹیکلز جو چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی ان میں دوبارہ ترامیم کرکے 1973ئ کے آئین کو اس کی اصل حالت میں بحال کرکے چور دروازے سے پارلیمان کو تحلیل کرنے اور مستقبل میں کسی بھی مارشل لا کا راستہ روک کر صدر کے پاس موجود تمام ایگزیکٹو اختیارات پارلیمان کو منتقل کرکے وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر قومی وحدتوں کو دیئے ،قومی اکائیوں کے درمیان موجود وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا خاتمہ کرکے صوبائی خود مختاری کو یقینی بنایا تاہم آئین پر عملدرآمد کی بجائے ملک میں عدالتوں کے ذریعے وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا عمل شروع کرکے یوسف رضاء گیلانی اور نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا۔

انہوںنے کہاکہ سیاسی جماعتیں با لخصوص وہ جماعت جو کل پرسوں سے یہ کہہ رہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کو تیار ہے میرا ان کو مشورہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہی تو ملک کو یہاں تک پہنچایا ہے تحریک انصاف کو چائیے کہ وہ اسٹلیشمنٹ سے بات کرنے کی بجائے اپنے مطالبات پارلیمنٹ میںپیش کرکے اس پر بحث کرے تاکہ عوام کو پتہ چلے کے ان کے مطالبات کیا ہیںملک کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کا مطلب چور دروازے سے پارلیمنٹ تک پہنچنا ہے۔

انہوںنے کہاکہ ملک میں پارلیمنٹ فارم 47 کے تحت چل رہی ہے بحرانوں کے خاتمہ کیلئے شفاف انتخابات کے ذریعے آئینی حکومت تشکیل دی جائے اور ملک میں آئین کو توڑنے اوروزرائے اعظم کو برطرف کرنے کے واقعات کی تحقیقات کیلئے ایک نیشنل کمیشن تشکیل دیا جائے ، انہوںنے کہاکہ ملکی معاملات کو بہتری کی طرف لے جانے کیلئے ووٹ کے تقدس کو پامال کرنے کا گھنا?نا عمل بند کیا جائے۔

نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہاکہ آئین میں نائب وزیراعظم کا عہدہ کہیں نہیں صرف رشتہ داری نبھائی جارہی ہے۔ انہوںنے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ اور چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو میرا مشورہ ہے کہ وہ قومی کرکٹ ٹیم میں بھی تین چار ایس ایچ اوز بھرتی کریں تاکہ قومی کرکٹ ٹیم کم از کم بنگلہ دیش سے تو میچ جیت جائے۔