صدر زرداری کی تقریر سیاسی نہیں بلکہ اتفاق کیلئے تھی لیکن دوسری طرف مطالبہ تھا کہ قیدی 804 کو رہا کرو

قیدی 804 کے سوا بھی کے پی حکومت کی کچھ ذمہ داریاں ہیں، ہر سیاسی جماعت کو ان دہشتگردوں کو مشترکہ دشمن قرار دینا چاہیے،دہشتگردوں کو غیرملکی طاقتوں کی مالی ولاجسٹک حمایت حاصل ہے۔چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 13 مارچ 2025 21:27

صدر زرداری کی تقریر سیاسی نہیں بلکہ اتفاق کیلئے تھی لیکن دوسری طرف ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 13 مارچ 2025ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آج قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی پاکستان میں دہشت گردی کے ارتقاء کی گواہ ہے۔ چاہے وہ مذہبی دہشت گردی ہو، علیحدگی پسند/ قوم پرستانہ دہشت گردی ہو یا سیاسی تشدد، پیپلز پارٹی نے نہ صرف اس کی سختی سے مخالفت کی بلکہ پوری قوم کے ساتھ مل کر عظیم قربانیاں بھی دی ہیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ وہ محض ایک سال کے تھے جب وزیراعظم ہاؤس میں ان کے اغوا کی کوشش کی گئی۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنی پوری زندگی مذہبی اور لسانی دہشت گردوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا اور بالآخر انہوں نے شہادت کو گلے لگا لیا۔ پھر یہ دہشت گردی پورے ملک میں پھیل گئی۔

(جاری ہے)

اس مشکل دور میں پوری قوم یکجا ہوگئی، چاہے وہ شہری ہوں، فوجی ہوں، پولیس اہلکار ہوں یا دیگر فرنٹ لائن دفاعی ادارے۔

اس وقت بھی ایوان نے ایک مشترکہ دشمن کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کیا، حالانکہ ہر سیاسی جماعت کی اپنی رائے تھی۔ اس وقت بھی پی ٹی آئی احتجاجی سیاست میں مصروف تھی اور تقسیم عروج پر تھی۔ ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی عوام نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی، چیئرمین بلاول نے کہا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے خبردار کیا کہ اب پھر وہی دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے اور ہم پہلے سے زیادہ کمزور پوزیشن میں ہیں۔

ہم وہی قومی اتحاد اور اتفاق رائے نہیں رکھتے جو پہلے تھا، اور دہشت گرد و ملک دشمن عناصر اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا سے بلوچستان تک مسلسل حملے ہو رہے ہیں، اور ہر سانحہ پچھلے سے زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ دہشت گردوں کا کوئی نظریہ یا مؤقف نہیں ہوتا، اور مذہبی دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا۔ ان کا مقصد صرف دہشت پھیلانا اور معصوم جانوں کا قتل عام کرنا ہے۔

یہ مذہبی دہشت گرد کسی مذہبی ریاست کے خواہاں نہیں، اور نہ ہی یہ نام نہاد بلوچ دہشت گرد کسی حقوق کے متلاشی ہیں۔ ان کا اصل مقصد پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے، اور انہیں غیر ملکی طاقتوں کی مالی و لاجسٹک حمایت حاصل ہے۔ چیئرمین بلاول نے سوال اٹھایا کہ معصوم شہریوں کا جغرافیائی سیاست یا بین الاقوامی معاملات سے کیا تعلق ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان واقعات کی مذمت کرنا آسان ہے، لیکن اصل ذمہ داری عملی اقدامات اٹھانے کی ہے۔

پاراچنار سے بولان تک، یہ لوگ پاکستانی عوام کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت کو ان دہشت گردوں کو مشترکہ دشمن قرار دینا چاہیے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ وہ وزیر دفاع کی جانب سے وزیر اعلیٰ بلوچستان کی کوششوں کی تعریف کرنے کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے صوبوں، چاہے وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ہوں یا خیبرپختونخوا کے، کو غیر مشروط حمایت فراہم کرنی چاہیے تاکہ اس لعنت کا خاتمہ کیا جا سکے۔

چیئرمین بلاول نے کہا کہ قومی ایکشن پلان وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں بنایا گیا تھا، اور وزیر اعظم شہباز شریف بھی نیا قومی ایکشن پلان تشکیل دے سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ہم نے مذاکرات، مزاحمت اور ترقی کی پالیسی دی۔ ہم نے عوام کی توقعات کو 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کی صورت میں پورا کیا۔ ہم نے ان لوگوں سے جنگ کی جو انسانیت اور ہمارے آئین کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔

ہم نے انہیں شمالی و جنوبی وزیرستان، کراچی، بلوچستان اور فاٹا میں شکست دی۔ اور ہم انہیں دوبارہ شکست دے سکتے ہیں، چیئرمین بلاول نے کہا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہمیں بلوچستان کے عوام کے مطالبات کا علم ہے۔ وہ اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ مسائل اپنی جگہ، لیکن ان کا سب سے بڑا مطالبہ جینے کا حق حاصل کرنا ہے۔ ہمیں ہر ممکن طریقے سے دہشت گردی کو ختم کرنا ہوگا، لیکن اس دوران بے گناہ افراد کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔

اگر اس معاملے پر اتفاق رائے قائم نہ ہوا تو، بطور سابق وزیر خارجہ، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان مخالف قوتیں مزید طاقتور ہو جائیں گی۔ بلوچستان میں لگی آگ پھر پورے ملک اور دنیا تک پھیل جائے گی۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ پیپلز پارٹی دہشت گردی کے خلاف مذمت میں متحد ہے، لیکن ایک مشترکہ اور متفقہ ردعمل پر زور دیتی ہے۔ صدر زرداری کے پارلیمنٹ میں خطاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیئرمین بلاول نے کہا کہ امید تھی کہ ان کی تقریر کو اسی تحمل سے سنا جائے گا جس سے اپوزیشن لیڈر کی تقریر سنی گئی۔

یہ تقریر محض ایک سیاسی گفتگو نہیں تھی، بلکہ اتحاد کا پیغام تھی۔ صدر زرداری نے واضح کیا کہ سیاست لین دین کا فن ہے، اور اس کے لیے بہترین جگہ قومی اسمبلی ہے۔ ان کی گفتگو میں معیشت، دہشت گردی، خارجہ پالیسی اور پانی جیسے اہم مسائل شامل تھے۔ انہوں نے ملکی اقتصادی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ بدقسمتی سے، جن کے لیے یہ پیغام تھا، وہ اسے سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔

صدر زرداری نے عالمی اور علاقائی مسائل پر بھی بات کی، جن میں فلسطین اور کشمیر کے معاملات شامل تھے۔ بطور وفاق کے نمائندے، چیئرمین بلاول نے کہا کہ صدر زرداری نے نہری منصوبوں کی مخالفت کی۔ پورے ملک نے دیکھا کہ اس دن پارلیمنٹ میں کس طرح مختلف پیغامات دیے گئے۔ ایک طرف صدر زرداری نے مثبت پیش رفتوں اور ضروری تحفظات کا اظہار کیا، جبکہ دوسری طرف صرف ایک ہی مطالبہ تھا— قیدی 804 کی رہائی۔

جب صدر زرداری نے فلسطینی اور کشمیری عوام کے دکھوں کا ذکر کیا، تو جواب میں صرف اس قیدی کی رہائی کے نعرے لگائے گئے۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی ہمیشہ وہی پالیسی رہی ہے جو اتفاق رائے سے بنی ہو، لیکن وہ ان منصوبوں کی حمایت کرتی ہے جو زرعی ترقی کے حق میں ہوں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اپوزیشن اپنے لیڈر کی رہائی کے لیے جذباتی ہو سکتی ہے، لیکن یہ ملک مختلف نظریات کے حامل لوگوں کا ہے، جو ایک قیدی کی رہائی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت ہونے کے ناطے، ان کی دیگر ذمہ داریاں بھی ہیں۔ وہ کچھ توجہ دیگر اہم مسائل پر بھی دے سکتے ہیں، جیسے کہ دہشت گردی، بیروزگاری اور خیبرپختونخوا میں ترقی کی کمی۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ملک کے مفاد میں اپنی ذاتی ترجیحات کو پس پشت ڈال دینا چاہیے۔