اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جون2025ء)سابق اسپیکر قومی اسمبلی و رکن قومی اسمبلی اسد قیصر نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے ایران پر جو حملہ کیا ہے اور ایران نے جس طرح جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنا حقِ دفاع استعمال کیا ہے، ہم اس میں اپنے ایرانی بھائیوں کے ساتھ ہیں اور ان کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔
اس موقع پر ایران کا ساتھ دینا ہمارا اخلاقی فرض ہے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں پر بدترین ظلم و بربریت کی انتہا کرتے ہوئے بچوں، عورتوں، بزرگوں، اسپتالوں اور اسکولوں تک کو نہیں چھوڑا۔ اس نسل کشی پر دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور جمہوریت کی دعویدار ریاستیں مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر امتِ مسلمہ کی خاموشی انتہائی معنی خیز اور افسوسناک ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومتِ پاکستان فوری طور پر اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کا ہنگامی اجلاس بلانے کے لیے مثر سفارتی کوششیں کرے۔اسد قیصر نے کہا کہ مجھ سے قبل خواجہ آصف نے لمبی چوڑی تقریر کی جس میں انہوں نے اشاروں، کنایوں اور براہ راست ہمارے قائد عمران خان پر تنقید کی۔ عمران خان وہ لیڈر ہیں جنہوں نے پاکستان کو عالمی سطح پر عزت دی، ورلڈ کپ جتوایا، شوکت خانم اسپتال اور جدید تعلیمی ادارے قائم کیے، اور سب سے بڑھ کر قومی سلامتی و خودمختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
2019 میں جب بھارت نے پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان کے خلاف جارحیت کی تو عمران خان نے پارلیمان میں واضح اعلان کیا کہ اگر بھارت حملہ کرے گا تو ہم جواب پہلے دیں گے، اور دنیا نے دیکھا کہ ہم نے منہ توڑ جواب دیا۔انہوں نے خیبر پختونخوا کے مالیاتی مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے انضمام کے بعد صوبے کا این ایف سی ایوارڈ میں حصہ 14 فیصد سے بڑھا کر 19 فیصد ہونا چاہیے تھا، لیکن آج تک کوئی حتمی پیش رفت نہیں کی گئی۔
میاں شہباز شریف جب خیبر پختونخوا آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے مد میں آپ کو ایک فیصد اضافی حصہ ملتا ہے، لیکن وہ 4.84 فیصد سالانہ حصہ، جو 381 ارب روپے بنتا ہے، وہ تاحال نہیں دیا جا رہا۔ اسی طرح خیبر پختونخوا کو سالانہ ہائیڈل پرافٹ کی مد میں ملنے والی اربوں روپے کی رقم بھی روکی گئی ہے۔ کیا صرف اس لیے کہ خیبر پختونخوا کے عوام نے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا ہے، ان کے آئینی حقوق ضبط کر لیے جائیں اسد قیصر نے صوابی اور دیگر علاقوں میں بجلی کی بدترین صورتحال پر کہا کہ اس عید پر خیبر پختونخوا کے عوام خصوصا صوابی کے عوام کے لیے عید عذاب بن گئی۔
چوبیس گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے بجلی دی گئی، جس کی وجہ سے قربانی کا گوشت خراب ہوا اور عوام شدید اذیت میں مبتلا رہے۔ حکومت کی طرف سے بارہا اعلانات ہوئے کہ عید پر لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی، مگر زمینی حقائق اس کے برعکس تھے۔ بجلی کا نظام چونکہ وفاقی دائرہ اختیار میں آتا ہے، اس لیے احتجاج کا رخ ہمارے گھروں اور وزرا کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔ فورس شیڈنگ NTDC کے ذریعے کی جاتی ہے اور موجودہ حکومت نے بجلی کے نظام میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی۔
عمر ایوب خان کے دور میں دو نئے گریڈ اسٹیشنز کے لیے فنڈز مختص کیے گئے، لیکن موجودہ حکومت نے پورے خیبر پختونخوا کے لیے PSDP میں صرف 55 کروڑ روپے رکھے، جن کے اخراجات بھی مشکوک ہیں۔ ہم آئینی حق مانگ رہے ہیں، اور اگر حالات جوں کے توں رہے تو ہم اپنے عوام کے ساتھ موٹر وے پر دھرنا دیں گے۔فاٹا کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انضمام کے بعد وفاق نے اپنی ذمہ داریاں خیبر پختونخوا پر ڈال دیں، مگر وسائل کی تقسیم میں ناانصافی جاری ہے۔
فاٹا کے لوگ دہائیوں سے جنگ، دہشت گردی اور ہجرت کا سامنا کرتے آ رہے ہیں۔ اب ان پر 10 فیصد مجوزہ ٹیکس عائد کرنا ظلم کے مترادف ہے۔ ہم وزیر خزانہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مجوزہ ٹیکس کو واپس لیا جائے اور فاٹا کے لیے خصوصی ترقیاتی اقدامات کیے جائیں۔خطاب کے اختتام پر اسد قیصر نے تمباکو کے کاشتکاروں کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ جس علاقے سے میں، شہرام ترکئی، مردان، چارسدہ اور نوشہرہ کے ممبران اسمبلی تعلق رکھتے ہیں، وہ تمباکو کی پیداوار کا مرکز ہیں۔
پاکستان میں سالانہ تقریبا 110 ملین کلو گرام تمباکو پیدا ہوتا ہے، جس کا 55 فیصد صرف صوابی میں اگایا جاتا ہے۔ تقریبا 70 ہزار خاندان اس فصل سے وابستہ ہیں، اور حکومت کو اس شعبے سے سالانہ 300 ارب روپے آمدن حاصل ہوتی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے ڈائریکٹرز کا تقرر تاحال نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے تمباکو کی کم از کم قیمت مقرر نہیں ہو سکی اور کمپنیاں کسانوں کا استحصال کر رہی ہیں۔ میں خواجہ آصف صاحب کو بتانا چاہتا ہوں کہ میرا تمباکو کے کاروبار سے کوئی ذاتی مفاد نہیں، لیکن میں اپنے حلقے کے عوام کے روزگار کا تحفظ ہر فورم پر کرتا رہوں گا۔