کل جماعتی حریت کانفرنس اور کشمیر لبریشن سیل کی مشترکہ کانفرنس :شرکاء کا عالمی برادری ، اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کا نوٹس لینے کا مطالبہ

ہفتہ 19 جولائی 2025 20:39

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 جولائی2025ء) کل جماعتی حریت کانفرنس اور کشمیر لبریشن سیل کی مشترکہ کانفرنس کے شرکاء نے عالمی برادری، اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کے تمام بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا ہےکہ وہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی جارحیت کا فوری نوٹس لیتے ہوئے کشمیری عوام کے بنیادی حق، حقِ خودارادیت کے عملی نفاذ کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کریں تاکہ خطے میں دیرپا امن اور انصاف پر مبنی حل کی راہ ہموار ہو سکے۔

قرارداد الحاق پاکستان آج بھی کشمیری قوم کے دلوں میں پورے عزم، یقین اور استقامت کے ساتھ زندہ ہے۔ہفتہ کو کل جماعتی حریت کانفرنس اور کشمیر لبریشن سیل کے اشتراک سے یومِ الحاقِ پاکستان کی مناسبت سے ایک پُروقار کانفرنس کا انعقاد کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں کیا گیا،جس کی صدارت کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما محمد فاروق رحمانی نے کی۔

(جاری ہے)

کانفرنس میں سینٹر دنیش کمار ،رکن قومی اسمبلی و کشمیر کمیٹی فتح اللہ میاں خیل،انجمن نوجوانان پاکستان کے سربراہ عبداللہ گل،وزیرحکومت آزاد کشمیربیگم امتیاز نسیم ،وزیر حکومت جاوید اقبال بڈھانوی،سابق وزیر حکومت فرزانہ یعقوب،ترجمان حکومت گلگت بلتستان فیض اللہ فراق،غلام نبی بٹ،راجہ پرویز،سینئر حریت رہنما محمود احمد ساغر، سید یوسف نسیم ، سید فیض نقشبندی ، شمیم شال ، میر طاہر مسعود ،محمد حسین خطیب، اعجاز رحمانی ، چوہدری شاہین، جاوید اقبال، داؤد خان ، میاں مظفر ، زاہد اشرف،منظور احمد شاہ ،سید گلشن،زاہد مجتبیٰ ،عبد المجید میر، جمیلہ قادری،پی ٹی آئی رہنماء سردار ماجد شریف،ڈائریکٹر لبریشن سیل افسر خان،اسسٹنٹ ڈائریکٹر لبریشن سیل نجیب اللہ غفور،قاضی عمران ،منظور احمد ڈار،عدیل مشتاق ،افسر خان،امتیاز احمد بٹ سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے 19 جولائی 1947ء کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا کہ اسی دن سرینگر میں کشمیری قیادت نے ایک غیر معمولی اور تاریخ ساز اجلاس منعقد کر کے ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کو مملکتِ خداداد پاکستان سے وابستہ کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی۔ مقررین نے اس عہد کو کشمیری عوام کی دلی تمنا، جغرافیائی، مذہبی، تہذیبی اور تاریخی حقائق کا عین عکاس قرار دیا۔

مقررین نے اس وقت کی قیادت کی سیاسی فہم و فراست، جرات مندی اور دور اندیشی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کشمیری عوام کی اجتماعی خواہشات کی سچی اور واضح ترجمانی کرتے ہوئے پاکستان سے الحاق کا تاریخ ساز فیصلہ کیا، جو آج بھی کشمیری قوم کی آزادی اور جدوجہد کا مرکز و محور ہے۔مقررین نے کہا کہ بھارت کو زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں، بین الاقوامی قوانین اور اپنے ہی سابقہ اعلانات کی روشنی میں ریاست جموں و کشمیر سے اپنی قابض افواج کا فوری انخلاء کرنا چاہیے اور کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت فراہم کرنا چاہیے۔

انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ خود بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کشمیری عوام کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا کہ بھارتی افواج یہاں رہنے کے لیے نہیں، بلکہ صرف امن کی بحالی تک ہیں۔ مگر بدقسمتی سے بھارت وقت گزرنے کے ساتھ اپنے وعدوں سے مکر گیا اور کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ کر خطے کے امن و سلامتی کو مستقل خطرے سے دوچار کر دیا۔

مقررین نے کہا کہ گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے بھارت ریاستِ جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ہر غیر قانونی حربہ استعمال کر رہا ہے۔ لاکھوں کشمیریوں کو شہید، ہزاروں کو معذور اور ہزاروں نوجوانوں و حریت رہنماؤں کو طویل قید و بند کا سامنا ہے۔ کشمیریوں کی زمینوں پر قبضے، جعلی ڈومیسائل کے اجرا، ریاست کی ڈیموگرافی کی جبری تبدیلی اور ذرائع ابلاغ پر بدترین قدغن اس غیر آئینی قبضے کے استعماری حربے ہیں۔

ان تمام جبر و استبداد کے باوجود کشمیری عوام آج بھی پاکستان کے ساتھ الحاق اور آزادی کے عظیم مقصد کے لیے اپنی جدوجہد اور قربانیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔حریت کانفرنس کے سینئر لیڈر محمود احمد ساغر نےکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 19 جولائی کو کشمیریوں نے فیصلہ کیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ میں مسلمانوں کے لیے ہی فیصلے کیوں نہیں ہوتے؟اقوام متحدہ میں کشمیری و فلسطین کا فیصلہ کیوں نہیں ہوتا؟نہرو لال نے کشمیریوں کو کہا کہ میں فیصلہ تم لوگوں پہ چھوڑتا ہوں، کس کے ساتھ الحاق کرنا ہے،اس کے باوجود کشمیریوں پر ظلم و بربریت جاری ہے،طاقت و حوصلہ بولتا ہے، فتح ویسی ہی ہوگی جیسے بنیان مرصوص میں ہوئی،انڈیا اگر کہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں امن ہے تو وہاں اس کی فوجیں کیوں قابض ہیں۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما شمیم شال نے کہا کہ آزاد کشمیر حکومت کو آج 19 جولائی کا دن آزاد کشمیر اور پورے پاکستان میں منانا چاہیے تھا،19 جولائی کی قرارداد،اس کے بانی اور اس قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والوں کے خاندانوں کے ساتھ منائی جائے،اس قرارداد کی دستاویز کو تلاش کیاجائے،اس کے محرکات کےبارے میں معلوم کیا جائے،19 جولائی کی قرارداد کے نتیجے میں لوگوں کو بوریوں میں ڈال کے پھینکا گیا،ہمیں تاریخ کو سمجھنا ہے،آزاد کشمیر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سکولوں میں بچوں کو ٹاسک دیا جائے کہ 19 جولائی کی قرارداد کیوں وجود میں آئی۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینیئر رہنما محمد فاروق رحمانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 19 جولائی 1947 کو جب یہ قرارداد منظور ہوئی تو ہندوستان میں آگ بھڑک رہی تھی،اس قرارداد کا سہرا سردار ابراہیم کے سر جاتا ہے،ہر طرف سے طاقت کا استعمال ہوا، طاقت کا استعمال آج تک ہے،طاقت کا استعمال کر کے کشمیر کو ہندوستان سے جوڑا گیا، طاقت کے استعمال کی وجہ سے پورے کشمیر کا الحاق پاکستان سے نہ ہو سکا۔

انہوں نےکہا کہ صرف یہ قرارداد نہیں بلکہ متعدد قراردادیں منظور کی جاتی رہیں،اس وقت تک کشمیر کا فیصلہ نہیں ہو سکا اور ہم یادیں منا رہے ہیں،ہمیں امید ہے حق کی فتح ہوگی اور ہندوستان کا ناجائز قبضہ مقبوضہ کشمیر سے ختم ہوگا،پاکستان نے ہی کشمیریوں کے حق کی وکالت کرنی ہے اور پاکستان کامیاب ہوگا،حق خودارادیت پہ سمجھوتہ نہیں ہو سکتا اور یہی آخری حل ہے۔

چیئرمین تحریک نوجوانان پاکستان عبداللہ گل نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مٹھی بھر لوگوں نے بھارت کی 10 لاکھ فوج کو چکرا دیا،بھارت چاہتا ہے کہ کشمیر کو نیوٹرل زون قرار دے دیا جائے ،1947 کو کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگا،ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ سیاسی اور اخلاقی بنیاد پر کب تک آواز اٹھاتے رہیں گے؟آخر کب عمل ہوگا،بھارت کے مظالم بڑھتے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان نے عملا ًثابت کر کے دکھایا کشمیر پاکستان کا ہے، ہماری پاک فوج کے شہدا کی قربانیاں کشمیر کی وجہ سے ہیں ،انڈیا کے کالے قانون کے خلاف انٹرنیشنل سطح پہ لیگل کیس ہو نا چاہیے،آزاد کشمیر حکومت کو چاہیے کہ کیمپین کا باقاعدہ آغاز کرے،میڈیا کو چاہیے کہ کشمیر کے حوالے سے لوگوں کو ایجوکیٹ کریں،ای لائبریری کی بنیاد رکھی جائے تاکہ نوجوانوں کو مسئلہ کشمیر سمجھ آئے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پتہ چلے۔

سینیٹر دنیش کمار نےکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں شکر گزار ہوں کہ پاکستان کی اقلیت کو دعوت دی،جب پاکستان بنا تو قائداعظم نے کہا کہ تمام مذاہب پاکستان میں آزاد ہیں،پاکستان میں کوئی تفریق نہیں ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کبھی بھی مظالم کی سرپرستی ریاست نے نہیں کی جبکہ انڈیا میں ریاست ہی ان مظالم کی سرپرستی کر رہی ہے،یہ قرارداد سردار ابراہیم کے گھر میں پیش کی، سردار ابراہیم نے اعلان کیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر گلے کی ہڈی بن چکا ہے، یہ ہڈی تب ہی نکلے گی جب مقبوضہ کشمیر کا پاکستان سے الحاق ہوگا،بلوچ قوم پاکستان کو اپنی دھرتی ماں کا درجہ دیتی ہے،کسی مذہب میں انتہا پسندی آجائے تو اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک کروڑ اقلیتی برادری کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہے،کشمیر میں انسانیت کا خون بہہ رہا ہے،ہمارے لوگوں میں پاکستانیت ہے تو کشمیر کی جدوجہد جاری رہے گی،اس طرح کی کانفرنسز کا انعقاد بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں بھی ہونا چاہیے۔

رکن قومی اسمبلی وکشمیر کمیٹی سردار فتح اللہ خان میاں خیل نے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر حملہ کیا،بھارت نے اپنے ہی ہندو شہریوں کو نشانہ بنا کر ہم پر حملہ کیا،پاکستان آرمی نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا،بھارت نے گھٹنوں کے بل خود جنگ بندی کے درخواست کی،پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے اور کھڑا رہے گا۔فتح اللہ نے کہا کہ پاکستانی حکومت نے ہر محاذ پر بھارت کے حربوں کو ناکام کیا،پارلیمانی کشمیر کمیٹی مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے کام کررہی ہے،بھارتی پروپیگنڈے کو ناکام بنانے پر بلاول بھٹو زرداری کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔