Live Updates

بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کا سرمایہ ہیں، ہم افغانستان کے خیر خواہ ہیں اور ان کی ترقی و خوشحالی چاہتے ہیں، پاکستان امن پسند ملک ہے اور پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے ، ہم نے بھارتی پراپیگنڈہ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ، اسحاق ڈار

اتوار 27 جولائی 2025 14:10

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 جولائی2025ء) نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حکومتی کوششوں کے نتیجہ میں قومی معیشت میں نمایاں بہتری آئی ہے، بیرون ملک مقیم پاکستانی ملک کا سرمایہ ہیں، ہم افغانستان کے خیر خواہ ہیں ان کی ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں، افغانستان سے کہا ہے کہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے، ملک سے دہشتگردی کے ناسور کے مکمل خاتمہ کےلئے پرعزم ہیں، علاقائی روابط کو فروغ دیا جا رہا ہے، سفارتی سطح پر اس وقت پاکستان بہت متحرک ہے، ہمارا ہدف ملک کی جی 20 میں شمولیت ہے، ملک میں معاشی استحکام آ چکا ہے، زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل بڑھ رہے ہیں، مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے، ڈیفالٹ کے خطرے کو ہمیشہ کےلئے دفن کر دیا گیا ہے، پاکستان ہر ملک کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتا ہے، پاکستان امن پسند ملک ہے اور پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے ، ہم نے بھارتی پراپیگنڈہ کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا اور بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا، پاکستان نے 4 رافیل طیارے گرا کر بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا، پہلگام واقعے کی آڑ میں بھارت نے جو اقدامات کئے ان کا ویسے ہی جواب دیا گیا ، پاکستان نے جنگ بندی کےلئے کسی سے نہیں کہا، ہماری افواج نے بہادری سے بھارت کا مقابلہ کیا، بھارت کی بوکھلاہٹ ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے نیویارک میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر رضوان شیخ اور اقوام متحدہ میں مستقل مندوب عاصم افتخار ، قونصل جنرل سمیت پاکستانی برادری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ چندماہ کے وقفے کے بعد پاکستانی برادری سے دوبارہ ملاقات باعث افتخار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری گزشتہ ملاقات فروری میں ہوئی تھی ، اس وقت میں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی مستقبل کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا تھا اور شاید اس وقت آپ زیادہ پراعتماد نہ ہوں لیکن اگر آپ اس وقت کے حالات اور آج کے حالات کا موازنہ کریں تو آپ کہیں زیادہ اعتماد محسوس کریں گے۔ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں ہماری حکومت کو اس وقت معاشی اور سیاسی چیلنجز کا سامنا تھا ، پاک بھارت تنازعہ بعد میں سامنے آیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں معیشت کے حوالے سے بہت بہتری آئی ہے لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ 2017 میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں پاکستان معاشی طور پر کہیں بہتر پوزیشن میں تھا، انہوں نے 2013 میں جب حکومت سنبھالی تو میکرواکنامک مشکلات کے علاوہ چند ہفتوں کے زرمبادلہ کے ذخائر اور شرح نمو کی کمی ، دوہرے ہندسے کا افراط زر اور ملک کے ڈیفالٹ کا خطرہ تھا لیکن مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے 4 سال کے عرصہ میں نمایاں معاشی اور اقتصادی کامیابیاں حاصل کیں۔

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ اس وقت عالمی اقتصادی ماہرین کا تجزیہ تھا کہ پاکستان کو اس مشکل صورتحال سے نکلنے میں 12 تا 15 سال درکار ہوں گے لیکن ہم نے اس سے کہیں کم عرصہ میں مشکلات پر قابو پایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت زیادہ لچک ہے اور پاکستان نے 2017 تک ملک کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی ایم ایف اصلاحات کا پروگرام مکمل کیا۔

انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح دوہرے ہندسے سے 3.59 فیصد کی شرح تک کم ہوئی، زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح تک بڑھ گئے اور جی ڈی پی کی شرح نمو 6.3 فیصد تک پہنچ چکی تھی اور ہم 7 تا 8 فیصد تک کا تخمینہ لگا چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں کئی معاشی ریکارڈ توڑیں گے جس کےلئے دن رات محنت کی جا رہی ہے۔

محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان نے 12 تا 15 سال کے عرصہ کی پیشگوئیوں کے مقابلہ میں 3 سال کے قلیل عرصہ میں نمایاں معاشی کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 2017 میں دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت بن چکا تھا اور کئی عالمی ادارے کہہ رہے تھے کہ پاکستان 2030 سے قبل جی 20 میں شامل ہونے کی استعداد رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2017 تا 2022 کے عرصہ کے دوران پاکستان کی معیشت کو ریورس گیئر لگ گیا ، سیاسی تبدیلیوں کے خوفناک نتائج سامنے آئے اور دنیا کی 24 ویں بڑی معیشت 47 ویں درجے تک تنزلی کر گئی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کےلئے یہ ایک مشکل فیصلہ تھا کہ ہم اس وقت کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کریں یا نہ کریں کیونکہ ملک کی معیشت انتہائی مشکل حالات سے گزر رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ ملک کی سیاسی قیادت سمجھتی تھی کہ اگر صورتحال برقرار ہی تو خدانخواستہ پاکستان بھی سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کرسکتا ہے جبکہ بعض عالمی طاقتیں بھی چاہتی تھیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے لیکن الحمد للہ ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر آگئے۔

سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے اس وقت ایک مشکل فیصلہ کیا اور بطور پارٹی سربراہ عدم اعتماد کا فیصلہ کیا اور پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے نکالا۔ انہوں نے کہا کہ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد محمد شہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کیا گیا اور 16 ماہ کی حکومت میں ہمیں ہر روزعالمی طاقتوں اور معاشی اداروں کی جانب سے کوئی نئی تاریخ دے دی جاتی کہ فلاں تاریخ کو پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا ، جس کے بعد آخری ایک سال کے لئے مشکل حالات میں مجھے وزیر خزانہ تعینات کیا گیا اور اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے دن رات محنت کر کے ملک کو مشکل صورتحال سے نکالا۔

سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ اس کے بعد انتخابات ہوئے اور وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر دوبارہ حکومت بنائی تو پاکستان پر منڈلانے والے ڈیفالٹ کے خدشات مکمل ختم ہو چکے ہیں۔ قومی معیشت کی موجودہ صورتحال کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افراط زر کی شرح جو 30 فیصد تک بڑھ چکی تھی اب انتہائی نچلے درجے تک کم ہو چکی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور ہم چاہتے ہیں ہم اپنا ہی ریکارڈ توڑ کر زرمبادلہ کے ذخائر کو بلند ترین سطح تک پہنچائیں، افراط زر کی 3.59فیصد کی شرح اور زرمبادلہ کے ذخائر کے ریکارڈ ان شا اللہ ٹوٹیں گے۔

سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ قومی معیشت مستحکم ہو چکی ہے ، میکر و اکنامک اشاریے بہتر ہو چکے ہیں، پاکستان دنیا کی 47 ویں معیشت کی بجائے 40 ویں معیشت بن چکا ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اپنی حکومت کے اختتام تک پاکستان کو جی 20 میں شامل کر دیں یا اس میں شمولیت کے قریب ترین پہنچ جائیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف اور ان کی حکومت نے بے پناہ محنت کی ہے اور مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف مسلسل رہنمائی فراہم کر رہے ہیں تاکہ معاشی اہداف حاصل ہو سکیں، ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری میں ایک خوشحال اور مستحکم پاکستان ہو تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس سے استفادہ کر سکیں۔

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی سفارتی تنہائی کی باتیں کی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے، پاکستان کو عالمی برادری میں اہم سفارتی حیثیت حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 سال کے دوران ہم نے افغانستان کے حوالے سے بہت محنت کی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اور ازبکستان کے افغانستان کے ذریعے ریل روابط قائم ہوں جس کے بعد پاکستان پوری دنیا کے ریلوے نیٹ ورک سے جڑ جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خاتمے اور علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کےلئے بھاری سرمایہ کاری کی اور اس کے انتہائی مثبت نتائج مرتب ہوئے تاہم 2017 کے بعد کی حکومت نے دہشتگردوں کو ملک میں داخلے کی کھلی اجازت دی اور اس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کورونا بحران کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کے بحران نے قومی معیشت کو 47 ویں درجے تک پہنچا دیا۔

سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ معیشت ، سیاست سمیت مہاجرین کے مسائل کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی کارروائیوں کےلئے استعمال نہ ہو سکے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے امریکہ کے حالیہ دورہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان 2012 میں سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہوا تھا اور اس وقت ہم ایک ووٹ کی برتری سے جیتے تھے لیکن اب پاکستان نمایاں سفارتی کامیابیاں حاصل کرچکا ہے اور ہم نے رواں سال کے لئے جب انتخابات میں حصہ لیا تو ہم 5 کے مقابلے میں 182 ووٹ سے فتحیاب ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ رواں ماہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت کا منصب سنبھالا ہے اور میں یو این ایس سی کے اجلاس کی صدارت کےلئے خصوصی طور پر یہاں پہنچا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں تنازعات کا پرامن حل ممکن ہو اور ہم نے اس حوالے سے سلامتی کونسل میں بھی بات کی ہے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے عاصم افتخار کی سربراہی میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفارتی ٹیم کی کاوشوں کو سراہا اور کہا کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر بھی بھرپور معاونت فراہم کر رہے ہیں، ہماری سفارتی ٹیموں نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بہترین کردار ادا کیا ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کردہ پاکستان کی قرارداد کو ایک طویل عرصے کے بعد متفقہ طور پر منظور کیا گیا ہے اور حالیہ اجلاس میں تھائی لینڈ، کمبوڈیا کے تنازعے کے بارے میں سلامتی کونسل کے اراکین نے پاکستانی قرارداد کے حوالے دیئے ہیں۔ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں ملک سفارتی سطح پر بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کر رہا ہے، ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے مشترکہ کردار کے ذریعے تنازعات کا پرامن حل یقینی بنایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کی یہ پالیسی ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کے سفارتی کردار کو پاک چین تعلقات کے تناظر میں نہ دیکھا جائے اور ہم امریکہ سے بھی مستحکم سفارتی تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کےلئے سفارتی اور قانونی ذرائع سے کوششیں کی ہیں ، ان کی رہائی کا عمل قانون سے منسلک ہے اور اسے بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے نہ جوڑا جائے۔

انہوں نے کہا کہ عافیہ صدیقی پاکستان کی بیٹی ہیں ، ان کی رہائی ہماری حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اور اس حوالے سے کوششیں جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عافیہ صدیقی کے معاملے کو اپنی سیاست کےلئے استعمال نہ کیا جائے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان امن کا خواہشمند ہے، ہمارے ایٹمی اثاثے اپنے دفاع اور ریجن میں طاقت کے توازن کو قائم رکھنے کےلئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ملک سب برابر ہیں، تمام ممالک کا قومی وقار اور خودمختاری ہمارے لئے مساوی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے گزشتہ چند سال کے دوران بھارت کی جانب سے نام نہاد دعوے کئے جاتے رہے اور خطے کے چوہدری ہونے کا دعویٰ بھی کیا جاتا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا غرور خاک میں ملا دیا، ہمارا ایمان ہے کہ سب سے بڑی قوت خدا کی ذات ہے ، کوئی جتنا مرضی بڑا ہو خدا کی ذات کے سامنے بے بس ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت رافیل طیاروں کے بارے میں بڑے بڑے دعوے کرتا تھا لیکن الحمد للہ ہم نے ان کے 4 رافیل طیارے مار گرائے۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعہ کے صرف 10 منٹ بعد ہی بھارت نے واویلا مچانا شروع کردیا اور لگتا تھا کہ یہ پلوامہ کو دہرایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعہ کے وقت میں اور وزیراعظم ترکیہ کے دورے پر تھے اور بھارت نے واقعہ کے دوسرے روز ہی اپنی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کا نام لئے بغیر پانچ بڑے فیصلے کئے ، ہمارے سفارتی عملہ میں کمی ، فوجی اتاشیوں کو ملک سے نکالنے ، اٹاری بارڈر کی بندش کے ساتھ ساتھ بھارت میں موجود پاکستانیوں کو ویزہ رکھنے کے باوجود ملک سے نکل جانے کے فیصلے کئے گئے، اس کے ساتھ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا یکطرفہ اعلان بھی کردیا ۔

سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ اس کے بعد پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم محمد شہباز شریف کی صدارت میں سیاسی و عسکری قیادت شریک ہوئی اور ہم نے بھی بھارت کے اقدامات کا جواب دینے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ہم نے بھارتی سفارتی عملے میں کمی ، فوجی اتاشیوں کی ملک بدری ، سکھوں کے علاوہ دیگر بھارتی شہریوں کے پاکستان سے نکلنے کے علاوہ واہگہ بارڈر بند کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے بھارتی اقدامات کے جواب میں ہم نے بھارتی پروازوں کےلئے اپنی فضا کو بند کردیا جس سے ان کی ایئر لائنز کو کمرشل طور پر کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بڑے واضح تھے کہ پلوامہ کی طرح بھارت کوئی حرکت کرے گا اور وہی ہوا کہ 29 ،30 اپریل کی رات کو بھارت کے 6 جنگی طیارے فضا میں بلند ہوئے لیکن پاک فضائیہ کو الرٹ دیکھ کر سرینگر میں لینڈ کر گئے۔

سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب 75 تا 80 بھارتی طیارے فضا میں موجود تھے جن کو روکنے کےلئے پاکستانی شاہین بھی پوری طرح تیار تھے۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعہ کے فوری بعد میں نے عالمی برادری کو صورتحال سے مسلسل آگاہ رکھا اور کہا کہ پہلگام واقعہ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، دوسری جانب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بھی کہا کہ اس واقعہ کی غیر جانبدار عالمی تحقیقات میں پاکستان شمولیت کےلئے تیار ہے لیکن بھارت نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا ۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی جارحیت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو فتح مبین سے سرفراز فرمایا اور 6 بھارتی طیاروں کو مار گرایا گیا جن میں 4 رافیل بھی شامل تھے ، جس سے بھارت میں تشویش پھیل گئی جس کے بعد بھارت کے دفتر خارجہ نے پاکستان کی جانب سے 15 بھارتی فوجی تنصیبات پر حملے کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پی فائیو ممالک کو کہا کہ ڈیجیٹل دور میں ہر چیزکے بارے میں معلوم کیا جاسکتا ہے اور اس بارے میں تصدیق کی جائے جس کے بعد ان ممالک نے بھارتی الزامات کو مسترد کردیا، پھر بھارت نے ایف 16 طیارہ گرانے کا دعویٰ کیا جس پر ایف 16 طیارے بنانے والی کمپنی نے بھارتی جھوٹ کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا کوئی ایف 16 طیارہ تباہ نہیں ہوا کیونکہ کوئی طیارہ اڑا ہی نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ 23 اپریل سے 10 مئی کے دوران میں نے دنیا بھر کے60 سے زیادہ ممالک کے رہنمائوں سے فون پر رابطہ کیا اور سب کو بتایا کہ بھارت دروغ گوئی سے کام لے رہا ہے جب عالمی برادری نے پاکستان کے سچے ہونے کی تصدیق کی تو اس سے سفارتی سطح پر پاکستان کا بیانیہ کامیاب ہوا اور بھارت ناکام ہوا جس سے بھارت میں ابھی تک تشویش پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور کبھی بھی کسی جارحیت میں ملوث نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس اصول کو ہم نے پریکٹیکلی فالو کیا ہے ۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارتی طیاروں کے مقابلہ میں فضائوں میں بلند ہونے والے پاکستانی شاہینوں کو واضح ہدایات دی گئی تھیں کہ جب تک بھارت کا کوئی جہاز پاکستانی فضائی حدود میں داخل نہ ہو اس وقت تک اس کو مارا نہ جائے، اگر کوئی بھارتی طیارہ اپنی فضائی حدود میں رہتے ہوئے پاکستان پر میزائل داغے تو اس کو نشانہ بنایا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاک فضائیہ کے بہادر پائلٹ کہتے ہیں کہ اگر ہم پر یہ پابندیاں نہ ہوتیں تو ہم 6 کی بجائے بھارت کے 12 سے 15 جہاز مار گراتے۔ انہوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی مسلح افواج اور حکومت کامیابی کا مظہر بن چکی ہیں اور معیشت سمیت دفاع کے شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ 9 مئی کی رات کو وزیراعظم کی صدارت میں مسلح افواج اور سول قیادت نے ملاقات کی اور بھارتی شر انگیزی اور جارحیت کا متوازن جواب دینے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزیراعظم نے مسلح افواج کو جواب دینے کی اجازت دے دی۔

بعد ازاں صبح 4 بجے سے 8 بجے تک ہم نے بھارت کو جواب دیا ، میں نے ہمیشہ عالمی برادری کو یقین دہانی کرائی کہ جب ہم جواب دیں گے تو سب کو بتائیں گے کہ ہم نے کہاں حملہ کیا ہے، کسی سے کوئی چیز چھپائی نہیں جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈرپوک بھارت کی طرح کسی سول جگہ پر حملہ نہیں کیا اور جہاں جہاں حملہ کیا اس کی ساری تفصیلات سے عالمی برادری کو آگاہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب پاکستان کی جانب سے بھارت کو جواب دینے کا مرحلہ مکمل ہوا تو مجھے امریکہ کے وزیر خارجہ کی جانب سے ٹیلی فون کیا گیا اور بتایا گیا کہ بھارت جنگ بندی پر تیار ہے جس پر میں نے جواب دیا کہ ہم نے تو کبھی جنگ شروع نہیں کی اور نہ ہی ہم جنگوں پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ یہ خطہ جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا، اگر بھارت جنگ بندی چاہتا ہے تو ہم بھی تیار ہیں۔

اس سے پہلے امریکی وزیر خارجہ ہمارے آرمی چیف سے بھی بات کر چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکام سے رابطے کے بعد 45 منٹ کے اندر اندر سعودی عرب کے ولی عہد نے مجھے فون کیا اور جنگ بندی کے حوالے سے رائے طلب کی ، جس کے بعد جنگ بندی ہوئی اور اس وقت جنگ بندی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی کسی سے جنگ بندی کی درخواست نہیں کی، ہماری بہادر مسلح افواج نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں کشیدگی کے دوران بہادری اور جرات سے صورتحال کا مقابلہ کیا اور اس تنازعہ کے دوران بھارت کو بدترین شکست سے دو چار کیا۔ تقریب میں امریکہ میں مقیم پاکستانی برادری کے نمایاں افراد نے بھرپور شرکت کی۔
Live مہنگائی کا طوفان سے متعلق تازہ ترین معلومات