پاکستان میں ہرسال 2 لاکھ 56 ہزار افراد فضائی آلودگی کے باعث جاں بحق ہوتے ہیں‘ نمائندہ ڈبلیو ایچ او

سائنسدانوں، حکام ،سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل علاقائی ٹاسک فورس قائم کی جائے جو مفاہمتی یادداشت کا مسودہ تیار کرے مسودے میں مشترکہ مانیٹرنگ پروٹوکولز، ہنگامی اطلاع کے طریقہ کار اور استعداد کار میں اضافے کے منصوبے شامل ہوں‘ رکن سر ی لنکن پارلیمنٹ ہرشانا راجاکارونا آج ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ناکام ہیں کہ فضائی آلودگی دراصل ایک عوامی صحت کی ہنگامی صورتحال ہے‘ جسٹس عائشہ ملک عالمی مالیاتی سہولت یا دیگر ممالک سے قرضوں پر انحصار نہیں کر سکتے،فریم ورک موجود ہے ،وزیرِ خزانہ اس پر کام کر رہے ہیں،جلد اجلاس ہوگا‘جسٹس جواد حسن اسموگ اب محض ایک موسمی تکلیف نہیں رہی، سنتے ہیں یہ آتی ہے چلی جاتی ہے، درحقیقت یہ قومی ہنگامی صورتحال ہے ‘معاونِ خصوصی موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید پاکستان کے ماحولیاتی فنانسنگ کے خلا ء کا تخمینہ 2030 تک تقریباً 348 ارب ڈالر ،سیلابوں کے اثرات مزید 100 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں مسئلہ یہ نہیں دنیا میں سرمایہ دستیاب نہیں، اصل چیلنج ہمارے پاس ایسے منصوبے کم ہیں جو اس سرمایہ کاری کو اپنی جانب راغب کر سکیں‘‘ چیئرمین پنجاب بنک ماضی میں موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی، اب اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت کی جا رہی ہے‘ مصدق ملک یہ صرف اسموگ نہیں ہے، اسے موت کے زاویے سے بھی دیکھیں، پرانی آئل ریفائنریز کو جدید بنانے کیلئے پالیسی پر کام جاری ہے‘وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی

ہفتہ 11 اکتوبر 2025 21:25

پاکستان میں ہرسال 2 لاکھ 56 ہزار افراد فضائی آلودگی کے باعث جاں بحق ہوتے ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 اکتوبر2025ء) عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں نمائندہ ڈاکٹر داپنگ لو نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 2 لاکھ 56 ہزار افراد فضائی آلودگی کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں جبکہ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی)ایشیا ء پیسیفک کی ریجنل ڈائریکٹر کی مشیر اعلی برائے ماحولیاتی و ماحولیاتی امور آبان مارکر کبراجی نے کہا کہ دنیا کی 99 فیصد آبادی آلودہ ہوا میں سانس لیتی ہے اور فضائی آلودگی کے باعث سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد قبل از وقت موت کا شکار ہوتے ہیں جبکہ لاہور، فیصل آباد، پشاور اور کراچی دنیا کے 10 سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شامل ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کے زیر اہتمام لاہور کے ایکسپو سینٹر میں فضائی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کانفرنس اختتام پذیر ہوگئی ۔

(جاری ہے)

کانفرنس کے مختلف سیشنز میں مقررین نے فضائی آلودگی ،تجاویز ، فنڈنگ اور رویوں کو موضوع بنایا ۔عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں نمائندہ ڈاکٹر داپنگ لو نے کہا کہ صاف ہوا میں سانس لینا ایک بنیادی انسانی حق ہے۔انہوں نے زور دیا کہ فضائی آلودگی سرحدوں سے آزاد خطرہ ہے جو سب سے زیادہ اثر کمزور اور کم وسائل رکھنے والے طبقات پر ڈالتا ہے۔

ماہر ماحولیات داور بٹ نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے شروع کیے گئے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آلودگی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔پاکستان میں فضائی آلودگی کا مسئلہ 2012 میں دوبارہ شدت اختیار کرنے لگا، جب ملک میں قدرتی گیس کی فراہمی ختم ہو گئی۔لمز انرجی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نوید ارشد نے کہا کہ لمز انرجی انسٹیٹیوٹ مکمل انرجی ایکو سسٹم کا جائزہ لیتا ہے اور حکومت کے پاس پالیسی سفارشات لے جانے سے پہلے اسے ملک کو درپیش چیلنجز کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادارے کا مقصد پالیسیوں اور حل کے نفاذ میں مدد فراہم کرنا ہیسی ای او اربن یونٹ ڈاکٹر عمر مسعود نے کہا کہ شہری سطح پر مانیٹرنگ ڈیٹا کے ذریعے مقامی اقدامات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ہم سینسر سطح کی مانیٹرنگ کے حوالے سے ایک اہم موڑ پر پہنچنے والے ہیں، مسابقت کم کرنے کی ہمیں تعاون اور انضمام کی ضرورت ہے جبکہ اس موسم اور آنے والے برسوں میں ہمیں مزید ڈیٹا اسٹریمز ملیں گی جو ہمیں ہوا کے معیار کے بارے میں آگاہ کریں گی، اب یہ حکومت اور غیر سرکاری شعبے پر منحصر ہے کہ وہ اس ڈیٹا کو کس طرح ضم اور استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان ایئر کوالٹی انیشیٹو کے بانی عابد عمر نے کہا کہ ہمیں صرف ڈیٹا سے آگے بڑھنے اور اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے کہ پالیسیز کیا ہونی چاہئیں۔آج بھی پاکستان اور پنجاب حکومت میں پالیسی سازی کمزور ہے کیونکہ شواہد پر مبنی پالیسی سازی ابھی تک زیادہ ترقی یافتہ صورتوں میں بھی اتنی پختہ نہیں ہوئی۔اقوامِ متحدہ کے پاکستان میں انسانی ہمدردی کے کوارڈی نیٹر محمد یحیی نے کہا کہ فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی سرحدوں کی پابند نہیں ہوتیں، آلودگی کے ذرات جب ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہیں تو ان پر کسٹمز یا امیگریشن کی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی چیز واقعی تعاون، خصوصاً بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیتی ہے، تو وہ ماحولیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی کا مسئلہ ہے۔چینی اکیڈمی آف انوائرنمنٹل سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف ایٹموسفیرک ریسرچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر جیان گا نے کہا کہ چین گزشتہ نصف صدی سے فضائی آلودگی پر قابو پانے پر توجہ دے رہا ہے۔انہوں نے ان مختلف اقدامات پر روشنی ڈالی جو چین نے فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے استعمال کیے۔

سری لنکا کے رکن پارلیمنٹ ہرشانا راجاکارونا نے سری لنکا کے عوام کو بھی آلودگی کے بارے میں تشویش ہے اور ہماری عوام نے ناقص مقامی ذرائع اور ہمسایہ علاقوں سے آنے والی طویل فاصلے کی آلودگی کے باعث ہوا کے معیار میں بیگاڑکے کئی واقعات دیکھے ہیں۔راجاکارونا نے اپنے ملک کو آلودگی سے نمٹنے اور اسے قابو کرنے سے متعلق مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خراب ہوا کا معیار اوسط عمر کو کم کرتا ہے، سانس اور دل کی بیماریوں کے مریضوں کی ہسپتال میں داخلے کی شرح بڑھاتا ہے، بچوں کے پھیپھڑوں کی نشوونما اور اسکول حاضری کو متاثر کرتا ہے اور مزدوروں کی پیداواری صلاحیت کو کم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسائل محض ماحولیاتی نوعیت کے نہیں بلکہ عوامی صحت، معیشت اور سماجی انصاف سے جڑے ہنگامی معاملات ہیں۔اس حوالے سے سفارتکاری بھی انتہائی اہم ہے، ماحولیاتی سفارتکاری کوئی ثانوی معاملہ نہیں بلکہ یہ علاقائی استحکام اور مشترکہ خوشحالی کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔اس حوالے سے انصاف بھی ایک اہم پہلو ہے، چھوٹے جزیرے اور ساحل پر بسنے والی برادریوں کو دوسرے ممالک کی آلودگی کے ناپسندیدہ وصول کنندہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ جہاں ممکن ہو ہمیں ذمہ داری کے اشتراک کے طریقہ کار پر گفتگو کرنی چاہیے جن میں تکنیکی معاونت، تخفیف اور بحالی کے لیے مالی معاونت شامل ہو۔

انہوں نے صاف ہوا کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنانے اور بریتھ پاکستان جیسے فورمز کے انعقاد کے ذریعے علاقائی مکالمے کو فروغ دینے کے لیے فیصلہ کن اقدامات پر پاکستان کی تعریف کی۔سری لنکا پاکستان کی کوششوں سے یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور شراکت داری میں کام کرنے کے لیے تیار ہے۔انہوں نے مزید تجویز دی کہ سائنسدانوں، حکام اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل ایک علاقائی ٹاسک فورس قائم کی جائے جو ایک مفاہمتی یادداشت کا مسودہ تیار کرے جس میں مشترکہ مانیٹرنگ پروٹوکولز، ہنگامی اطلاع کے طریقہ کار اور استعداد کار میں اضافے کے منصوبے شامل ہوں۔

اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی)ایشیا ء پیسیفک کی ریجنل ڈائریکٹر کی مشیر اعلی برائے ماحولیاتی و ماحولیاتی امور آبان مارکر کبراجی نے کہا کہ سندھ و گنگ دنیا کے ان علاقوں میں سے ایک ہے جہاں ہوا کا معیار سب سے زیادہ خراب ہے، اور اس سے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش متاثر ہیں۔انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے علاقائی فضائی معیار کے مکالمے کے فروغ کی تجویز دی جس میں مشترکہ فضائی نظام کا انتظام، زرعی باقیات کے مشترکہ انتظام اور پنجاب و ہریانہ میں کسانوں کے لیے مراعات سمیت ڈیٹا کے تبادلے اور ہم آہنگی کو شامل کرنے پر زور دیا گیا۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی ڈائریکٹر نظیفہ بٹ نے کہا کہ کراچی، ڈھاکہ، لاہور اور نئی دہلی وہ شہر ہیں جو انتہائی موسمی حالات اور ماحولیاتی اثرات کے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔آبادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے لیے زیادہ توانائی درکار ہوگی اور اس کے نتیجے میں فوسل فیولز کے زیادہ جلنے کی ضرورت پڑے گی جبکہ ہم سب ایک ایسے جغرافیائی خطے میں بیٹھے ہیں جو ترقی، معاشی نمو اور ماحولیاتی اثرات کے لحاظ سے انتہائی خطرناک زون میں آتا ہے۔

جنوبی ایشیا میں فضائی آلودگی کے بڑے اسباب میں تیزی سے بڑھتی شہری آبادی اور صنعتی ترقی، گاڑیوں کے دھوئیں کے اخراج اور فصلوں کی باقیات جلانا شامل ہیں۔ایئر کوالٹی ایشیا ء کی صدر شازیہ رفیع نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ فضائی آلودگی ایک خاموش قاتل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کو تیز کرنے کا سبب بنتا ہے۔تمام فضائی آلودگی سرحد پار سے ہوتی ہے کیونکہ ہوا کو کسی سرحد کا علم نہیں، یہ خلا سے بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ صاف ہوا میں سانس لینے کے حق کو کئی دہائیاں پہلے بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے، تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ اس حوالے سے ریگولیٹری سیٹ اپ میں کئی خلا موجود ہیں۔اپنے لاہور ہائیکورٹ کے دور کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت اینٹوں کے بھٹوں اور پولٹری فارموں سے متعلق متعدد مقدمات زیر سماعت تھے، پولٹری فارموں کے فضلے سے بڑی مقدار میں دھواں اور بدبو خارج ہوتی ہے، جو ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ان جگہوں کے مالکان بھی عدالتوں سے رجوع کرتے تھے اور موقف اختیار کرتے تھے کہ ریگولیٹر ان کے ساتھ ناانصافی کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ میں سیلاب، سطحی کان کنی یا جنگلات کی کٹائی سے متعلق مقدمات زیر سماعت ہوتے ہیں تو مسائل تقریباً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور یہ سب اس بات سے جڑے ہیں کہ ریگولیٹری ادارے ان معاملات کو کس طرح سنبھالتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ کو وہ ہنگامی احساس یا سنجیدگی نظر نہیں آتی، نہ ہی وہ عزم نظر آتا ہے جہاں انہیں یہ احساس ہو کہ لوگ جس ہوا میں سانس لے رہے ہیں، وہ زہریلی ہو چکی ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آج ہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ناکام ہیں کہ فضائی آلودگی دراصل ایک عوامی صحت کی ہنگامی صورتحال ہے۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کے جو اثرات آنے والی نسلوں پر پڑ رہے ہیں، ہم نہ اس مسئلے کو حل کر سکیں گے اور نہ ہی آنے والی نسلوں کو بچا سکیں گے۔

گورننس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے جج نے نشاندہی کی کہ حکومت کی پالیسیاں اور قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پالیسیوں کے تحت نگرانی کہاں ہے، رپورٹنگ کہاں ہے، وہ ڈیٹا کہاں ہے جس کی بنیاد پر فیصلے کیے گئی ۔جسٹس عائشہ ملک نے رپورٹنگ اور نگرانی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو سائنسی شواہد درکار ہیں، سائنس کے بغیر آپ اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتے۔

جسٹس عائشہ ملک نے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ فضائی آلودگی کے خلاف جدوجہد میں ان کا کیا کردار ہے، اور اگر وہ اپنے حقوق چاہتے ہیں تو چاہے وہ لکھنے، آواز اٹھانے، احتجاج کرنے یا عدالتوں سے رجوع کرنے کے ذریعے ہو۔جسٹس عائشہ ملک نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اس بات پر توجہ دیں کہ فضائی آلودگی کے خلاف جدوجہد میں ان کا کیا کردار ہے، اور اگر وہ اپنے حقوق چاہتے ہیں تو چاہے وہ لکھیں، آواز بلند کریں، احتجاج کریں یا عدالت سے رجوع کریں، انہیں اپناکردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس شعبے میں مہارت کی بھی کمی کا سامنا کر رہے ہیں، ہم نہیں دیکھتے کہ تعلیمی ادارے اس پر معلومات، رپورٹس اور مضامین تیار کر رہے ہوں، ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ نوجوان اس مسئلے پر توجہ دے رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ مسئلہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا تقاضا کرتا ہے، اس کے لیے ارادے اور عزم کی ضرورت ہے۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے انہوں نے کلائمیٹ فنانسنگ پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم عالمی مالیاتی سہولت یا دیگر ممالک سے قرضوں پر انحصار نہیں کر سکتے۔

ہمیں فنڈنگ کی ضرورت ہے، ہمیں کلائمٹ فنانس کی ضرورت ہے، اب ہمارے پاس ایک فریم ورک موجود ہے اور وزیرِ خزانہ اس پر کام کر رہے ہیں، اس سلسلے میں جلد ہی ایک اجلاس ہوگا۔وزیراعظم کی معاونِ خصوصی برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا پختہ یقین ہے کہ اسموگ اب محض ایک موسمی تکلیف نہیں رہی، ہم سنتے ہیں کہ یہ آتی ہے اور چلی جاتی ہے، لیکن درحقیقت یہ ایک قومی ہنگامی صورتحال ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے جنم لے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے شہر کو گھونٹ دیتی ہے، ہماری معیشت کو متاثر کرتی ہے اور خاموشی سے ہمارے لوگوں کی صحت چھین لیتی ہے، یہ بحران وقتی اقدامات سے آگے بڑھنے کا تقاضا کرتا ہے۔بینک آف پنجاب کے چیئرمین ظفر مسعود نے کہا کہ ماحولیاتی بحران کے باعث پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کا تقریباً 6 فیصد ہر سال متاثر ہو رہا ہے۔آلودہ فضا کا مطلب ہے کہ ادائیگیوں میں کمی، برآمدات کمزور اور نادہندہ قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

انہوں نے حالیہ سیلابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب اس نقصان کے علاوہ ہے جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں، مجموعی طور پر اس کا اثر بہت بڑا ہے۔ظفر مسعود نے کہا کہ یہ کانفرنس صرف آگاہی پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ منظم مالیاتی ڈھانچے اور آئندہ کے لائحہ عمل کے عملی پہلوں کو واضح کرنے کے لیے ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے ماحولیاتی فنانسنگ کے خلا ء کا تخمینہ 2030 تک تقریباً 348 ارب ڈالر ہے جبکہ سیلابوں کے اثرات مزید 100 ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔

مسئلہ یہ نہیں کہ دنیا میں سرمایہ دستیاب نہیں، اصل چیلنج یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے منصوبے کم ہیں جو اس سرمایہ کاری کو اپنی جانب راغب کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا کو سرمائے کی کمی نہیں، بلکہ پاکستان کی تیاری پر اعتماد کی کمی ہے۔وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک نے فضائی آلودگی کو ایک انسانی ساختہ مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے درست کرنا ہماری اپنی ذمہ داری ہے، انہوں نے نشاندہی کی کہ ماضی میں موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی مسائل کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی، تاہم اب اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سخت محنت کی جا رہی ہے۔

وفاقی حکومت اور پنجاب موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بہترین کام کر رہے ہیں۔مصدق ملک نے کہا کہ فضائی آلودگی کے باعث بچوں کے پھیپھڑوں کی کارکردگی کا تقریبا 40 فیصد حصہ متاثر ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ صرف اسموگ نہیں ہے، اسے موت کے زاویے سے بھی دیکھیں، اور یہ صرف موت نہیں، اسے محبت کے زاویے سے بھی دیکھیں، جب آپ ان چہروں کو دیکھیں گے جو اس دھند کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں، شاید تب ہم ان مسائل کو زیادہ تیزی سے حل کر سکیں۔

مصدق ملک نے کہا کہ پرانی آئل ریفائنریز کو جدید بنانے کے لیے پالیسی پر کام جاری ہے۔انہوںنے وزیراعلی مریم نواز کے تحت جاری شاندار اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ 8 ہزار سے 10 ہزار موٹر سائیکلیں تقسیم کی جا چکی ہیں، 500 سے 600 الیکٹرک بسیں سڑکوں پر ہیں یا جلد چلائی جائیں گی، اور اینٹی اسموگ گنز نصب کی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم ایندھن کے لیے مزید اعلی معیار لاتے رہیں گے، ہم نے اپنی پرانی ریفائنریوں کو اپ ڈیٹ کرنے کی پالیسی بنائی ہے تاکہ جو تیل صحت کے لیے نقصان دہ ہے، اسے دنیا کے بہترین معیار کے مطابق بنایا جا سکے۔

وفاقی وزیر مصدق ملک نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں مراعات بھی دی جائیں گی اور کچھ کمپنیاں اس پالیسی پر کام کر رہی ہیں۔مصدق ملک نے کہا کہ پوری دنیا کے مجموعی جی ڈی پی کا تقریباً 5 فیصد بجٹ یعنی سالانہ تقریباً 60 کھرب ڈالر آلودگی کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں،اس مسئلے پر گفتگو کرنے کے لیے اس سے بہتر جگہ کوئی نہیں ہو سکتی۔مصدق ملک نے کہا کہ چین نے 10 سے 15 سال قبل اسموگ کے مسائل کا مقابلہ کرنے کے بعد شمسی توانائی کے انقلاب کی قیادت کی۔

انہوںنے نشاندہی کی کہ 10 سے 15 سال پہلے جب دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں کا ذکر کیا جاتا تھا تو جنوبی ایشیا ء کے شہر لاہور اور نئی دہلی اس فہرست میں شامل نہیں تھے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت بیجنگ اور شنگھائی کے نام لیے جاتے تھے اور اب وہ دنیا کی 60 سے 75 فیصد سولر ٹیکنالوجی فراہم کر رہے ہیں، انہوں نے نہ صرف اپنے شہروں کے مسائل حل کیے بلکہ اپنی درپیش مشکل کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا بھر میں شمسی توانائی کے انقلاب کی قیادت بھی کی۔

وفاقی وزیر مصدق ملک نے کہا کہ آلودگی اور یہ تمام ماحولیاتی خطرات، ہماری کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔تخمینوں کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ 28 ہزار قبل از وقت اموات فضائی آلودگی کے باعث ہوتی ہیں، اور ایک فرد کی زندگی کے 5 سے 8 سال کم ہو جاتے ہیں۔اپنے خطاب میںپنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے بہت سے ماہرین، میڈیا کے افراد، پالیسی سازوں اور سول سوسائٹی کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب ماحولیاتی لچک اور ماحولیاتی مطابقت کے حوالے سے مشترکہ ذمے داری کی عکاسی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں چاہتی ہوں کہ دیگر میڈیا اداروں کو بھی اس اقدام کا حصہ بنایا جائے۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ لاہور جو پاکستان کا ثقافتی ورثہ اور دل ہے، موسمی اسموگ کے مسئلے سے دوچار ہے، یہ سال بھر جاری رہنے والا مسئلہ ہے، لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں فضائی معیار کے اعداد و شمار تسلی بخش نہیں تھے لہٰذاہم نے اسموگ میں کمی کے لیے اہداف پر کام شروع کیا۔

سینئر صوبائی وزیر نے بتایا کہ جب انہوں نے مارچ میں ایک اجلاس بلایا تو حکومت حیران رہ گئی کہ ہم اس مسئلے پر مارچ میں بات کر رہے ہیں، کیوں کہ فضائی آلودگی کا یہ مسئلہ سال بھر رہتا ہے، ہم نے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو کثیرالجہتی نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کیا۔انہوں نے کہا کہ جب میں پنجاب کی مداخلتوں کے بارے میں بات کرتی ہوں تو ہم نے پورا قانونی فریم ورک مکمل کر لیا ہے، اب ہم ایئر کوالٹی انڈیکس کی سطح کی پیش گوئی کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی ماڈلنگ کر رہے ہیں۔

اسموگ میں کمی کے لیے مقامی حکمت عملی اپنانا مداخلت کا ایک اہم حصہ تھا، اس لیے ہم نے اسموگ میں کمی کے لیے کثیر شعبہ جاتی نقطہ نظر اختیار کیا۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ حکومت نے ایک سبسڈی پروگرام شروع کیا گیا ہے جس میں 80 فیصد رقم حکومت ادا کر رہی ہے اور لاہور ڈویژن میں اب 5 ہزار سپرسیڈر موجود ہیں۔فصلوں کی باقیات جلانے والے علاقوں کا نقشہ تیار کیا گیا، زراعت کی مشینی کاری میں سرمایہ کاری کی گئی، اور صنعتی یونٹس کی نگرانی کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔

سینئر صوبائی وزیر نے کہا کہ پنجاب بھر میں تقریباً 11 ہزار اینٹوں کے بھٹوں کی نقشہ بندی کی گئی، اور جن کے پاس زِگ زیگ ٹیکنالوجی نہیں تھی، انہیں بند کر دیا گیا۔مریم اورنگزیب نے نشاندہی کی کہ پنجاب کا کلائمیٹ چینج وژن 2025 اگلے 10 سال کے لیے پالیسی اور عملی منصوبہ بیان کرتا ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پنجاب حکومت نے پہلی بار گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفیکیٹس متعارف کرائے ہیں۔

سینئر صوبائی وزیر نے کہا کہ پہلی بار ہمارے پاس موبائل فیول ٹیسٹنگ لیبز ہیں، ای پی اے پنجاب نے پیٹرول اسٹیشنز پر پیٹرول کے معیار کو جانچنے کے لیے فیول ٹیسٹنگ شروع کر دی ہے، پچھلے 8 مہینوں میں پنجاب میں ایک ہزار 100 الیکٹرک بسیں پہنچ چکی ہیں۔مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ بریتھ پاکستان ایک بہترین مہم ہے جو ماحولیاتی آگاہی پھیلا رہی ہے، یہ ایک مشترکہ ذمہ داری ہے، اور ہم جو بھی انتخاب کرتے ہیں اس کے ماحولیاتی اور موسمیاتی اثرات ہوتے ہیں۔