برطانوی وزارتِ داخلہ نے ایک بڑی برطانوی فرم کی جانب سے لیے جانے والے انگریزی زبان کے امتحانات کو معطل کر دیا ،پ فراڈ پر سے برطانوی نشریاتی ادارے کے پروگرام پینوراما کی ایک خصوصی تحقیقاتی رپورٹ میں پردہ اٹھایا گیا،ینوراما نے اس فراڈ کو بے نقاب کرنے پر ایک سال سے زیادہ عرصے تک کام کیا

منگل 11 فروری 2014 03:59

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11فروری۔2014ء)برطانوی وزارتِ داخلہ نے ایک بڑی برطانوی فرم کی جانب سے لیے جانے والے انگریزی زبان کے امتحانات کو معطل کر دیا ہے۔اس فرم کی جانب سے لیے جانے والے امتحانات میں ہونے والے فراڈ پر سے برطانوی نشریاتی ادارے کے پروگرام پینوراما کی ایک خصوصی تحقیقاتی رپورٹ میں پردہ اٹھایا گیا۔اس پروگرام کے لیے برطانوی نشریاتی ادارے نے حکومت کی جانب سے منظور شدہ ایک انگریزی زبان کے امتحانی مرکز میں خفیہ فلم بندی کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پورے کا پورا کمرہ امیدواروں سے بھرا ہوا ہے جن کے لیے امتحان دینے کا فراڈ کیا جا رہا ہے۔

برطانوی فرم ’انگلش ٹیسٹنگ سروس‘ یا ای ٹی ایس زبانوں کے امتحان لینے والی دنیا کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔

(جاری ہے)

برطانوی وزیر داخلہ ٹیریسا مے نے کہا ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے پیش کردہ شواہد حیران کن ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کا پروگرام پینوراما گذشتہ ایک برس سے خفیہ طور پر ایجنٹوں کے ایک ایسے گروہ کی فلم بندی کر رہا تھا جو فراڈ کے ذریعے طالب علموں کے ویزا کی توسیع کرنے میں مدد کر رہے تھے۔

ہر سال یورپی یونین سے باہر کے ملکوں کے ایک لاکھ سے زیادہ طالب علم برطانوی ویزے میں توسیع کی درخواست دیتے ہیں۔ویزا فراڈ میں اصل طالب علموں کی جگہ کوئی اور امتحان دیتا ہے۔پینوراما پروگرام نے یورپی یونین سے تعلق نہ رکھنے والے کچھ طالب علموں کو، جو برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم تھے، خفیہ طور پر ان ایجنٹوں کے پاس بھیجا۔ انھوں نے جعلی طالب علموں کا روپ دھارا اور یہ ظاہر کیا کہ انھیں انگریزی زبان بولنی نہیں آتی اور وہ برطانیہ میں غیر قانونی طور پر رہنا چاہتے ہیں۔

ایک طالبہ کو لندن کے علاقے ساوٴتھ ہال میں ’سٹوڈنٹ وے ایجوکیشن‘ کنسلٹنسی بھیجا گیا۔برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا گیا کہ اگر آپ کو بالکل انگریزی نہیں آتی تب بھی سٹوڈنٹ وے کنسلٹنسی آپ کو یہ امتحان پاس کرا دیتی ہے۔ڈائریکٹر وارندر بجار نے کہا کہ آپ کی جگہ کوئی اور لڑکی امتحان میں بیٹھ جائے گی لیکن آپ کو تصویر اتروانی پڑے گی تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ آپ امتحان کے وقت موجود تھیں۔

اس معاملے کی تحقیق کرنے والوں کا کہنا تھا کہ امتحان میں سو فیصد کامیابی حاصل کرنے کی قیمت پانچ سو پاونڈ ادا کرنا پڑتی ہے جو امتحان کی اصل فیس سے تین گنا زیادہ ہے۔اس رقم کی ادائیگی کے بعد اس طالبہ کو مشرقی لندن میں حکومت سے منظور شدہ ایڈن کالج انٹرنیشنل کے امتحانی مرکز میں بھیجا گیا۔اس طالبہ کو ایک کمپیوٹر پر بیٹھا دیا گیا لیکن اصل میں انھوں نے ٹیسٹ دیا ہی نہیں۔

امیگریشن قوانین کے تحت برطانیہ میں تعلیم کی غرض سے مقیم طالب علم کام نہیں کر سکتے، لہٰذا انھیں بینک دستاویزات سے یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنا خرچ خود اٹھا سکتے ہیں۔کمرہ امتحان میں 14 طالب علم موجود تھے لیکن دراصل تمام کی جگہ کوئی اور امتحان دے رہا تھا۔اصل امیدواروں کو صرف وہاں بیٹھنا پڑا اور ان کی تصویر اتاری گئی تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ امتحان کے وقت کمرہ امتحان میں موجود تھے۔

ایک ہفتے بعد اس طالبہ کو دوبارہ کالج بلایا گیا۔ اس مرتبہ انھیں خود یہ ٹیسٹ دینا پڑا لیکن امتحان لینے والا انھیں صرف درست جواب بتاتا گیا اور وہ امتحانی پرچے میں صحیح اور غلط کے خانے میں نشان لگاتی رہیں۔وہ پرچہ جسے کرنے میں دوگھنٹے لگتے، تمام امیدواروں نے صرف دس منٹ میں مکمل کر لیا۔کچھ دن بعد جب وہ واپس گئیں تو انھیں بتایا گیا کہ انھوں نے سو فیصد نمبروں سے امتحان میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

ایڈن کالج انٹرنیشنل نے پر زور انداز میں اس فراڈ کے بارے میں علم ہونے یا اس میں شامل ہونے کی تردید کی۔کالج کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس انھوں نے امتحان لینے والے عملے کے دو ارکان کو اس قسم کے الزامات کے سامنے آنے کے بعد برطرف کر دیا تھا۔انگریزی زبان کا ٹیسٹ لینے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ای ٹی ایس ہی ’ٹی او ای آئی سی‘ امتحان کے پرچے بناتی ہے اور ان کی پڑتال کرتی ہے۔

ای ٹی ایس کا کہنا تھا کہ وہ امتحان میں بدعنوانی کو روکنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہے اور ہر ممکن اقدامات کرتی رہتی ہے۔برطانیہ میں اس کی ویب سائٹ پر یہ پیغام لگا دیا گیا ہے کہ برطانوی وزارتِ داخلہ کے کہنے پر ای ٹی ایس نے امیگریشن کی غرض سے لیے جانے والے تمام امتحانات کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے۔اس نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ جن امیدواروں کو امتحانات کی تاریخیں دی جا چکی تھیں وہ ان کی فیس واپس کرنے کے لیے ان سے رابطہ کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ برطانیہ میں رہنے کی خواہش رکھنے والوں کو بینک کی جعلی دستاویزات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔امیگریشن قوانین کے تحت برطانیہ میں تعلیم کی غرض سے مقیم طالب علم کام نہیں کر سکتے لہٰذا انھیں بینک دستاویزات سے یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنا خرچ خود اٹھا سکتے ہیں۔پینوراما پروگرام کے لیے خفیہ طور پر کام کرنے والے ایک طالب علم کو ونود کمار نے بتایا کہ ایجنسی کے پاس اس کا حل بھی موجود ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ بھارت میں اپنے ذرائع سے کسی ایسے شخص کے بینک اکاوٴنٹ کی تفصیلات حاصل کر لیں گے جو آپ کا ہم نام ہو اور اس کے بینک کی دستاویزات حاصل کر لی جائیں گی۔