لاپتہ مسعود جنجوعہ کا کیس نویں سال میں داخل ہو گیاہے مگر ڈاکٹر عمران منیر کی واضح شہادت کے باوجود بھی مسعود جنجوعہ کی بازیابی نہ ہو سکی،سپریم کورٹ کی 18فروری تک آخری مہلت بصورت دیگر سیکرٹری دفاع کو طلب کرنے کا عندیہ دیدیا

منگل 11 فروری 2014 03:52

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11فروری۔2014ء) لاپتہ مسعود جنجوعہ کا کیس نویں سال میں داخل ہو گیاہے مگر ڈاکٹر عمران منیر کی واضح شہادت کے باوجود بھی مسعود جنجوعہ کی بازیابی نہ ہو سکی۔ چھہ ماہ پہلے سپریم کورٹ نے پرویز مشرف سمیت 11 افراد کے حلف نامے جمع کروانے کا حکم دیا مگر تاحال یہ عمل مکمل نہیں ہو سکا۔ جہاں لاپتہ کے اہل خانہ کے لیے ایک دن بھی گزارنا مشکل ہوتا ہے وہاں چھ چھ ماہ انتظارکرا کے 9 سال گزار دیئے گئے ہیں۔

جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رْکنی بینچ نے پیر کواس کیس کی سماعت کے دوران شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ ہماری پولیس نے مسعود جنجوعہ لا پتہ کیس کے حوالے سے 2 اکتوبر کے بعد سے آج تک کچھ نہیں کیا۔

(جاری ہے)

دوسری طرف صوبہ پنجاب کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کو بھی تنبیہ کی کہ اپنی پولیس کی کارکردگی فوری طور پر بہتر بنائے جبکہ عدالت نے 18فروری کی آخری مہلت دیتے ہوئے کہا کہ بصورت دیگر وزارتِ دفاع کے سیکرٹری خود حاضر ہو کر جواب دہ ہونگے اور ان 5 افراد کو پیش بھی کریں گے۔

معزز عدالت نے اس بات کا بھی نوٹس لیا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ کو انکے شوہر کے حوالے سے جمع کرائے گئے بیانِ حلفی کی کاپیاں کیوں نہیں دی گئیں۔ انسانی حقوق ، آئین و قانون کو مدِنظر رکھتے ہوئے اداروں کی طرف سے پیش رفت کی اْمید ہوتی ہے مگر افسوس کہ وہ سب کا قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں۔ 11 میں سے 5 حلفی بیان ابھی تک جمع نہیں کرائے گئے جسکے لیے آخری مہلت 18 فروری تک دی گئی ہے بصورت دیگر وزارتِ دفاع کے سیکرٹری خود حاضر ہو کر جواب دہ ہونگے اور ان 5 افراد کو پیش بھی کریں گے۔

واضح رہے کہ مسعود جنجوعہ 9 سال پہلے اپنے دوست فیصل فراز کے ہمراہ لاپتہ کر دیئے گئے تھے۔ بعد میں مختلف شہادتوں کے ذریعے معلوم ہوا کہ انہیں خفیہ ایجنسیوں کہ قید میں دیکھا گیا ہے- اسی دوران سپریم کورٹ نے ایک اور جبری لاپتہ فرد ڈاکٹر عمران منیرکو خفیہ قید سے رہائی دلوائی تو اس نے سی پی او راولپنڈی راوٴاقبال اور دیگراعلیٰ افسران کی موجودگی میں پولیس کو دفعہ 161 کے تحت بیان دیا کہ اس نے مسعود جنجوعہ کو ایک خفیہ قید خانہ میں دیکھا ہے جہاں وہ خود بھی قید رہا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مقدمہ کو چلتے ہوئے چھہ سال ہو چکے تھے کہ جنرل نصرت نعیم نام کا ایک آئی ایس آئی کا سابق افسر منظرعام پر آیا اور بیان دیا کہ وہ تو شروع سے جانتا تھا کہ مسعود جنجوعہ کو دہشت گردوں نے قتل کر دیا ہے مگرمذکورہ افسر اپنے اس بیان کی کوئی شہادت پیش نہ کر سکا۔ تضادات سے بھرپور اس بیان کو سپریم کورٹ نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ آمنہ جنجوعہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب جرح کا وقت آئے گا تو یہی بیان ان کے گلے کا پھندا بن جائے گا۔ سپریم کورٹ ایک فیصلے میں جبری گمشدگی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دے چکی ہے اور وزیراعظم کو تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کروانے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔

متعلقہ عنوان :