افغانستان سے اتحادی فوج کے انخلاء کے منصوبے پر خدشات کا اظہار ، افغان فوج کی موجودہ استعداد دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے ناکافی ہے،افغانی فوج کی مکمل تربیت نہ کی گئی تو افغانستان پھردہشت گردوں کی جنت بن سکتا ہے‘تحقیقاتی رپورٹ

ہفتہ 22 فروری 2014 07:16

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22فروری۔2014ء) امریکی ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ نے افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کے منصوبے پر خدشات کا اظہار کردیا۔یہ رپورٹ امریکی کانگریس کے حکم پر مشہور امریکی تجزیاتی ادارے سی این اے اسٹریٹیجیک اسٹڈیز نے مر تب کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ افغان فوج کی موجودہ استعداد دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہے، 2014 کے آخر میں اتحادی افواج کے انخلا سے قبل افغان فوج کی مکمل تربیت نہ کی گئی تو افغانستان پھردہشت گردوں کی جنت بن سکتا ہے، اس لیے افغانستان میں فوج کی تربیت کے لیے 2018 تک بین الاقوامی ٹرینرز اور مشیروں کی موجودگی ضروری ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ طالبان پاکستان میں موجود پناہ گاہیں اپنی عسکری قوت میں اضافے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، پہلے مرحلے میں طالبان 16-2015 تک افغانستان کے دیہی علاقوں میں افغان سکیورٹی فورسز پر دباو بڑھا سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس کے بعد اپنا اثر ورسوخ اتحادی افواج کے خالی کیے گئے علاقوں تک بڑھائیں گے۔ اگلے مرحلے میں طالبان شہری علاقوں میں بڑے حملے کرسکتے ہیں۔

اس کے لیے امریکی ادارے نے تجویز کیا ہے کہ بڑے بھاری خرچے پر مضبوط افغان سکیورٹی فورسز کا قیام ضروری ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا کیا گیا کہ یہ ضروری ہے کہ افغان مشن کے بعد بھی سن 2018 تک وہاں غیر ملکی افواج کے ایک بڑے دستے کی تعیناتی، کابل حکومت سے رابطہ کاری ، بین الاقوامی تربیت کاروں اور مشیر کی افغانستان میں تعیناتی کے نتیجے میں افغانستان کو دہشت گردوں کی جنت بننے سے روکا جا سکتا ہے۔

اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال نازک دور گزر رہی ہے اور امریکا کی افغان جنگ میں شمولیت سے حاصل ہونے والے ممکنہ نتائج کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ سن 2001 میں سابق صدر جارج ڈبلیوبْش نے افغانستان میں امریکی فوج کشی کا عمل شروع کیا تھا۔افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کا مسلح جنگی آپریشن رواں برس کے اختتام پر ختم ہو رہا ہے لیکن اْس کے بعد وہاں بین الاقوامی فوج کی موجودگی کا معاملہ واضح نہیں ہے۔

صدر حامد کرزئی نے امریکا کے ساتھ باہمی سکیورٹی معاہدے کو اپریل کے صدارتی انتخابات تک التوا میں ڈال رکھا ہے۔ امریکی صدر اوباما یہ کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں امریکا انسداد دہشت گردی اور تربیتی مشنز رکھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ اْسی صورت میں ممکن ہو گا اگر نئے افغان صدر سکیورٹی معاہدے پر دستخط کر یں گے۔ اس ڈیل پر مذاکراتی عمل صدر حامد کرزئی نے مکمل کیا تھا۔

امریکا کی وفاقی حکومت کی امداد پر اپنے معاملات کو مکمل کرنے والے تجزیاتی ادارے سی این اے اسٹریٹیجیک اسٹڈیز نے کچھ سفارشات بھی پیش کی ہے۔ ان میں سے ایک میں یہ کہا گیا ہے کہ 2014 کے بعد افغان فوج اور پولیس میں مجوزہ کمی کے پلان کو ختم کر دیا جائے اور موجودہ تعداد کو برقرار رکھا جائے۔ سن 2012 کی نیٹو سمٹ میں یہ طے پایا تھا کہ بین الاقوامی فوج کے انخلا کے بعد افغان فوج اور پولیس کی مجموعی تعداد 2 لاکھ 28 ہزار 500 تک رکھی جائے گی۔

فوج اور پولیس میں کمی کرنے کی وجہ نیٹو اقوام کے لیڈروں کی وہ خوش فہمی تھی کہ سن 2015کے دوران کابل حکومت کے لیے طالبان عسکریت پسندوں کے خطرے میں بڑی کمی واقع ہو جائے گی۔ امریکی دفاعی تجزیاتی ادارے کے مطابق ایسا ہرگز دکھائی نہیں دیتا کہ اگلے برس طالبان کی مسلح کارروائیوں میں کمی پیدا ہو جائے گی۔

متعلقہ عنوان :