یوکرائنی صدر اور حزب مخالف میں بحران کے خاتمے کے لیے سمجھوتہ، یورپی یونین کی ثالثی میں قبل ازوقت صدارتی انتخابات ، 2004ء کے آئین کوآئندہ48 گھنٹوں میں بحال کیا جائے گا تاکہ یوکرائن میں پارلیمانی نظام بحال ہو جائے،معاہدے کے نقاط

ہفتہ 22 فروری 2014 07:16

کیف(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22فروری۔2014ء)یوکر ائن کے صدر وکٹر یانوکووچ اور حزب اختلاف کی تین بڑی جماعتوں کے نمائندوں نے ملک میں جاری سیاسی بحران کے خاتمے کے لیے سمجھوتے پر دستخط کر دئیے ہیں۔اس سمجھوتے پر جمعہ کی صبح صدریانوکووچ، حزب اختلاف ، یورپی اتحاد اور روس کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات میں اتفاق رائے کیا گیا تھا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اس سمجھوتے کے تحت دسمبر2014 سے پہلے قبل ازوقت صدارتی انتخابات کرائے جائیں گیاور 2004ء کے آئین کوآئندہ48 گھنٹوں میں بحال کیا جائے گا تاکہ یوکرائن میں پارلیمانی نظام بحال ہو جائے۔

اس کے علاوہ دس روز کے اندر قومی اتحاد کی نئی مخلوط حکومت بنائی جائے گی۔سمجھوتے پر دستخط کے بعد جرمنی ،فرانس اور پولینڈ کے وزرائے خارجہ نے یوکرین کی مختلف سیاسی جماعتوں کے حوصلے اور عزم کو سراہا ہے جبکہ یورپی یونین کونسل کے صدر ہرمین وان رومپے نے ملک کے حریف دھڑوں پر زور دیا ہے کہ وہ اب اپنے الفاظ کو عملی جامہ پہنائیں۔

(جاری ہے)

قبل ازیں یوکرائنی صدر نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوٹن کی حمایت سے ملک میں جاری پْرتشدد مظاہروں کے خاتمے کے لیے قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔

یوکرینی دارالحکومت کیف میں اس ہفتے کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں ستتر افراد مارے گئے ہیں۔مغرب نواز مظاہرین نے کیف کے آزادی چوک میں دھرنا دے رکھا تھا اور وہ صدر یانوکووچ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے تھے لیکن انھوں نے مستعفی ہونے کے بجائے قبل ازوقت انتخابات کرانے اور ملک میں صدارتی کے بجائے پارلیمانی نظام کو واپس لانے کے لیے 2004ء کے آئین کی بحالی کا اعلان کیا ہے۔

اس آئین کے تحت صدر کے بہت سے اختیارات وزیراعظم کو منتقل ہوجائیں گے۔یوکرائن کی سکیورٹی فورسز کے حکومت مخالفین مظاہرین پر تشدد کے بعد یورپی یونین نے اس ملک پر بعض پابندیاں عاید کردی تھیں جبکہ امریکا نے یوکرینی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے پرامن مظاہرین کے خلاف متشدد انہ کارروائیوں کا سلسلہ ختم نہ کیا تو اسے نتائج بھتنا پڑیں گے۔امریکی صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے یوکرین کے بیس اعلیٰ عہدے داروں کے نام ویزا بلیک لسٹ میں شامل کر لیے تھے اور مزید پابندیوں کی دھمکی دی تھی۔

متعلقہ عنوان :