ووٹ کی گنتی اور انتخابی نتائج مرتب کرنے کے عمل میں اصلاحات نا گزیر ہیں، فافن ،الیکشن کمیشن انتخابی عمل کو موثر اور شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے رائے دہندگان خصوصاً خواتین کی فہرستوں میں موجود تضادات دور کرنے ، پولنگ اسکیم کو بروقت حتمی شکل دینے اور انتخابی نتائج بہترکرنے جیسے فوری اور موثر اقدامات کرے، رپورٹ

ہفتہ 22 فروری 2014 07:11

اسلا م آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔22فروری۔2014ء) انتخابی عمل کو مئوثر اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چاہیے کہ وہ رائے دہندگان خصوصاً خواتین کی فہرستوں میں موجود تضادات کو دور کرنے ، پولنگ اسکیم کو بروقت حتمی شکل دینے اور انتخابی نتائج کو بہترکرنے جیسے فوری اور مئوثر اقدامات کرے۔ یہ بات جمعہ کوفری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہی گئی ۔

فافن نے اصلاحات کی یہ سفارشات انتخابات کی مشاہدہ کاری اور الیکشن کمیشن کی عوامی دستاویزات کے جائزے کے نتیجے میں ایک رپورٹ کی صورت میں تیار کی ہیں جنہیں" قومی اسمبلی کے انتخابی نتائج کا تجزیہ" کا نام دیا گیا ہے۔ ووٹوں کی متوازی گنتی، ٹرن آؤٹ کے رُجحانات، ووٹنگ کی شرح اور سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ اس رپورٹ کا حصہ ہے جو قومی اسمبلی کے 272 میں سے 266 حلقوں کے نتائج کو ظاہر کرتی ہے۔

(جاری ہے)

فافن کا کہنا ہے کہ تشویش کی اہم ترین وجہ ملک میں کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کے اجراء میں بہتری کے باوجود 2013 کے عام انتخابات کے دوران قومی اسمبلی کے 100 حلقوں میں 2008 کے عام انتخابات کے مقابلے میں ٹرن آؤٹ کم رہا۔ خواتین رائے دہند گان کی کم رجسٹریشن کا عمل حالیہ انتخابات میں بھی دیکھنے میں آیا جس سے قومی امور میں خواتین کی مساوی نمائندگی کا آئینی استحقاق مجروح ہو ا اور پارلمانی رائے دہی کے لیے عالمی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہوئی۔

حالیہ انتخابات میں کل.2 86 ملین رائے دہندگان میں سے.6 43 فیصد خواتین رائے دہندگان تھیں جبکہ2008 کے انتخابات میں 80 ملین رائے دہندگان میں خواتین کا تناسب 44 فیصد تھا۔ انتخابات سے 2 ہفتے قبل پولنگ اسکیم کو حتمی شکل دینا الیکشن کمیشن کی قانونی ذمہ دری ہے اور ریٹرننگ آفیسر اسے الیکشن کمیشن کی اجازت کے بغیر تبدیل نہیں کرسکتا۔ اور اگر اسے تبدیل کرے تو تمام متعلقہ اداروں کو بروقت آگاہ کرنا اُس کی ذُمہ داری ہوتی ہے۔

فافن کو اپنے تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ قومی اسمبلی کے 93 حلقوں میں حتمی پولنگ اسکیم اور انتخابی نتائج کی دستاویز میں 246,858 رائے دہندگان کا فرق ہے جو بہت بڑا تضاد ہے۔ ان 93 حلقوں میں سب سے زیادہ 57 حلقے پنجاب سے ہیں جہاں حتمی پولنگ اسکیم اور انتخابی نتائج کے فارم میں درج رائے دہندگان کی تعداد میں تضاد پایا گیا ہے۔ جبکہ16 حلقے خیبر پختونخوا، سندھ کے 15، فاٹا کے 4 اور اسلام آباد کا ایک حلقہ شامل ہیں۔

تعداد کے لحاظ سے رائے دہند گان کو دیکھا جائے تو پنجاب سے 233,225 (94.5% )، خیبر پختونخوا سے 6,462 (2.6% )، سندھ سے 6,317 (2.6% ) جبکہ اسلام آباد سے 274 (0.1% ) رائے دہندگان شامل ہیں جن کی تعداد میں تضاد پایا گیاہے۔ انتخابی عمل کی شفافیت کے لیے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ رائے دہندگان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک خاص وقت کے بعد پولنگ اسکیم میں تبدیلی نہ ہونے دے۔

انتخابات کی شفافیت کے لیے ضروری ہے کہ ووٹوں کی گنتی کے عمل جس میں بیلٹ کی گنتی، ووٹ کی گنتی اور انتخابی نتائج کو مرتب کرنے کے عمل شامل ہیں کو شفاف بنائے۔ انتخابات کے فوراً بعد الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ انتخابی نتائج کے ساتھ ساتھ فارم 14 (Statement of the count )، فارم 15 (Ballot paper count )، فارم 16 (consolidation of result of the count ) اور فارم 17 (Result of the Count ) بھی جاری کرے تاکہ انتخابی عمل کی شفافیت یقینی بنائی جاسکے۔

اس عمل کی ضرورت اس امر سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ حالیہ انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر شائع کیے گئے فارم 17 پر مُسترد ووٹوں کی تعداد اور جیتنے والے اُمیدواروں کے سرکاری نتائج میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد درج نہیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ ایسے انتخابی حُکام جن کے مرتب کردہ نتائج میں تضادات ہیں انہیں ذمہ دار ٹھہرائے اور اُن کے خلاف سخت اقدامات کرے تاکہ مستقبل میں انتخابات کے دوران ایسی بے قاعدگیوں سے بچا جاسکے۔

2013 کے عام انتخابات میں جو اہم مسئلہ سامنے آیا وہ مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد میں غیر متناسب اور واضح اضافہ تھا۔ مسترد ووٹوں کی تعداد 2002 میں 775,720 ،2008 میں 973,694 تھی جبکہ 2013 میں 64 فیصد کے واضح اضافہ کے ساتھ زیر مشاہدہ 266 حلقوں میں مسترد ووٹوں کی تعداد 1,502,717 تک جاپہنچی۔ مسترد شدہ ووٹوں کا مسئلہ نہ صرف تعداد کی وجہ سے حساس ہے بلکہ مختلف حلقوں اور علاقوں میں اس کی تعداد میں واضح تضاد بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

جیساکہ این اے 53 میں مُسترد شدہ ووٹوں کی تعداد صفر جبکہ این اے 266 میں یہ تعداد 25908 رہی۔ رپورٹ کے مطابق نتائج کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مسترد ووٹوں کا معاملہ زیادہ گھمبیر ہو جاتا ہے جیسا کہ 266 میں سے 35 حلقوں میں مسترد ووٹوں کی تعداد جیت کے فرق سے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے زیرمشاہدہ 266 حلقوں میں ٹرن آؤٹ کی شرح حوصلہ افزاء رہی۔

266 حلقوں میں متوازی گنتی کے مطابق (0.03 فیصد کمی بیشی کے امکان کے ساتھ) شہری اور دیہی حلقوں کا مجموعی ٹرن آؤٹ 54.7 فیصد رہا۔ رپورٹ میں ٹرن آؤٹ کا شہری و دیہی تقابلی جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 2008 کے انتخابات کے مقابلے میں شہری حلقوں کے ٹرن آؤٹ میں 17 فیصد کا واضح اضافہ ہوا، شہری اکثریت اور غالب شہری اکثریت والے حلقوں میں بھی ٹرن آؤٹ کی شرح بالترتیب 13.2 اور 12.8 فیصد بڑھی جبکہ غالب دیہی اکثریت کے حلقوں میں 10.9 فیصد اور دیہی اکثریتی حلقوں میں 10.6 فیصد زیادہ رہی۔

2013 کے عام انتخابات میں علاقوں اور صوبوں میں مختلف جماعتوں نے اتارچڑھاؤ دیکھے، سندھ میں زیادہ تر نتائج گزشتہ انتخابات جیسے ہی رہے جہاں دیہی علاقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کا پلہ بھاری رہا جبکہ شہری علاقوں خصوصاً کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ نے اپنی اکثریت برقرار رکھی تاہم دوسرے تمام صوبوں میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ تبدیلی کی خواہش کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ملا۔

بلوچستان میں پختون اور بلوچ قوم پرست جماعتوں نے ایک بار پھر جگہ بنائی۔ مذہبی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام(ف) نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے نمایاں نشستیں حاصل کیں۔ سندھ کے علاوہ انتخابات میں عوام کی طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا۔ 2013 کے عام انتخابات میں 266 حلقوں میں 4462 امیدواروں نے حصہ لیا۔

سب سے زیادہ 230 حلقوں سے امیدوار پاکستان تحریک انصاف نے کھڑے کیے جس کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے 227 حلقوں میں امیدوارسامنے آئے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) 215 امیدواروں کے ساتھ تیسرے اور متحدہ قومی موومنٹ 207 امیدواروں کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہی۔ آزاد امیدواروں کی تعداد 2343 رہی جبکہ دیگر جماعتوں نے مجموعی طور پر 1240 امیدوار میدان میں اُتارے۔

عورتوں کی نمائندگی اور شرکت کے اعتبار سے 2013 کے عام انتخابات میں خواتین امیدواروں کی تعداد 161 رہی جو کہ 2002 اور 2008 کے انتخابات میں شریک خواتین امیدواروں سے واضح طور پر زیادہ تھی۔ 2002 اور 2008 کے عام انتخابات میں بالترتیب 61 اور75 خواتین امیدواروں نے شرکت کی تھی۔ 2013 کے عام انتخابات میں شریک 161 خواتین امیدواروں میں سے 123 نے آزاد حیثیت سے یا پھر چھوٹی علاقائی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا۔

آزادحیثیت سے انتخابی عمل میں شریک خواتین کی تعداد 95 جبکہ چھوٹی علاقائی جماعتووں کے ٹکٹ پر حصہ لینے والی خواتین کی تعداد 28 تھی۔ قومی سطح کی بڑی سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین نے 15 خواتین کوٹکٹ جاری کیے جبکہ مُتحدہ قومی موومنٹ نے8،پاکستان مسلم لیگ (ن)7 ، پاکستان تحریک انصاف 6 ، اور پاکستان مسلم لیگ نے 2 خواتین کو ٹکٹ جاری کیے۔

161 میں سے صرف 6 خواتین اپنے حلقوں سے جیت کر پارلیمنٹ پہنچیں حالانکہ 2002 کے عام انتخابات میں شریک 61 خواتین امیدواروں میں سے 13 جبکہ 2008 کے عام انتخابات میں شریک 75 خواتین امیدواروں میں سے16 خواتین منتخب ہوئی تھیں۔ فافن الیکشن کمیشن آف پاکستان سے سفارش کرتا ہے کہ رائے دہندگان کے اندراج ، پولنگ سکیم کی بروقت تکمیل اور انتخابی نتائج کو مرتب کرنے کے عمل میں موجود بے ضابطگیوں کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ اقدامات قابل اعتماد اور شفاف انتخابات کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ اس سے شہریوں کا جمہوری عمل پر اعتماد بڑھے گا قابل احتساب ، شفاف اور موثر گورننس کو فروغ حاصل ہو گا۔