سپریم کورٹ پاکستان نے دہشت گردی کے مقدمے میں مصالحت قبول کرنے کی درخواست پر محکمہ پراسکیوشن کو معاونت کیلئے طلب کرلیا، دہشت گردی ریاست کیخلاف جرم ہوتی ہے، اس میں مصالحت کیسے قبول کی جا سکتی ہے ،چیف جسٹس پاکستان

بدھ 11 جون 2014 07:14

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11جون۔2014ء)سپریم کورٹ پاکستان نے دہشت گردی کے مقدمے میں مصالحت قبول کرنے کی درخواست پر محکمہ پراسکیوشن کو معاونت کیلئے طلب کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ دہشت گردی ریاست کیخلاف جرم ہوتی ہے، اس میں مصالحت کیسے قبول کی جا سکتی ہے ،چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے آصف صدیق کی مصالحت اور سزائے موت کیخلاف اپیل کی سماعت کی، اپیل کنندہ کے وکیل نے بنچ کو بتایا کہ گوجرانوالہ کے رہائشی آصف صدیق نے دو ہزار دو میں محمد سرور سمیت چار افراد کو قتل کیا، پولیس نے قتل اور دہشت گردی کے دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جس میں ٹرائل کورٹ نے ملزم کو موت کی سزاسنائی ، وکیل نے بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ مجرم کی اپیل خارج کر چکی ہے، انہوں نے بتایا کہ مقتول محمد سرور کے ورثاء اور مجرم آصف صدیق کے درمیان مصالحت ہو گئی ہے،لہذآصف صدیق کی مصالحت اور سزائے موت کیخلاف اپیل منظور کر کے رہا کیا جائے، اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دہشت گردی ریاست کیخلاف جرم ہوتا ہے اس میں مصالحت کیسے قبول کی جاسکتی ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات میں مصالحت غیرقانونی ہے، بنچ نے مجرم آصف صدیق کے وکلاء اور محکمہ پراسکیوشن کو ہدایت کی کہ دہشت گردی کے مقدمات میں مصالحت کے نکتے پر عدالت کی معاونت کی جائے ، عدالت نے کیس کی سماعت اگلے ماہ تک ملتوی کر دی۔