غازی رشید قتل کیس،چالان کی اہمیت برقرار رکھنے کیلئے سونا چوری کے الزام میں گرفتار تفتیشی افسر کو بحال کرنے پر غور شروع،ہارون الرشید غازی کے وکلاء افتخار چٹھہ کی گرفتاری کو بنیاد بناکر مشرف کے متعلق وفاقی پولیس کی تمام انکوائری کو چیلنج کردیں گے،شہداء فاؤنڈیشن

بدھ 11 جون 2014 07:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11جون۔2014ء) لال مسجد کے نائب خطیب علامہ عبدالرشید غازی شہید اور ان کی والدہ صاحب خاتون شہید کے قتل کے مقدمے میں وفاقی پولیس کے چالان کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لئے وفاقی پولیس نے علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کے تفتیشی افسر افتخار چٹھہ کو ایس ایچ او تھانہ کورال کی حیثیت سے دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

افتخار چٹھہ کروڑوں روپے مالیت کے سونا چوری کے الزام میں 28مئی سے گرفتار ہیں۔ اسلام آباد پولیس کے باوثوق ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ وفاقی پولیس کے اعلیٰ ترین افسران نے کروڑوں روپے مالیت کے سونا چوری میں ملوث علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کے تفتیشی افسر افتخار چٹھہ کو رہا کرکے دوبارہ ایس ایچ او کی حیثیت پر بحال کرنے کے لئے بھرپور کوششیں شروع کردی ہیں۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کے تفتیشی افسر افتخار چٹھہ کے خلاف گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے سونا چوری کیس کے مدعی طاہر عزیز پر شدید دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ افتخار چٹھہ سے صلح کرکے مقدمے سے دستبردار ہوجائیں۔وفاقی پولیس کے باوثوق ذرائع کے مطابق گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے تاجر طاہر عزیز کو وفاقی پولیس حراساں کررہی ہے کہ اگر انہوں نے افتخار چٹھہ سے صلح نہ کی تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔

افتخار چٹھہ و طاہر عزیز نامی تاجر کے درمیان صلح کرانے کے لئے وفاقی پولیس ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔ وفاقی پولیس کے ذرائع کے مطابق قوی امکان ہے کہ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے تاجر طاہر عزیز و افتخار چٹھہ کے درمیان 12جون سے قبل صلح ہوجائے گی اور افتخار چٹھہ بطور ایس ایچ او تھانہ کورال اپنی ذمہ داریاں وفاقی پولیس میں دوبارہ سنبھال لیں گے۔

یاد رہے کہ علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کے تفتیشی افسر و کروڑوں روپے مالیت کے سونا چوری میں ملوث افتخار چٹھہ کا تعلق بھی گوجرانوالہ سے ہے۔اس لئے گوجرانوالہ کی کچھ اہم شخصیا ت بھی افتخار چٹھہ اور تاجر طاہر عزیز کے درمیان صلح کرانے کے لئے سرگرم ہوگئے ہیں۔وفاقی پولیس کے انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق وفاقی پولیس کے اعلیٰ افسران کو خدشہ ہے کہ 12جون کو علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کی ایڈیشنل اینڈ سیشن جج واجد علی خان کی عدالت میں سماعت کے موقع پر پرویزمشرف کی بے گناہی کے متعلق پولیس کی طرف سے تیار کردہ مکمل چالان پیش کیا گیا تو صاحبزادہ ہارون الرشید غازی کے وکلاء افتخار چٹھہ کے سونا چوری کے ایک مقدمے میں گرفتاری کو بنیاد بناکر پرویزمشرف کے متعلق وفاقی پولیس کی تمام انکوائری کو چیلنج کردیں گے اور ایسی صورت میں ہارون الرشید غازی کے وکلاء پرویزمشرف کی بے گناہی کے متعلق وفاقی پولیس کے چالان کو باآسانی مسترد کروانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

واضح رہے کہ علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کی انکوائری کے لئے آئی جی اسلام آباد نے پانچ رکنی پولیس کی اعلیٰ سطحی تفتیشی ٹیم تشکیل دی تھی۔مگر مذکورہ ٹیم نے کسی بھی مرحلے پر پرویزمشرف کے خلاف انکوائری میں حصہ نہیں لیا۔علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کی تمام انکوائری افتخار چٹھہ نے ہی اکیلے مکمل کی ہے۔اس وجہ سے وفاقی پولیس کے اعلیٰ افسران ہر صورت کروڑوں روپے مالیت کے سونا چوری میں ملوث افتخار چٹھہ کو تحفظ دینا چاہتے ہیں۔

علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کی پولیس انکوائری کے متعلق مزید اہم انکشافات ہوئے ہیں۔30نومبر 2013کو وفاقی پولیس نے علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کے پہلے نامکمل چالان میں پرویزمشرف کو خانہ نمبر دو میں رکھتے ہوئے جب پہلی دفعہ بے گناہ قرار دیا تو لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے لال مسجد میں نماز جمعہ کے ایک اجتماع میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وفاقی پولیس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

اس وقعہ کے بعد اس وقت کے آئی جی پولیس سکندر حیات اور مولانا عبدالعزیز کے ایک مشترکہ دوست نے مولانا عبدالعزیز اور آئی جی سکندر حیات کی ایک ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔آئی جی پولیس سکندر حیات نے لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز سے مذکورہ ملاقات میں انکشاف کیا تھا کہ”لال مسجد آپریشن سے قبل میں ایس ایس پی اسلام آباد تھا، ہم جانتے ہیں کہ پرویزمشرف ہی لال مسجد آپریشن کے اصل ذمہ دار ہیں لیکن کوئی واضح ثبوت ابھی تک پولیس کو نہیں مل سکا“۔

مولانا عبدالعزیز نے اس پر سکندر حیات سے استفسار کیا کہ اور کس طرح کے ثبوت آپ کو چاہئیے ہیں؟کئی گواہان نے پولیس کو اپنے واضح بیانات قلم بند کرادیئے ہیں تب بھی آپ کہتے ہیں کہ پرویزمشرف کے خلاف کوئی واضح ثبوت نہیں ملے۔مولانا عبدالعزیز نے اس وقت کے آئی جی سکندر حیات سے یہ بھی استفسار کیا کہ ”علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس میں پرویزمشرف کو بطور ملزم گرفتار کرنے کے بعد وفاقی پولیس نے پرویزمشرف ے ساتھ جسمانی ریمانڈ میں کیا وہی طریقہ کار اختیار کیا تھا جو کسی قتل کے عام ملزم کے ساتھ کیا جاتا ہے؟کیا وفاقی پولیس نے دوران ریمانڈ پرویزمشرف کو ایک تھپڑ بھی مار کے انکوائری کی؟“۔

اس پرآئی جی پولیس سکندر حیات نے مولانا عبدالعزیز کو جواب دیا کہ’ ’پولیس نے دوران تفتیش پرویزمشرف کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو کسی عام قتل کے ملزم کے ساتھ کیا جاتا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ پرویزمشرف آرمی چیف رہے ہیں،فوجی ریٹائرڈ ہونے سے پہلے بھی بادشاہ ہوتا ہے اور ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی۔یہ ہماری مجبوری ہے کہ جس وجہ سے پرویزمشرف کے ساتھ عام ملزموں کی طرح سلوک نہیں کرسکتے۔

متعلقہ عنوان :