سینٹ کمیٹی کاتیل و گیس کمپنیوں میں مقامی لوگوں کو وعدہ کے مطابق نوکریاں نہ دینے پر سخت تشویش کا اظہار،تین دن میں معاہدوں کی تفصیلات طلب،ان علاقوں کے پڑھے لکھے نوجوان ڈگریاں ہاتھو ں میں لئے پھر رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں،وعدہ کیا گیا تھا مقامی آبادی کو 80 فیصد نوکریاں دینگے 20 فیصدبھی نہیں دے رہے،طلحہ محمود کا کمپنیوں سے پچھلے تین سال کے ترقیاتی کاموں کا ریکارڈ پیش کرنے کا مطالبہ ،غیرملکی کمپنیوں کو تیل و گیس کی تلاش کی اجازت دی جائے،تجویز دیدی

جمعرات 19 جون 2014 07:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19جون۔2014ء)سینٹ کی پٹرولیم و قدرتی وسائل کی ذیلی کمیٹی نے مختلف تیل و گیس کمپنیوں میں مقامی لوگوں کو وعدہ کے مطابق نوکریاں نہ دینے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان کمپنیوں سے تین دن میں معاہدوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں اور کہا ہے کہ ان علاقوں کے پڑھے لکھے نوجوان ڈگریاں ہاتھو ں میں لئے پھر رہے ہیں مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔

ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ مقامی آبادی کو ان کمپنیوں میں 80 فیصد روزگار فراہم کیا جائیگا۔ مگر یہ 20 فیصد کے برابر بھی نہیں ہے ۔رکن کمیٹی سینیٹر طلحہ ٰ محمود نے کمپنیوں سے پچھلے تین سال کی ترقیاتی کاموں کی سکیموں کا ریکارڈ کمیٹی میں پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تجویز دی کہ غیرملکی کمپنیوں کو تیل و گیس کی تلاش کی اجازت دی جائے۔

(جاری ہے)

سینیٹ کی ذیلی کمیٹی برائے پیڑولیم اینڈ قدرتی وسائل کا اجلاس کنوینیر کمیٹی سینیٹر عبدالنبی بنگش کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا ۔

جس میں سینیٹرمحمد طلحہٰ محمود کے علاوہ سیکریٹری پیڑولیم عابد سعید ، قائمقام مینجنگ ڈائریکٹرسوئی نادرن، قائمقام مینیجنگ ڈائریکٹر او جی ڈی سی ایل ، ایم ڈی پی ایس او امجد پرویز جنجوعہ، مینیجر مول ، اے سی کوہاٹ ، اے سی کرک ، سماجی کارکنوں اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں تیل و گیس کی تلاش و پیداوار کی کمپنیوں کے گیس کی پیدوار کے اضلاع ، ہنگو ، کرک اور کوہاٹ میں سماجی بہبود کے منصوبوں اور مقامی افراد کی ان کمپنیوں میں ملازمت کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

کنوینیر کمیٹی سینیٹر عبدالنبی بنگش نے کہا کہ پارلیمنٹرین عوام کے نمائندے اور ترجمان ہوتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ عوام کے بنیادی حقوق کا خیال رکھیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان قدرتی معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے اور خاص طور پر خیبر پختونخواہ میں گیس و تیل و دیگر معدنیات کی بہتات ہے مگر یہاں کی عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے ۔

ٹل بلا ک سے تیل و گیس پورے ملک کو فراہم کی جاتی ہے مگر یہاں کی عوام کو نہ ہی گیس اور نہ ہی روزگار اور دیگر بنیادی سہولیات میسر ہیں ۔تیل و گیس کی تلاش کرنیوالے کمپنیوں میں بھی مقامی آبادی کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ان علاقوں کے پڑھے لکھے نوجوان ڈگریاں ہاتھو ں میں لئے پھر رہے ہیں مگر ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ مقامی آبادی کو ان کمپنیوں میں 80 فیصد روزگار فراہم کیا جائیگا۔

مگر یہ 20 فیصد کے برابر بھی نہیں ہے ۔انہوں نے حکومت اور تیل و گیس کمپنیوں ، جن میں مول ، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل شامل ہے، سے سفارش کی کہ مقامی آبادی کو بنیادی سہولیات کے ساتھ ساتھ روزگار کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور یہ کمپنیاں تین دن کے اندر اپنے معاہدے کی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کریں ۔قائمقام ایم ڈی سوئی ناردرن گیس کمپنی نے کمیٹی کو بتایا کہ کمپنی میں خیبر پختونخواہ کے 274 افسران اور 1520سٹاف ہے جو کل ملازمت کا 19.93فیصد بنتا ہے ۔

جبکہ پنجاب سے اس کمپنی کے 6836ملازمین ہیں جن میں سے 954افسران اور 5882ماتحت ہیں جو کل ملازمت کا 75فیصد بنتے ہیں ۔ فاٹا سے 13افسران اور 119سٹاف کے لوگ شامل ہیں جبکہ بلوچستان سے 19افسران اور 78سٹاف کے لوگ ہیں ۔ گلگت بلتستان سے ایک افسر اور تین ماتحت اور آزاد جموں اینڈ کشمیر سے 9افسران اور65ماتحت شامل ہیں ۔ سوئی نادرن گیس کمپنی میں کل 9002ملازمین ہیں جن میں سے 1294افسران اور 7708آفیشلز کام کر رہے ہیں ۔

جس پر کنوینر کمیٹی نے کہا کہ اس کمپنی کا خیبرپختونخواہ میں بہتر سیٹ اپ قائم کیا جائے اور مقامی لوگوں کو کمپنی میں شامل کر کے سیکورٹی کو مضبوط بنایا جائے ۔ جہاں سے تیل و گیس نکالا جا رہا ہے وہاں کی عوام کو بنیادی سہولیات ، ہسپتال ، سکول ، سٹرکیں ، صاف پانی وغیرہ کی فراہمی ان کمپنیوں کا فرض ہے ۔ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں ضلع کوہاٹ ، ہنگو اور کر ک کے ڈی سی او کی شرکت یقینی بنانے کی ہدایت کر دی۔

ان علاقوں کی رائلٹی کی مد میں حاصل ہونے والے فنڈز اور اخراجات کی تفصیل اور ان کمپنیوں میں کام کرنیوالے افراد کے ڈومیسائل اور سی این آئی سی کی تفصیل بھی طلب کر لی ۔ عبدالنبی بنگش نے کہا کہ ٹل بلاک سے اربوں روپے کا تیل ،گیس اور معدنیات حاصل کئے جا رہے ہیں مگر ان علاقوں کی عوام کیساتھ ظلم اور زیادتی کی بھی انتہا ء کی جار ہی ہے ۔ یہاں کی گیس پورے ملک کو فراہم کی جار ہی ہیں مگر مقامی آبادی اس کے لئے ترس رہی ہے۔

رکن کمیٹی سینیٹر طلحہ ٰ محمود نے ان کمپنیوں سے پچھلے تین سال کی ترقیاتی کاموں کی سکیموں کے بارے میں پوچھا اور مطالبہ کیا کہ اس کا ریکارڈ کمیٹی میں پیش کیا جائے ۔سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ کمیٹی حکومت اور خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ کو خط لکھے کہ ٹل بلا ک کو گیس کی سپلائی فراہم کی جائے اور مقامی آبادی کو زیادہ سے زیادہ ملازمت فراہم کر کے ان کمپنیوں کی سیکورٹی کو محفوظ بنایا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ چین کی کمپنیاں پاکستان اور خاص طور پر خیبر پختونخواہ میں معدنیا ت کی تلاش کے سلسلے میں کام کرنا چاہتی ہیں مگر ان کو کام کی اجازت نہیں دی جاتی ۔انہوں نے تجویز دی کہ غیر ملکی کمپنیوں کو معدنیات کی تلاش کی اجازت دی جائے تاکہ ان علاقوں سے معدنیات کی دریافت سے ملک و مقامی آبادی کو خوشحالی میسر ہو سکے ۔ ذیلی کمیٹی نے او جی ڈی سی ایل ، مول اور پی پی ایل کمپنیوں میں خیبر پختونخواہ کے تیل و گیس کے اضلاع کی مقامی آبادی کو دی جانیوالی ملازمت کی تعداد پر برہمی کا اظہار کیا اور اسے 80فیصد کرنیکی کی ہدایت کر دی اور مول کمپنی میں ملازمت کے حصول کیلئے عوام کی رسائی کو آسان بنانے کی سفارش بھی کر دی اور آئندہ اجلاس میں ڈی سی او ہنگو ، کرک اور کوہاٹ کی شرکت اور تیل و گیس کمپنیوں سے سفارش کی کہ گرُگری اور دلن کی سٹرک کی مرمت کا کام کیا جائے تاکہ عوام کو سفر کی بہتر سہولیات فراہم ہوں ۔

متعلقہ عنوان :