لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مستقلی اور تنخواہوں کی ادائیگی کیس،سندھ حکومت سے جاری آرڈیننس کی کاپی،خیبر پختونخواہ حکومت سے سپریم کورٹ کی ہدایت کا تذکرہ کرنے پر وضاحت طلب، اسلام آباد کے حوالے سے وفاقی حکومت سے فوری جواب طلب، لیڈی ہیلتھ ورکروں کی مستقلی اور تنخواہوں کی ادائیگی کے حوالے سے صوبوں نے خود بیان حلفی جمع کرایا تھا،جسٹس جواد ایس خواجہ،توہین عدالت کیس میں صرف اتنا جائزہ لینا ہے کہ عدالت میں جمع کرائے گئے بیانات پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے ،عدالتوں کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دے سکتے،قانون کا پتہ نہیں تو کسی قانون دان سے پوچھ لیں کہ آرڈیننس کیسے جاری ہوگا،ریمارکس

جمعرات 19 جون 2014 07:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔19جون۔2014ء)سپریم کورٹ نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مستقلی اور تنخواہوں کی ادائیگی کے مقدمے میں سندھ حکومت سے جاری کردہ آرڈیننس کی کاپی جبکہ خیبر پختونخواہ حکومت سے سپریم کورٹ کی ہدایت کا تذکرہ کرنے پر وضاحت طلب کی ہے جبکہ عدالت کو بتایا گیا ہے حکومت بلوچستان اور حکومت پنجاب نے لیڈی ہیلتھ ورکروں کا معاملہ حل کر لیا ہے اور ان کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی کی جاری ہے جبکہ عدالت نے اسلام آباد کے حوالے سے وفاقی حکومت سے فوری جواب طلب کیا ہے ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکروں کی مستقلی اور تنخواہوں کی ادائیگی کے حوالے سے صوبوں نے خود بیان حلفی جمع کرایا تھا ۔ہم نے توہین عدالت کیس میں صرف اتنا جائزہ لینا ہے کہ عدالت میں جمع کرائے گئے بیانات پر کس حد تک عمل کیا گیا ہے ۔

(جاری ہے)

صوبوں نے جو قانون سازی کی ہے اس پر ہم نہیں جائیں گے۔ درخواست گزار چاہے تو اس حوالے سے قانون کے مطابق متعلقہ فورم سے رجوع کر سکتی ہیں ۔

جب تک کوئی بھی آرڈیننس گزٹ کا حصہ نہ بن جائے،آرڈیننس نہیں کہلا سکتا۔ انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں ۔ آج (جمعرات کو) بھی مذکورہ مقدمے کی سماعت جاری رہے گی ۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ پنجاب میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تنخواہوں کی ادائیگی کر دی گئی ہے ۔سندھ کی جانب سے بتایا گیا کہ20 مئی2014 کو آرڈیننس جاری کردیا گیا ہے اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کا معاملہ حل کر دیا گیا ہے ۔

جسٹس جواد نے کہا کہ آپ گزٹ دکھائیں یہ آرڈیننس کہاں لکھا گیا ہے ۔ہمیں پتہ ہے کہ آرڈیننس کیسے جاری کرتا ہے اور کس طرح نوٹیفائی ہوتا ہے یہ آرڈیننس نہیں ہے۔ سندھ حکومت نے بتایا آرڈیننس کام کررہا ہے ۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ نے جو کاپی دی ہے یہ آرڈیننس نہیں ہے ۔جسٹس جواد نے کہا کہ قانون شہادت میں بھی اس کو آرڈیننس تسلیم نہیں کیا جائیگا۔

گزٹ میں نہیں جائے گا تو آرڈیننس کیسے بنے گا۔ایک دن لگتا ہے ہم اس کو قبول نہیں کر سکتے۔ بے شک اس پر گورنر کے دستخط موجود ہیں ۔سندھ حکومت کے نمائندے نے کہا کہ ہم آپ کو3 روز میں آرڈیننس پیش کر دیں گے۔جسٹس جواد نے کہا کہ آپ کو تین منٹ دے رہے ہیں ۔گزٹیڈ آرڈیننس دیں وگرنہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔ عدالت کے ساتھ مذاق نہ کریں اس پر سندھ حکومت کے افسر نے کہا کہ ایک روز کا وقت دے دیں ہم کاپی دے دیں گے۔

جسٹس جواد نے کہا کہ یہ سرکار کا کام نہیں ہے جو آپ لیڈی ہیلتھ ورکروں سے 15 سے زائد کام کراتے ہیں ۔تنخواہ نہیں دینی گریڈ نہیں دیتے جب تک عدالت نہ بولے۔ عدالتوں کا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔کسی کو قانون کا پتہ نہیں تو وہ کسی قانون دان سے پوچھ لے کہ آرڈیننس کیسے جاری ہوگا۔ بلوچستان حکومت کی جانب سے جواب داخل کرایا گیا ہے کہ11 جون 2014 کو نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔

ایک سے 15 سکیل تک نوٹیفائی کر دیا گیا ہے اور یہ سب سول سرونٹ ایکٹ کے تحت کیا گیا ہے ۔لیڈی ہیلتھ ورکرز کو حکومت پہلے ہی ریگولیرائزڈ کرچکی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ مارچ2014 کی تنخواہ ادا کر دی گئی ہے بشری آرائیں نے بتایا کہ پچھلے سات ماہ کی تنخواہ نہیں مل سکی ہے اس پر اے جی بلوچستان نے ایک روز کا وقت مانگا ہے ۔عدالت نے کہا کہ مارچ تک تنخواہوں کی ادائیگی کا ریکارڈ دیا جائے ۔

آرڈر میں کہاگیا ہے کہ خیبر پختونخواہ کے ایڈووکیٹ جنرل نے جواب داخل کرایا ہے۔ خیبر پختونخواہ حکومت نے21 مئی2014 کو آرڈیننس جاری کر دیا ہے ۔جسٹس جواد نے کے پی کے کے لاء افسر سے کہا کہ ہم نے تو آپ کو ہدایت نہیں کی تھی آپ نے خود بیان دیا تھا اور کہا تھا کہ ان کو آپ باقاعدہ کردیں گے۔ یہ معاملہ آپ ہم پر نہ ڈالیں ،ہمیں اپنے اختیار کا بھی پتہ ہے ۔

آپ جمعرات کو بتائیں کہ آپ نے ایسا کیوں لکھا ہے۔ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے بتایا کہ اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہے ۔آرڈیننس کو ایکٹ میں تبدیل کرانے کے لئے اسمبلی میں پیش کردیں گے۔ عدالت نے کہا کہ جمعرات کو بتلا دیں۔پنجاب حکومت کی جانب سے رزاق اے مرزا نے جواب داخل کرایا اور بتایا کہ ہم نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا معاملہ پہلے ہی حل کر دیا ہے اور تنخواہیں بھی اپ ڈیٹ ہیں ۔

27 مارچ 2014 کو حکومت پنجاب نے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔قانون سازی کے لئے کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔ بشری آرائیں کا کہنا ہے کہ انہیں کمیٹی کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں ۔عدالت کا کہنا تھا کہ وہ صرف توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کررہے ہیں ۔اگر اس کو کوئی خلاف ورزیاں ہوئی ہے تو وہ عدالت کو بتایا جائے۔باقی معاملات کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔

قانون سازی آئین ہے یا نہیں اس کا جائزہ باقی فورم پر ہو سکتا ہے ۔عدالت نے آرڈر میں مزید لکھا کہ سندھ حکومت نے بھی آرڈیننس جاری کر دیا ہے ۔اس کی کاپی پیش کرنے کے لئے وقت دیا جائے ۔اسلام آباد کے علاقے کے حوالے سے ساجد بھٹی نے بتایا کہ نئی سیٹیں نکال لی گئی ہیں ۔تنخواہوں کی ادائیگی کی جاری ہے۔جسٹس جواد نے کہا کہ7 لوگ بشری آرائیں کے ساتھ آتے ہی ان کو پانچ ہزار روپے دیئے جائیں اس کو جمعرات کے آرڈر میں لکھیں گے۔